
وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہموں کے دوران نریندر مودی نے ملک کی معیشت کو بہتر رُخ پر ڈالنے کے لیے مارکیٹ میں اصلاحی اقدامات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بحیثیت وزیراعظم انہوں نے نہ صرف اپنے مداحوں کو مایوس کیا ہے بلکہ وہ بھی اسی سابقہ حکومت کی روش اپناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جسے انتخابات میں انہوں نے شکست دی اور جسے موردِ الزام ٹھہرانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انتخابی مہموں کے دوران معیشت دانوں اور کاروباری دنیا کے رہنماؤں کے جس طبقے نے مودی کی نہ صرف بھرپور حمایت کی تھی اور ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھیں بلکہ سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ایک انقلابی تبدیلی کا خواب بھی دیکھ لیا تھا۔ اس طبقے کو اس احساس نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے کہ مودی ان کی باتوں کو اَن سنی کر رہے ہیں یا انہیں نظرانداز کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت اور مودی کے وزیراعظم بنے ۳ مہینے ہوچکے ہیں، لیکن ان معیشت دانوں اور کاروباری شخصیات کو شاید اب اندازہ ہو گیا ہے کہ مودی سے انہوں نے جو توقعات اور امیدیں وابستہ کی تھیں، وہ بے سود، بے نتیجہ اور فضول ثابت ہو رہی ہیں۔
جون میں مودی کے متعارف کردہ اصلاحاتی ایجنڈے پر لکھی جانے والی کتاب کے مصنفوں میں سے ایک بیبک دیبرائے کے مطابق ’’فی الحال وہ جوش اور رفتار ختم ہوچکی ہے۔ وہ (مودی اور بی جے پی) ایک نئی شروعات کرسکتے ہیں لیکن ہماری تحریک شکست کھا چکی ہے‘‘۔ خبر رساں ایجنسی ’’رائٹرز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے دیبرائے نے کہا کہ ’’جو وعدے کیے گئے تھے، اب تک ان پر عمل کرنے کا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا گیا ہے، حکومتی اداروں پر بدعنوانی کا رنگ اب بھی گہرا ہے اور ان کے تعلق سے منفی باتیں اب بھی عوام میں گردش کر رہی ہیں‘‘۔
انتخابی مہموں کے دوران بی جے پی اور نریندر مودی اپنے پورے رنگ میں تھے اور یوپی اے حکومت کی ناکامیوں نیز پالیسی سازی پر چھائے ہوئے جمود پر طنز و تنقید کرکے عوام سے خوب داد وصول کر رہے تھے۔ بی جے پی اور مودی نے ہی عوام میں امیدیں جگائیں اور ’حکومت کم اور نظم زیادہ‘ کے طریق کار کا وعدہ کیا۔ انتخابی مہموں کے دوران مودی نے ہی عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ معیشت سے متعلقہ اہم شعبوں کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کیا جائے گا۔ بہرحال اب یہ احساس غالب آنے لگا ہے کہ ۶۳ سالہ مودی، جنہیں گجرات کے ترقی ماڈل کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی اور انہیں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا گیا، دہلی میں لڑکھڑانے لگے ہیں۔
حق بیانی سے کام لیا جائے تو یہ کہا جانا چاہیے کہ ہندوستان کو ایک معاشی طاقت کی حیثیت سے چین کے مدمقابل کھڑا کرنے کے مودی کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے ابھی حکومت کے پاس پورے پانچ سال ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ چند روز میں مودی کچھ بڑی تبدیلیوں کا اعلان کردیں جن کا اب تک انتظار کیا جارہا ہے۔ ایچ ایس بی سی سے وابستہ معیشت دانوں کے مطابق کئی محاذوں پر حکومت مستعدی اور مہارت دکھانے کی کوشش کررہی ہے، جبکہ حکومت بھی اس کی عادی نہیں ہے اور اسے جلد بازی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت نے ریلوے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور وہ بیورو کریسی کے نظام کو مضبوط و مربوط کرنے کے منصوبے کا بھی اشارہ دے چکی ہے۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان معاملات میں حکومت محتاط انداز سے قدم بڑھائے اور معاملات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ان پر پیش رفت کرے۔
مئی میں بی جے پی اور مودی کی فتح کو ملک میں ۳ دہائیوں کی سب سے بڑی فتح قرار دیا گیا ہے۔ فتح سے پہلے مودی نے ۵ فیصد سے بھی کم ہو جانے والی شرح نمو کو بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ مودی نے وعدہ کیا تھا کہ ایک کروڑ افراد کے لیے ملازمت کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ مودی نے عوام کو نئی سڑکوں، فیکٹریوں، پاور لائن، ہائی اسپیڈ ٹرینوں اور ۱۰۰؍ نئے شہروں کی تعمیر کا خواب دکھایا۔ ان بڑے بڑے وعدوں اور خوابوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے ملک میں نہ صرف تحویل اراضی کے قانون میں بڑی ترجیحات کی ضرورت ہوگی بلکہ ماحول کی صفائی کو بھی یقینی بنانا ہوگا اور اس عمل کو لال فیتہ شاہی کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا۔
مودی کی جانب سے ابھی کئی پالیسیوں سے پردہ اٹھایا جانا باقی ہے لیکن فی الحال وہ اپنی حکومت اور وزرا کو زیادہ سے زیادہ جوابدہ اور ذمہ دار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کابینہ کے وزرا کو مسلسل دفترِ وزیراعظم سے فون کالز موصول ہوتی رہتی ہیں، جن کے ذریعہ یہ نگرانی کی جاتی ہے کہ کام برابر چل رہا ہے یا نہیں۔ خود نریندر مودی ۱۵؍گھنٹے کام کر رہے ہیں اور وہ ہفتے کے آخری دنوں میں بھی آرام نہیں کرتے۔ مودی کی انتخابی مہم کی ٹیم کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’’مودی کسی مسئلے پر خود گفتگو نہیں کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسائل پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ یعنی انتخابی مہم کے دوران مودی ہر جگہ نظر آرہے تھے بلکہ جس مقام کا انہوں نے دورہ نہیں کیا، وہاں بھی وہ پوسٹروں میں تو تھے ہی۔ لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے اپنے عوامی روابط کا دائرہ محدود کرلیا اور اب وہ عوام سے رابطہ کررہے ہیں تو صرف ٹویٹر پر۔ الیکشن کے امور کے ایک اسٹریجمنٹ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی خاموشی کا سبب کوئی دباؤ تھا، جبکہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے خاموشی کو ازخود منتخب کیا ہے۔ انتخابی مہموں کے دوران جنہوں نے مودی کا پورا ساتھ دیا، وہ اب بھی مودی کی نظر عنایت کے منتظر ہیں۔ ان میں سے ایک نام کولمبیا یونیورسٹی کے اکنامسٹ جگدیش بھاگوئی کا بھی ہے جنہوں نے مودی کے عروج کو ہندوستان کے لیے ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا تھا۔ وہ اب بھی منتظر ہیں کہ مودی انہیں اپنی ٹیم میں کب کوئی کردار ادا کرنے کا موقع دیتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی۔ ۹؍اگست ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply