
خبر ہے کہ بھارت کے تاریخی شہر اور مغل سلطنت کے پایہ تخت آگرہ سے ذوالفقار احمدبھٹو انتخاب ہار گئے ہیں۔پاکستانی قارئین یا پیپلز پارٹی کے زعماء کو چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ذوالفقار بھٹو دلت راہنما مایا وتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے امیدوار تھے۔ انہیں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوگندر اپادھیائے نے ۵۰ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ رہی سہی کسر کانگریس کے مسلمان امیدوار نذیر احمد نے پوری کی، جس نے مسلمانوں اور دیگر سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرکے بھٹو صاحب کی شکست یقینی بنائی۔یہ صرف آگرہ کا قصہ نہیں ہے، بلکہ بھارت کے سب سے بڑے اور انتخابی لحاظ سے اہم صوبہ اتر پردیش کے حال ہی میں اختتام پذیر انتخابات کے نتائج کا منظر نامہ ہے۔ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندی مودی کی سونامی نے صوبہ کی مسلم غلبہ والی ۱۴۴؍اسمبلی سیٹوں میں سے ۱۱۹ پر قبضہ کرکے مسلم ووٹ بینک کی ہوا نکال دی۔ گو کہ ان پانچ صوبائی انتخابات میں پنجاب، گوا اور منی پور میں سیکولر جماعتوں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا، مگر اتر پردیش اور اس سے متصل اترا کھنڈ صوبہ میں سیکولر پارٹیوں کی کراری ہار ایک عبر ت ہے۔
ان انتخابات نے کانگریس کے ’ولی عہد‘ راہول گاندھی کی قیادت پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ اسی طرح ان نتائج نے صوبہ کے چار کروڑ سے زائد مسلمانوں کو یہ باور کرادیاکہ وہ اپنی فیصلہ کن سیاسی حیثیت کھوچکے ہیں۔اب نئی ۴۰۳ رکنی اسمبلی میں ان کی نمائندگی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ سب سے نچلی سطح یعنی ۲۵ پر آگئی ہے۔ جبکہ پچھلی اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد ۶۹ تھی۔ وزیراعظم مودی کے ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کے نوٹ کالعدم کرنے، قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور اقتصادی بحران نے عوام کو خاصی پریشانیاں میں مبتلا کیا ہوا تھا، مگر لگتا ہے، کہ پاکستان کے خلاف مبینہ سرجیکل اسٹرائیکس، مسلم آبادی میں اضافہ کے مفروضوں جیسے جذباتی نعروں نے ہندو آبادی کو بی جے پی کے حق میں کیا۔ ان نتائج نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ فی الحال ملک کے ایک تہائی عوام کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
جہاں تک صوبہ میں حکمران سماج وادی ایس پی کی ناکامی کا معاملہ ہے،اس میں بے انتہا اقربا پروری اور خاندانی بالادستی کی کشمکش کے نتیجہ میں پارٹی ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔ بی جے پی جیسی مادی اور افرادی وسائل سے مالامال جماعت کے لیے میڈیا اور انتظامیہ میں ہمدردی بٹورنا آسان ہوگیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے بھی ’’شمشان اور قبرستان‘‘ جیسے زہرآلود الفاظ استعمال کر کے فرقہ وارانہ جذبات ابھارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ فرقہ وارا یت کا عذاب تو یہ ملک پہلے ہی سے بھگت رہا ہے، اب حقیر سیاسی مفادات کے لیے ذات پات کی عصبیتوں کو ابھارنا خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے انہیں پھر ایک مرتبہ زبردست سیاسی گزند پہنچی ہے۔ فرقہ وارانہ لہر کے علاوہ ذات برادری کی عصبیتوں نے بھی انہیں نقصان پہنچایا۔ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی، راشٹریہ علما کونسل، پرچم پارٹی، مسلم لیگ، انڈین نیشنل لیگ، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا اور بیرسٹر اسدالدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین بھی ناکام ہوگئیں۔ہمسایہ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں بھی حکمراں جماعت کانگریس کا عملاً صفایا ہوگیا۔یہاں وزیراعلیٰ ہریش راوت دونوں نشستوں سے انتخاب ہار گئے۔
بہرحال کانگریس کے لیے پنجاب کے نتائج کچھ حد تک دلاسہ دینے کے لائق ہیں کہ اسے دس سال کے بعد دوبارہ یہاں حکومت کرنے کا موقع مل رہا ہے جہاں پارٹی نے دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرلی ہے۔ اروند کجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی نے پنجاب اور گوا میں بڑے پیمانے پر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ دہلی کے بعد پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی۔ لیکن یہ تجزیہ غلط ثابت ہوا۔ شمال مشرقی بھارت کی ایک شورش زدہ ریاست منی پور میں کانگریس کے وزیر اعلیٰ ساکھ بچانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ مگر یہاں کے انتخابات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حقوق انسانی کی عالمی شہر یافتہ کارکن اروم شرومیلا الیکشن ہار گئی۔
بھار ت میں یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں، یا متبادل حکمت عملی اپنائیں۔ ایک حربہ یہ ہے کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں کے علاوہ بی جے پی اور دائیں بازوکی جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں۔ مگر بقول پروفیسر اختر الواسع اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے، جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میں اقلیتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔دنیا بھر میں دائیں بازو کی جماعتیں انتخابات میں شرکت کرکے متبادل فراہم کراتی ہیں۔ مگر دائیں بازو اور فاشسٹ جماعت میں بنیادی فرق ہے۔ بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی لغت میں اقلیت یا کسی دیگر قومیت کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔بی جے پی کی پچھلی اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، بھارتی سیاست میں ۵۰ کی دہائی سے لے کر ۸۰ تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی، جس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیدواروں کے حق میں مہم چلاکر انہیں جتا بھی دیا۔ مگر ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد صرف دو لوک سبھا سیٹوں تک سمٹنے سے بی جے پی میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی اور اس نے ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر رام مندرکی تحریک کو ہوا دے کر مسلمانوں کو معتوب بناکر ووٹ بٹورنے کا کام کرنا شروع کر دیا۔ مودی حکومت کے بنتے ہی گھر واپسی،لو جہاد،گئو کشی جیسے نعروں کے ساتھ بی جے پی نے اپنی مہم شروع کردی، اقلیتوں کوعام طور پر اور مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اب اس الیکشن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے شمشان اور قبرستان کا مسئلہ کھڑا کرتے ہوئے واضح طور پر ہندو مسلم قضیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ قبرستان کی اراضی وقف ہوتی ہے، اسے تجاوزات سے بچانے کے لیے چار دیواری ریاستی حکومت کرارہی ہے، اس کو شمشان سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت بننے پر ذبح خانہ بند ہوں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا ۲۰ کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے؟ امید ہے کہ بھارت کو دنیا کے نقشہ پر مقدم و محترم بنانے کے لیے مودی اب اعتماد کے ساتھ انسانی نظریہ سے اور انصاف کے ترازو میں ایشوز کو تول کر اس خطہ میں امن بحالی کے اقدام کریں۔ اگر وہ ایسی کوئی کوشش کرتے ہیں، تو ابراہام لنکن اور نیلسن منڈیلا کی طرح زریں حرفوں میں اپنا نام تاریخ میں درج کروائیں گے، ورنہ تولوگ ہٹلر اور مسولینی کو بھی یاد کرتے ہیں مگر ان کی یاد سے آج بھی انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۴؍مارچ ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply