
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو دنیا بھر سے انہیں مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے۔ لیکن خلیج فارس کے رہنماؤں کا ردعمل انتہائی محتاط رہا۔ ابتدائی طور پر مصر اور قطر ہی اس خطے سے دو ملک تھے، جن کے حکمرانوں نے نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔
خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد خلیجی ملکوں کے عوام اور سیاست دانوں میں نریندر مودی کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی۔ یہ مسلم کش فسادات اس وقت ہوئے تھے جب نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔
لیکن ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کی سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبد العزیز آل سعود مرحوم سے ملاقات نے اس تاثر کو بدلنے میں مدد دی۔ یہ ملاقات آسٹریلیا کے شہر برسبین میں جی ۲۰ سربراہ اجلاس کے دوران ہوئی، جس سے واضح ہوگیا کہ خلیج تعاون کونسل کے ارکان کے تحفظات اپنی جگہ لیکن بھارت کی اہمیت کے باعث تعلقات بدلنے کا خطرہ مول لیا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی اہم خلیجی ملک متحدہ عرب امارات بھی گئے لیکن دورہ سعودی عرب ایسے وقت میں کیا گیا جب شام شدید بحران کا شکار ہے، یمن میں جنگ جاری ہے، سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کے باعث عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گررہی ہیں اور یہ تمام واقعات براہ راست بھارتی مفادات پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ، دو طرفہ ضرورتوں اور تجارتی مفادات کی بنیاد پر قائم رہے ہیں۔ تقریباً پچیس لاکھ بھارتی روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں اور قریب ستر لاکھ بھارتی باشندے دیگر خلیجی ملکوں میں مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ بھارت اپنی ضرورت کا اسی فیصد تیل درآمد کرتا ہے اور اس کا بڑا حصہ سعودی عرب سے آتا ہے۔
۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ سعودی عرب اور بھارت کے سفارتی تعلقات میں اہم مواقع تصور کیے جاتے ہیں۔ معاہدہ دلی اس لیے بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ ۲۰۰۶ء میں اُس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور ۵۱ سال میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی سعودی فرماں روا نے بھارتی سرزمین پر قدم رکھا ہو۔ اُس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ اور اُن کی حکومت سے بات چیت کے بعد دونوں ملکوں نے تعلقات کی ازسرنو تجدید کرکے مختلف شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس دورے کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی سے متعلق امور، انٹیلی جنس معلومات اور دہشت گردی کے خلاف تعاون مزید بہتر کرنا ممکن ہوسکا۔
بھارت اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات کے ثمرات ۲۰۱۲ء میں اُس وقت سامنے آئے جب سید ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو سعودی حکومت نے ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کردیا۔ ابوجندل یا ابو حمزہ کو بھارت میں ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں اور ۲۰۱۰ء کے پونے دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارت میں دیگر دہشت گرد حملوں کا الزام بھی ابوجندل پر ڈالا گیا۔ سعودی حکومت کی جانب سے ابوجندل کی بھارت حوالگی نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کردیا۔
دلّی اور ریاض میں طے پائے معاہدوں نے دونوں ملکوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سلامتی امور اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کا عزم دوطرفہ تعلقات میں اہم قرار دیا جارہا ہے۔ ریاض اس معاملے میں پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا رہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ تاہم سعودی عرب نے اس سلسلے میں سفارتی حکمت عملی اختیار کی ہے اور اپنے مفادات سے متعلق سعودی حکومت کچھ زیادہ جلد بازی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ مشرق کے ملکوں کی جانب سعودی حکومت کے جھکاؤ سے بھارتی پالیسیوں کو چیلنج درپیش ہے، خاص طور پر اگر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بات کی جائے۔
