
بھارت میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے ایک بار پھر مرکز میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقتصادی لحاظ سے دو اہم صوبوں مہاراشٹرا اور دہلی سے متصل ہریانہ میں صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ان نتائج میں سب سے قابلِ رحم حالت کانگریس کی ہوئی ہے، جو دونوں صوبوں میں تیسرے نمبر پر چلی گئی۔ مغربی ریاست مہارشٹرا میں ۱۵؍سال اور ہریانہ میں ۱۰؍سال لگاتار برسرِ اقتدار رہنے کے باوجود ، اب کانگریس کے لیے ان صوبوں میں وجود بچانا بھی مشکل نظر آرہا ہے۔ گو کہ حیدر آباد دکن کی مجلس اتحاد المسلمین نے پہلی بار مہاراشٹر میں دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اس صوبہ میں بھی مسلم ووٹوں پر اپنا دعویٰ جتا دیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ۱۰؍نشستوں پر بھی اس پارٹی نے اچھے خاصے ووٹ بٹور کر سیکولر جماعتوں کو چیلنج دیا ہے کہ مسلم ووٹ اب صرف ان کی اِجارہ داری نہیں رہے۔ مگر عمومی طور پر اس اہم صوبہ کی اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد ۱۱ سے کم ہوکر ۹ رہ گئی۔ بی جے پی کی اس جیت سے شمالی بھارت میں کانگریس کا اب تقریباً صفایا ہوگیا ہے۔ جو اَب صرف دو چھوٹی ریاستوں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جنوب میں یہ پارٹی اب صرف کرناٹک اور کیرالہ میں برسر اقتدار ہے۔ شمال مشرق میں آسام اور اس کے متصل چھوٹے چھوٹے صوبوں میں ہی اب کانگریس کا دبدبہ کسی قدر باقی ہے۔ اگر پارٹی کی یہی حالت رہی، تو اندیشہ ہے کہ آئندہ برسوں میں پورے ملک سے اس کا صفایا ہوسکتا ہے۔ کسی دوسری سیکولر قوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی لوگ مجبوری میں کانگریس کو ووٹ دیتے تھے، مگر راہول گاندھی اور اس کے حواریوں کی نااہل قیادت نے اس طبقہ کو بھی پارٹی سے نالاں کر دیا ہے۔
انتخابات سے قبل شیوسینا اور بی جے پی کا ۲۵ سالہ پُرانا دوستانہ نیز کانگریس اور راشٹر وادی کی ۱۵؍سالہ رفاقت ٹکٹ بٹوارے کے نام پر ختم ہوگئی تھی۔ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم مودی کے ہونے اور حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اُن کی جماعت کی نمایاں کامیابی نے بی جے پی کا حوصلہ اس حد تک بڑھا دیا کہ اس نے اپنے بل پر ان دونوں صوبوں میں الیکشن لڑا اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ یوں تو شیوسینا اپنے بانی بال ٹھاکرے کی حیات میں ہی خاصی کمزور ہوگئی تھی‘ لیکن ٹھاکرے کے آمرانہ طرزِ عمل اور ’پتر موہ‘ کے سبب نارائن رانے، سنجے نروپم اور چگھن بھجبل جیسے لیڈروں نے سینا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ وہیں بھتیجے راج ٹھاکرے نے بیٹے ادھو ٹھاکرے کو سینا پتی بنانے پر بغاوت کر کے اپنی الگ جماعت مہاراشٹر نونرمان سینا کے نام سے بنالی۔ بال ٹھاکرے کے نومبر ۲۰۱۲ء میں انتقال نے سینا کو مزید کمزور بنا دیا تھا۔ مگر عام انتخابات میں کانگریس ’مخالف لہر‘ نے اسے نئی زندگی عطا کر دی۔ جس کے پاس سوائے منفی اور منافرانہ نعروں کے کچھ نہیں ہے۔ سیاست کے نام پر ’غنڈہ گردی‘ اس کی خاص پہچان بن چکی ہے۔ نئی دہلی کے مہاراشٹر سدن میں ایک مسلم روزہ دار کے ساتھ سینا کے نو منتخب ارکان پارلیمان نے جس طرح کی زور زبردستی کی، وہ اس کی اسی سیاست کا مظہر ہے۔ اس واقعہ پر ان کی سینہ زوری بھی قابلِ دید تھی۔ ان انتخابات میں جس طرح بی جے پی نے حلیف شیوسینا کی تذلیل کی، وہ اس کے دیگر حلیفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب شیوسینا اس پر چِڑ بیٹھی ہے، یہاں تک کہ نئے سینا پتی ادھو ٹھاکرے بی جے پی قیادت بالخصوص مودی کو جلی کٹی سناتے ہوئے اس ’احسان‘ کو یاد دلا رہے ہیں، کہ جب گجرات میں ان کی سرپرستی میں خونریز فسادات ہوئے تھے تو یہ (ان کے والد) بال ٹھاکرے ہی تھے جو مودی کی حمایت اور پشت پناہی میں سب سے پہلے آگے آئے تھے۔
بی جے پی بھی گوپی ناتھ منڈے کی موت کی شکل میں ایک اہم رہنما سے محروم ہوگئی تھی۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جو پسماندہ طبقات کو بی جے پی کے دامن میں لانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور سینا اتحاد کی کامیابی میں ان کی کاوش کا بڑا دخل تھا۔ منڈے کو دیہی ترقیات اور پنچایت راج کا کابینی وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ مگر ان کی ساری دلچسپیاں مہاراشٹر میں تھیں۔ بی جے پی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ ’اعلی‘ ذاتوں، بالخصوص برہمنوں کی جماعت ہے۔ جس کا پوشیدہ مقصد برہمنوں کی اِجارہ داری کو برقرار رکھنا ہے۔ تاہم پسماندہ طبقات کا خیال رکھنا اس کی سیاسی مجبوری ہے۔ آر ایس ایس نے جب منڈے کو نظرانداز کر کے ایک تیسرے درجہ کے لیڈر نتین گڈکری کو بی جے پی کا صدر نامزد کیا تو اس وقت گڈکری اور منڈے کے درمیان بالادستی کی کشمکش عروج پر تھی۔ منڈے کا تعلق پسماندہ طبقہ بنجارہ سے تھا جبکہ گڈکری برہمن ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے، وہ ریاست میں اترپردیش، مغربی بنگال اور بِہار کے بعد سب سے بڑی تعداد میں آباد ہیں جن کی آبادی اندازاً ڈیڑھ تا دو کروڑ ہے لیکن سیاسی اعتبار سے انہیں پارلیمان میں نہ صوبائی اسمبلی میں مناسب نمائندگی مل پائی ہے۔ یہ وہی ریاست ہیں جہاں مسلمان دہشت گردی مخالف مہم کا سب سے زیادہ شکار بنے ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات بھی عموماً روز مرہ کا معمول بنے ہیں۔ این سی پی کے لیڈر اور ریاست کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل کی ’متعصبانہ سوچ‘ کا درجنوں مسلمان شکار بنے ہیں۔ اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملہ میں اب یہ بات سامنے آئی کہ انہی کی ایما پر اس میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں پر سخت قانون یو اے پی اے کا اطلاق کیا گیا تھا۔ ریاست کی جیلوں میں بھی مسلمان ان کی آبادی کے تناسب سے کئی گنا زیادہ بند ہیں اور پولیس کی تحویل میں ان کی سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں، جس پر ممبئی ہائی کورٹ نے حال ہی میں پولیس سے یہ سوال کیا تھا کہ صرف مسلمان اور دَلَت ہی کیوں پولیس کی حراست میں ہلاک ہوتے ہیں؟ پونا میں نوجوان سافٹ ویئر انجینئر محسن صادق شیخ کو ہندو فرقہ پرستوں نے بڑی بیدردی سے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا لیکن حکومت اور پولیس کا رویہ مایوس کن رہا۔ اس کے برخلاف کئی ہندو تنظیمیں مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن انہیں بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان سب حالات کے باوجود وہ کوئی مؤثر متبادل نہ ہونے کی وجہ سے کانگریس کی حمایت پر مجبور تھے۔
مہاراشٹر کے ۳۳؍اضلاع ہیں اور چھ کروڑ سے زائد رائے دہندگان۔ رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے ملک کی تیسری بڑی ریاست ہے، تاہم سب سے زیادہ ترقی یافتہ ریاست ہونے کے باوجود یہ کئی مسائل سے دوچار ہے جہاں امیری اور غریبی کی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاست میں آبپاشی اور مویشی پروری کے محکموں میں بدعنوانی کے معاملے منظر عام پر آئے ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کاشت کاروں کی مدد کے لیے کئی اسکیمیں شروع کیں مگر اس کے باوجود ریاست بالخصوص ودربھ میں کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ صنعتیں ہونے کے باوجود ۵ء۴ فیصد شرح بے روزگاری کے ساتھ بے روزگاری میں یہ ریاست سرفہرست ہے۔ گزشتہ ۱۰؍برسوں میں ریاست میں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے مذہبی منافرت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بڑے پیمانے پر جان و مال اور اقتصادیات کا نقصان بھی ہوا ہے۔ دَلَتوں کی ریاست میں ۱۶؍فیصد سے زائد آبادی ہے۔ ان کی تنظیم آر پی آئی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا تناسب بھی لگ بھگ اتنا ہی ہے لیکن ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ ریاست کے کم از کم ۳۰ حلقوں میں مسلم امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہیں آج تک مناسب سیاسی نمائندگی نہیں ملی۔ حالانکہ عبدالرحمن انتولے کی شکل میں ریاست کو ایک مسلم وزیراعلیٰ بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ ریاست کے مسلمان اترپردیش، مغربی بنگال اور بہار کے بعد اپنی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلی اور پارلیمان میں مسلسل زوال پذیر نمائندگی پر فکرمند ہیں۔ اس کی دو واضح وجوہ ہیں، ایک ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے میں شیوسینا اور بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ جنہیں کانگریس اور این سی پی کی سیکولراِزم کا دَم بھرنے والی حکومت نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، نیز یہ دونوں جماعتیں مناسب تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتیں اور نہ انہیں کامیاب کرانے کی عملی کوشش کرتی ہیں۔ ریاستی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر محمود الرحمان کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے اپنی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ریاست میں مسلمانوں کی مجموعی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس کے مطابق ۸ء۵۹ فیصد مسلمان دیہی علاقوں میں ۴ء۵۹ فیصد شہری علاقوں میں خطِ افلاس سے نیچے ہیں اور فقط ۲ء۲ فیصد مسلمان گریجویٹ ہیں۔ دوسرا بڑا مذہبی گروہ ہونے کے باوجود پولیس میں ان کی نمائندگی محض ۲ء۴ فیصد ہے جبکہ زیرِ سماعت قیدیوں میں ان کا تناسب سال ۲۰۰۷ء میں ۳ء۲۸ فیصد تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply