مودی کا مجوزہ دورۂ اسرائیل اور بھارت کے عرب اتحادی؟

گزشتہ دو سال سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اسرائیل کے دورے سے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ وہ صہیونی ریاست کا دورہ کرنے والے بھارت کے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔ دونوں ممالک اس مجوزہ دورے کی تصدیق کرچکے ہیں۔تجزیہ کار اس کے مضمرات کے بارے میں گفتگو کرچکے ہیں اور یہ بھی اطلاع سامنے آچکی ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں نہیں جائیں گے اور صرف اسرائیل کا دورہ کریں گے۔

حال ہی میں یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ بھارت کی قومی فضائی کمپنی ائیرانڈیا آئندہ ماہ سے نئی دہلی اور تل ابیب کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کردے گی اور وہ جون میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورے سے قبل ہی دونوں دارالحکومتوں کو آپس میں ملا دے گی۔

نریندر مودی جب بھی اسرائیل جاتے ہیں تو ان کا یہ دورہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر قریبی تعلقات کی بھی توثیق ہوگا اور دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کے قیام کو پچیس سال پورے ہونے پر یہ ایک مناسب اقدام ہوگا۔ مودی اس سے پہلے ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔

گزشتہ برسوں کے دوران میں اسرائیل بھارت کو دفاعی ساز وسامان مہیا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ایک تخمینے کے مطابق اسرائیل نے بھارت کو پانچ سال کے دوران ایک ارب ڈالر مالیت کا دفاعی ساز وسامان فروخت کیا ہے۔

دوطرفہ تعلقات میں اضافہ

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر سورن سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ایک کھلا راز ہیں اور یہ تعلقات ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل سے استوار ہیں۔تب بھارت کو سوویت نواز غیر وابستہ ملک سمجھا جاتا تھا۔

ان کے بہ قول بھارت کی عرب ریاستوں کے ساتھ روابط کی بھی ایک تاریخ ہے اور یہ عراق اور ایران سے بڑھ کر دوسرے ممالک تک پھیل چکے ہیں۔اس نے سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات ایسے نئے شراکت داروں سے بھی تعلقات استوار کیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل کے ساتھ روابط بھارت کی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے تعلقات کو بڑھانے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔یہ خطہ بھارت کی توانائی کی ضروریات اور بھارتی تارکین وطن کے حوالے سے اہم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون میں اضافہ ہوا ہے اور موخرالذکرملک اول الذکر کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے والا اہم ملک بن چکا ہے‘‘۔

پروفیسر سورن سنگھ نے العربیہ انگلش سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مودی کے دور حکومت میں بھارت نے سفارتی محاذ پر اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی جوہری نوعیت کی تبدیلی نہیں کی ہے اور نہ اس کو ازسرنو ترتیب دیا ہے۔

کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہرش پینٹ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دو عشروں میں تعلقات میں اضافہ ہوا ہے لیکن بھارتی حکومتیں مختلف وجوہ کی بنا پر اسرائیل کو کھلے عام قبول کرنے میں متردد رہی ہیں لیکن مودی ایسا کوئی تردد محسوس نہیں کرتے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’مودی پہلے عرب دنیا سے راہ و رسم استوار کرچکے ہیں۔وہ متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب اور وہاں سے اومان تک پہنچ چکے ہیں اور بھارت کے اسرائیل اور عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کسی گھاٹے کے سودے میں نہیں چل رہے ہیں‘‘۔ان کے بہ قول حال ہی میں اسرائیلی صدر نے چین کا دورہ کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور بھارت یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ عرب دنیا،اسرائیل اور ایران کے ساتھ مؤثر انداز میں توازن قائم کرسکتے ہیں۔

پروفیسر پینٹ نریندر مودی کے ۲۰۱۴ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے یہی دلیل دے رہے ہیں۔انھوں نے جون ۲۰۱۵ء میں شائع شدہ ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’مودی کی خارجہ پالیسی کا نمایاں نشان بھارت کے مفادات کا خود اعتمادی پر مبنی بیانیہ ہے۔اس کی عکاسی ان کی حکومت کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط وتعلقات سے بھی ہوتی ہے اور انھوں نے ماضی کی غیر ضروری ہچکچاہٹ اور جوابی منفی ردعمل سے ناتا توڑلیا ہے‘‘۔

نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل میں مسلسل تاخیر کے حوالے سے پروفیسرپینٹ کہتے ہیں کہ بھارت نے اپنی مشرق وسطیٰ کی پالیسی میں ہمیشہ توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔مودی نے بھی اسی طرز عمل کو اختیار کیا اور انھوں نے اپنی حکومت کے پہلے تین سال کے دوران میں عرب دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

