یہ مضمون ادارہ برائے خلیجی ریاستیں۔واشنگٹن کی ویب گاہ سے لیا گیا ہے، جس کی مصنفہ کرسٹن اسمتھ ڈیون ہیں۔ بخوف طوالت اس کے لفظی ترجمے کے بجائے اسے ماخوذ انداز میں پیش کیا جارہا ہے،تاکہ مصنفہ کے خیالات سے مستفید ہوا جاسکے۔ ادارہ
خلیج کے شاہی خاندان کی سیاست پر تجزیہ کرنے کے لیے صرف اسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو نظر آتا ہے۔اندرونی فیصلو ں اور تبادلہ خیال اتنے خفیہ رکھے جاتے ہیں کہ صرف ان کے نتائج سے ہی ان کو سمجھا جا سکتا ہے۔۲۱ جون کو ان اقدامات کا ایک بڑا نتیجہ سامنے آیا ہے۔آل سعود نے جانشینی کی منتقلی یعنی بادشاہت کو بانی کے بیٹوں سے، بیٹوں کے بیٹوں کو منتقل کرنے کے بھاری کام کو کامیابی سے مکمل کیا ہے، اور تیسری نسل کے نمائندے سامنے آئے ہیں۔شاہ سلمان بن عبد العزیز اپنے بیٹے کو طاقت کا مرکز بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اکتیس سالہ بیٹے محمد بن سلمان اب سعودی عرب کے ولی عہد ہیں اور سعودی عرب کا مستقبل بھی ہیں۔
محمد بن سلمان کی نامزدگی کافی سرعت سے کی گئی ہے اور یہ تنازعات سے پاک نہیں۔وراثت کی اس منتقلی میں روایتی طور طریقے اور طرز عمل کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ان میں سب سے اہم بڑوں کے احترام کو ایک طرف رکھنا ہے ،اور صرف آل سعودکے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ شاہ سلمان کے اپنے خاندان میں بھی بڑوں کی تعظیم نہیں کی گئی۔اہم وزارتوں کی تقسیم کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کی جو روایت تھی اس دفعہ اس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے ۔نوجوان شہزادے اوروالد نے ٹیکنوکریٹس اور وزارتی کمیٹیوں کے اسٹریٹجک استعمال کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کو راستے سے ہٹادیاہے۔
بے شک اس تبدیلی کے سعودی عرب کے استحکام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، کیا اب اس نوجوان رہنما کی انفرادی سوچ(یعنی کے فرد کی سوچ) خطے پر اثر انداز ہو گی اورخطے میں نئی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے گی؟ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی نامزدگی سے شاید ان پالیسیوں میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئے جوشاہ سلمان نے اپنے ابتدائی سالوں میں کی ہے۔ ان پالیسیوں میں سعودی عرب کی طاقت کا بیرونی دنیا پر استعمال کی خواہش ،جو کہ یمن اور قطر پر حالیہ پابندیوں کے ضمن میں نظر آتی ہے اور ریاست کے اندر معاشی اور مذہبی شعبے میں قائم طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنابھی شامل ہے۔اور اب ولی عہد محمد بن سلمان کے اختیارات کی حد، ان کاخاندان طے نہیں کرے گا، بلکہ اندرونی حالات اور خطے کی سیاست اور معاشی حقیقتیں ہی ان کے اختیارات طے کریں گی۔
نئی نسل اور قیادت کی کشمکش
نئی نسل کی قیادت کے لیے سب سے طاقتور حریف محمد بن نائف تھے۔۲۰۱۵ء میں جب شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالا تو محمد بن نائف عوام میں اتنے مشہور اور شاہی خاندان میں اتنے معتبر تھے کہ ان کو جانشینی کے لیے بنی ہوئی ترتیب سے ہٹانا آسان نہ تھا۔ عالمی خفیہ ایجنسیوں میں ان کی عزت بھی ان کے ولی عہد کی حیثیت سے تقرری میں ان کا سہارا بنی۔ جیسا کہ وہ وزارت داخلہ کے سربراہ تھے، اس لیے ریاست کی اندرونی انٹیلی جنس نظام تک بھی ان کو رسائی حاصل تھی۔گزشتہ برسوں میں محمد بن سلمان کے آزاد خیالی پر مبنی احکامات پر ناپسندیدگی کی وجہ سے محمد بن نائف کو معاشرے میں، ملک کی غیر سرکاری اسلامی تحریکوں میں اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں خاصی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔
شاہ سلمان نے جیسے ہی محمد بن نائف کو ولی عہد نامزد کیا، اسی وقت سے انھوں نے اور ان کے بیٹے نے مل کر محمد بن نائف کی طاقت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔جس کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں،محمد بن نائف کونہ صرف عہدوں سے فارغ کیا گیا بلکہ شاہی دیوان سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے،جس کی وجہ سے ان کی معلومات تک رسائی محدود ہوجائے گی اوراثرورسوخ اورشہرت میں بھی خاصی کمی واقع ہو گی۔
اپریل میں نیشنل سیکورٹی سینٹراور مئی میں عالمی انسداد دہشت گردی سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا اور ان دونوں اداروں کاالحاق شاہی دیوان سے کر دیا گیا، جس سے محمد بن نائف کی روایتی طاقت،مہارت اور اثرورسوخ کو شدید دھچکا پہنچا۔ آہستہ آہستہ ا ن کی طاقت کوکم کرنے کے لیے اپریل ۲۰۱۶ء میں وزارت داخلہ کے ماتحت مذہبی پولیس سے گرفتاری کے اختیارات واپس لے لیے گئے اور اسی ہفتے وزارت داخلہ کے ماتحت ایک طاقتور ادارے ’’بیورو آف انوسٹی گیشن‘‘سے پراسیکیوشن کے اختیارات بھی واپس لے لیے گئے۔ علاوہ ازیں اسلامی تحریکوں میں محمد بن نائف کی حمایت کرنے والی “World Assembly of Muslim Youth” کی امداد میں بھی نمایاں کمی کی گئی۔ آخر کار ان تمام اقدامات کے بعد محمد بن نائف کو عہدے سے فارغ کر دیا گیا، جو کہ صرف نمائشی اقدام تھا۔ ورنہ ان کے اختیارات تو پہلے ہی منتقل کیے جا چکے تھے اور ان کے اثرورسوخ کو بھی محدود کیا جا چکا تھا۔ ان کا اپنی فراغت پرآمادگی سے واضح ہوتا ہے کہ شاہی خاندان میں ایسے کسی قدم پر مزاحمت کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مستقبل کی سمت بھی واضح ہو گئی ہے۔
محمد بن سلمان کی تقرری اور دیگر شاہی حکم ناموں سے مستقبل کے لیے جانشینی کے اصول واضح ہو گئے ہیں اور نئی شاہی تقرریاں بھی سامنے آگئی ہیں۔مئی میں جاری ہونے والے شاہی حکم ناموں نے تیسری نسل کو اہم عہدوں پر لا کر ان کو طاقت عطا کر دی ہے۔نوجوان شہزادوں کو تقریباً تمام وزارتوں اور صوبائی حکومتوں میں اچھی جگہ دے کر محمد بن سلمان نے نوجوان شہزادوں میں اپنے لیے مضبوط حامیان بنا لیے ہیں۔ ان تقرریوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت کے مراکز کو خانوادہ سلمان کے ساتھ ساتھ خانوادہ نائف اور خانوادہ سلطان میں تقسیم کیا گیا ہے، جو کہ آل سعود کی دوسری نسل پرغالب سدیری بھائیوں کی اولادیں ہیں۔
ان میں سب سے اہم وزارتِ داخلہ ہے، جو ۳۳ سالہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف کو دی گئی ہے، جو محمد بن نائف (جن کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے) کے بھتیجے اور مشرقی صوبے کے گورنر شہزادہ سعود بن نائف کے بیٹے ہیں۔ اس طرح یہ دو اہم عہدے نائف خاندان کے پاس ہی رہنے دیے گئے ہیں۔لیکن یہاں بھی محمد بن سلمان کا کنٹرول نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ شہزادہ عبدالعزیز پچھلے چھ ماہ سے وزارتِ دفاع اور شاہی دیوان میں محمد بن سلمان کے ماتحت کام کر رہے تھے۔اور ایسا ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا کہ جو اختیارات وزارت داخلہ سے لیے گئے تھے، وہ واپس کر دیے جائیں گے۔ وزارت داخلہ میں ہونے والی تقرریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ موثر ٹیکنوکریٹس اور سلمان خاندان کے نمائندوں کی موجودگی یقینی بنائی گئی ہے۔