لیکن سعودی عرب سے بھارت کے لیے اچھی خبریں اب بھی آرہی ہیں، گزشتہ برس دسمبر میں سعودی حکومت نے محمد اسداللہ خان عرف ابو سفیان کو گرفتار کیا۔ یہ گرفتاری سعودی اور بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے ممکن ہوئی۔ سعودی عرب نے رواں برس فروری میں محمد عبدالعزیز کو بھی ملک بدر کیا،، بھارتی اداروں کو دس سال سے عبدالعزیز کی تلاش تھی،، اْس پر حیدرآباد دکن میں تخریب کاری کا الزام ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ایک وفد نے گزشتہ برس اگست میں پہلی بار سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ وفد فوجی مشقوں میں شرکت کے لیے برطانیہ جاتے ہوئے سعودی عرب میں ٹھہرا تھا اور اس دورے کو سلامتی امور پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں انتہائی اہم قرار دیا گیا تھا۔
مغرب کی جانب جھکاؤ
بھارت کے خارجہ سیکرٹری سبرامینم جے شنکر نے حال ہی میں نئی دلی میں گفت گو کے دوران خلیجی ملکوں کے لیے بھارتی پالیسی کو ’’مغرب کی جانب جھکاؤ‘‘ سے تعبیر کیا۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت نے مغربی ایشیا کے لیے کیا ٹھوس اسٹریٹجک پالیسی اختیار کی ہے۔
جے شنکر کہتے ہیں اگر دیرینہ پالیسی کی وجہ سے مشرقی محاذ بن رہا ہے، تو مغرب بھی تصوراتی طور پر تبدیل ہورہا ہے حالاں کہ بھارت ایک عرصے سے خلیج میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے ستر لاکھ نفوس پر مشتمل بھارتی کمیونٹی سرمایہ اور ترسیلات زر کا بڑا ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ارتقائی عمل نسبتاً خودمختار طریقے سے وقوع پزیر ہوا۔ توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھارت کا اْس خطے پر انحصار زیادہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی دلی حکومت پالیسی کے بجائے مارکیٹ کی خواہشات پر زیادہ چلی ہے۔ جے شنکر کے مطابق خلیجی ملکوں میں باہمی تعلقات بھارت کے لیے تعاون کی نئی راہی کھول رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں مشرق کے لیے Act East پالیسی مغرب سے متعلق Think West پالیسی جیسی ہی ثابت ہوگی۔
مغرب کے لیے بھارت کی یہ پالیسی بروقت قرار دی جاسکتی ہے۔ دوسرے خلیجی ملکوں کی طرح سعودی عرب بھی تیل برآمد کرنے کے لیے مشرق کی جانب دیکھ رہا ہے۔ مغربی معیشتیں سست روی کا شکار ہیں اور امریکا توانائی کے شعبے میں خود انحصار ہوگیا ہے۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ کے تیل کی بڑی منڈیاں اب ایشیا کے ممالک چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اب یہ معیشتیں مشرق وسطیٰ کو سمجھنے جیسے مشکل اور پیچیدہ کام میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔
ایسے میں سعودی حکومت بھی بیرون ملک سرمایہ کاری میں زبردست دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی، ’’سعودی آرامکو‘‘ نے بھارتی آئل ریفائنریوں میں پہلے ہی بڑا سرمایہ لگا رکھا ہے، جس کا مقصد ایشیائی منڈی میں قدم جمانا ہے۔
نریندر مودی کا دورہ اس لیے بروقت قرار دیا جارہا ہے کہ اس سے سعودی معیشت کو سمجھنے اور بھارتی مفادات کا حصول یقینی بنانے میں مدد ملی۔ جب شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا گزشتہ برس جنوری میں انتقال ہوا تو بھارتی حکومت نے ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا، جو نئی دلی کی جانب سے اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات کثیرالجہتی ہیں، جس میں کئی سطح کے اتفاق رائے اور اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی سرکار یہ معاملہ آگے بڑھانے کے لیے مزید کیا اقدامات کرسکتی ہے۔
(ترجمہ: سیف اللہ خان)
“Think West: Modi’s visit to Saudi Arabia”. (“thediplomat.com”. March 13, 2016)
Leave a Reply