تجارت اور سیکورٹی

بھارت اور اسرائیل کے درمیان حالیہ برسوں کے دوران میں تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اوراسرائیل بھارت کو دفاعی ساز وسامان برآمد کرنے والا ایک اہم ملک بن چکا ہے۔ریجنٹ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروگرام ڈائریکٹر اور چیتم ہاؤس کے مینا پروگرام کے ایسوسی ایٹ فیلو یوسی میکلبرگ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں سکیورٹی سے متعلق ایشوز پر تعاون میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے علاوہ خوراک،صحت،سیاحت،سول ٹیکنالوجیز اور تدریسی امور میں بھی دوطرفہ تعاون بڑھا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’’یہ کسی بھارتی وزیراعظم کا اسرائیل کا پہلا سرکاری دورہ ہوگا اور بھارت کی پالیسی میں غیر وابستہ تحریک کے دنوں سے ایک نمایاں تبدیلی کا بھی عکاس ہوگا۔تب بھارت اسرائیل کی پالیسیوں کا زبردست ناقد ہوا کرتا تھا۔ان تبدیلیوں کے نتیجے میں اب عرب دنیا میں اس دورے پر کوئی بہت زیادہ تنقید نہیں کی جائے گی‘‘۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت، اسرائیل تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں اور ان کے مختلف پہلو ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ سال مئی میں پارلیمان میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعاون بڑھانے کے مواقع موجود ہیں۔ اسرائیلی قیادت نے ہمارے فلیگ شپ اقدامات میں شراکت داری پر رضامندی ظاہر کی ہے اور بہت سی کمپنیوں نے دوطرفہ تعاون کے مواقع کا جائزہ لینے کے لیے بھارتی کمپنیوں سے بات چیت کی ہے‘‘۔

ادارہ برائے دفاعی مطالعات اور تجزیات (آئی ڈی ایس اے) میں ریسرچ فیلو ڈاکٹر عادل رشید کا خیال ہے:’’عرب ممالک اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ یہ قدم ( بھارتی وزیراعظم کا دورۂ اسرائیل) بھارت کی موجودہ حکومت کی مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کی پالیسی کا حصہ ہے‘‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ بھارت کی خطے میں مختلف عرب ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی قُربت اور وزیراعظم مودی کے اس بیان کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے بارے میں پُرامید ہیں، کے پیش نظر میڈیا کے بعض حصے میں ان کے آئندہ دورے کے بارے میں غیر ضروری تشویش کے اظہار کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بعض تجزیہ کار دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اسلحے کی تجارت کی تبدیل ہوتی حرکیات کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ نئی دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں مغربی ایشیا مطالعات پروگرام کے محقق کانچی گپتا نے یروشیلم پوسٹ میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:’’بجٹ میں کٹوتیوں اور امریکا کے عراق اور افغانستان سے انخلا کے بعد سے اسرائیل کی یورپ اور امریکا کو اسلحے کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ایشیائی شراکت داروں کے ساتھ اس کی اسلحے کی تجارت میں ۶۰ کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے اور یہ امریکا سے تجارت سے زیادہ ہے‘‘۔

مسئلہ فلسطین

یہ تمام تو بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاع اور صنعت وتجارت کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون میں اضافے پر نظر رکھنے والوں کی باتیں ہیں لیکن فلسطینی حلقے ایسا موقف نہیں رکھتے ہیں اور وہ بہ انداز دیگر سوچتے ہیں۔

اس کا اظہار فلسطین مرکز برائے ترقی اور میڈیا آزادی ( ماڈا) کے ڈائریکٹر جنرل موسیٰ رماوی نے یوں کیا ہے:’’دوسری ریاستوں کے عہدے داروں کے اسرائیل کے ہر دورے سے اس کی فلسطینی سرزمین پر قبضہ برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جاری رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے۔اسرائیل نے بین الاقوامی قانون سے ماورا اپنا کردار جاری رکھا ہوا ہے۔ میرے خیال میں بین الاقوامی تعلقات انسانی حقوق کے احترام پر مبنی ہونے چاہئیں‘‘۔

پروفیسر سورن سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت اور فلسطین کے درمیان تعلقات کی مضبوط تاریخ کے پیش نظر نئی دہلی کو اسرائیل کی جانب بڑھتے ہوئے جھکاؤ میں توازن قائم کرنے کے لیے داخلی تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی تو گرم جوشی پر مبنی تعلقات کا آغاز ہے۔

بھارت نے اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کے پُرامن حل کے لیے کوئی مصالحانہ کردار ادا کرنے پر غور نہیں کررہا ہے۔

’’بھارت کو ایسے کسی بین الاقوامی اقدام میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت مذاکرات کے ذریعے تنازعے کے حل کا حامی ہے جس کے نتیجے میں ایک خود مختار، آزاد، قابل عمل اور متحدہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے ساتھ معرض وجود میں آئے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں سے اس کی توثیق ہو‘‘۔ یہ بات بھارت کے خارجہ امور کے وزیر مملکت جنرل وی کے سنگھ نے گزشتہ سال مارچ میں پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہی تھی۔

یہ بات واضح ہے کہ بھارت کے عرب اتحادیوں سمیت دونوں طرف سے بہت کم لوگ اس موقف سے عدم اتفاق کریں گے۔

(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۴؍اپریل ۲۰۱۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*