مندرجہ بالا تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں غیر معمولی Centralization of power کی گئی ہے، جس کی ماضی میں کوئی مثا ل نہیں ملتی۔ ولی عہد کی شاہی دیوان میں غالب طاقت کے علاوہ، محمد بن سلمان Council of Economic and Development Affairs کے ذریعے معاشی معاملات پر گہری نظر رکھیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ وزارت دفاع اور انسداد دہشت گردی کے لیے بنائے جانے والے نئے اداروں کے ذریعے ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی میں بھی اپنی طاقت کو بروئے کار لائیں گے۔
طاقت کے حصول کے اس کھیل میں ایک اہم اور خلاف توقع بات بھی سامنے آئی۔بنیادی قانون میں کی گئی ترمیم، جس کے تحت بادشاہت پر محمد بن سلمان اور ان کے خاندان کی اجارہ داری قائم نہیں رہ سکے گی،کیوں کہ اس ترمیم کے تحت بادشاہ اور ولی عہد کا شاہی خاندان کی دو مختلف شاخوں سے ہونا ضروری ہوگا،لیکن موجودہ سیٹ اپ پر یہ ترمیم لاگو نہیں ہو گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کا ولی عہد بن سلمان فیملی سے نہیں ہو گا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہی وہ شق ہے جس کی منظوری کے بدلے میں شاہی خاندان نے محمد بن نائف کو ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد بنانے پر رضامندی ظاہرکی۔اطلاعات کے مطابق مرحوم شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کی بنائی گئی بیعت کونسل کے ۳۴ میں سے ۳۱ ارکان نے اس فیصلے کی حمایت کی۔ اگر قانون میں کی گئی یہ تبدیلی قائم رہتی ہے تو مستقبل میں بادشاہت کا منصب خانوادہ بن نائف اور خانوادہ بن سلمان میں رہے گا، بالکل اُسی طرح جس طرح کہ کویت میں بہت عرصے سے یہ روایت قائم ہے۔لیکن مستقبل کے طاقتور ترین بادشاہ محمد بن سلمان کے لیے اس قانون میں ترمیم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ اس اکتیس سال کی عمر میں وہ لمبے عرصے تک طاقت میں رہیں گے۔
سعودی عرب کامستقبل
محمد بن سلمان کے ولی عہد بن جانے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ سعودی عرب کی جارحانہ پالیسیوں میں تسلسل دیکھنے کو ملے ۔ان پالیسیوں میں قیادت کی مرضی منشا اور ارادوں کے ساتھ اندرونی حالات کا عمل دخل نظر آئے گا۔محمد بن سلمان مستقل مزاجی سے خطے میں اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو تباہ حال حکومتوں اور امریکا کی عدم توجہی کی وجہ سے پیدا ہوا، تاکہ ایران کو حاصل ہونے والے فوائد کا ازالہ کیا جا سکے اور خطے میں طاقت حاصل کرنے کے یہ اہداف متحدہ عرب امارات کے ساتھ بہترین شراکت داری کی وجہ سے حاصل بھی ہو رہے ہیں (خلیج کی سیاست میں پچھلے پانچ سالوں میں یہ شراکت داری سب سے اہم پیش رفت ہے) اور اسی شراکت داری کی بنیاد پر خلیج کونسل کا اثرورسوخ مصر اور یمن تک پھیل گیا ہے اور حالیہ بحران میں خطے میں مدمقابل طاقت قطر کو دباؤ میں لانے کے لیے بھی اسی شراکت داری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اماراتی اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نئے ولی عہد ملک کی معیشت کوتنوع بخشنے کے لیے اور نیشنلزم کو پروان چڑھانے کے لیے عرب امارات کے ماڈل اور مہارتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔اگرچہ اماراتی ماڈل ایک ایسی ریاست سے مطابقت نہیں رکھتا جہاں نئی صنعتیں لگانے کے لیے وسائل کم ہوں اور جہاں طاقت کے حصول اور چیزوں کو قانونی رنگ دینے کے لیے مذہب کو استعمال کیا جاتا ہو۔لیکن پھر بھی محمد بن سلمان کے نگرانی میں بنائے جانے والے قومی اور بین الاقوامی اداروں میں نیشنلزم کی ایک نئی تصویر پیش کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے جو کہ واضح طور پر نظر بھی آتی ہے۔شاید کچھ عرصے میں یہ نئے ادارے آل سعود کے سرکاری اسلامی تحریکوں اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اسی طرح معیشت کو مختلف سمتوں میں تقسیم کرنے کے لیے کی جانے والی کو ششیں بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں ،جن میں وژن ۲۰۳۰ء اور ARAMCO جیسے ادارے کی نجکاری بھی شامل ہے، جس پر رجعت پسند ٹیکنوکریٹس خاص نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح ان داخلی اور خارجی تبدیلیوں کے ساتھ محمد بن سلمان روایتی سعودی عرب امریکی اتحاد کو بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے داماد Jared Kushner سے قریبی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔محمد بن سلمان اس شراکت داری کو امریکا میں تعینات سفیر اپنے بھائی شہزادہ خالد بن سلمان کے ذریعے سے بھی مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔لیکن وہ اپنے جانشین کی طرح امریکی پالیسی سازوں کا اندھا اعتماد شاید حاصل نہ کر پائیں اور نہ ہی امریکی پالیسی ساز ان سے پہلے کی طرح خوشگوار تعلق رکھ پائیں گے۔
سعودی عوام کیا دیکھتے ہیں؟
سعودی عوام جب نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے طاقت کی راہداریوں میں ہونے والے فیصلے کو اپنا منتظر پایا۔ پھر انھیں بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ وہ مناظر دکھائے گئے جن میں نئے ولی عہد بہت عجزو انکسار کے ساتھ سبکدوش ہونے والے ولی عہد سے بیعت لے رہے ہیں اور وہ کلپ بھی تسلسل کے ساتھ دکھایا گیا جس میں مرحوم شاہ عبداللہ اس نوجوان (محمد بن سلمان) کے بارے میں مستقبل کی قیادت کے حوالے سے پیشگوئی کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نے اس تبدیلی پر خوشی کا اظہار کرنے والوں کو بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا،لیکن وہیں سوشل میڈیا پر اس فیصلے سے ناخوش افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر نظر آئی ۔ خاص کر وہ مشہور مذہبی شخصیات جو اس فیصلے سے قدرے ناخوش تھیں، وہ بھی تابعداری سے ان کو مبارکباد دیتے نظر آئے، اور اس امید کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ محمد بن سلمان ملک اور عوام کی بہترین طریقے سے خدمت کریں گے۔ لیکن ان علماء کو دوسرے علماء کی طرح، جنھوں نے خوشامدی ٹویٹ کیے تھے، بیرونی دنیا کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، تنقید نگاروں نے ان کواپنی آزادانہ رائے کا اظہار نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔اور بہت سے لوگوں نے نوجوان ولی عہد کی تقرری پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔
لیکن نوجوان شہزادے کو جدید میڈیا اور عوام کی رائے کی اہمیت کابخوبی اندازہ ہے۔محمد بن سلمان نے عہدہ سنبھالتے ہی سادگی کی وجہ سے تنخواہوں میں کی جانے والی کٹوتی ختم کرنے اورسرکاری ملازمین اور فوجی اہلکاروں کے لیے عید کی چھٹیوں میں توسیع کا اعلان کیا۔لیکن وژن ۲۰۳۰ء کے اہم ستون، نجی شعبے کو ان خوشیوں میں شریک نہیں کیا گیا۔
محمد بن سلمان کی ولی عہد کے طور پر تقرری کسی پالیسی میں تبدیلی کی عکاسی نہیں کرتی، لیکن اب ان کے اختیارات کو ہر نگرانی سے آزاد کر دیا گیا ہے اور سب سے اہم چیز ان پالیسیوں میں کی جانے والی تبدیلیاں ہوں گی، جو محمد بن نائف نے ولی عہد بننے کے بعد بنائی تھیں۔ وقتی طور پر تو محمد بن سلما ن ہی سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ بھی نظرنہیں آتی۔ وہ خلیج میں موجود نئی نسل کے شہزادوں کی صف میں آکھڑے ہوئے ہیں، اس نسل نے خلیج کے اثرورسوخ اور دولت میں قابل تعریف اضافے کو قریب سے دیکھا ہے اور اب یہ پورے مشرق وسطیٰ میں جاری خلیج مخالف ایجنڈے پر بھی خاص نظر رکھے ہوئے ہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
Leave a Reply