
محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق کی کتاب الفہرست، کتابیات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور عربی زبان میں اس موضوع پر پہلی معلومہ کتاب ہے۔ مصنف کا تعلق چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے ہے۔ محمد ابن اسحاق ابن ندیم وراق تھے اور اس دور کے انتہائی معزز پیشے یعنی کتابوں کی تصحیح و تربیت اور نقل و فروخت سے وابستہ تھے جس کے باعث اس دور کے تمام اہم کتب خانوں، مصنفین امراء و رؤسا کے ذاتی کتب خانوں، سرکاری کتب خانوں اور دنیا بھر کے تاجران کتب سے ان کے وسیع تعلقات تھے اور کتابوں کے بارے میں انہیں بے شمار نادر معلومات تھیں۔ ابن ندیم کی فہرست معلومات کا مخزن ہے جس میں قرآن مجید کے علوم، شاعری کے علوم، فصاحت و بلاغت کے علوم سے لے کر تاریخ، فقہ ، مذاہب مسالک، فرقوں ، فلسفہ، طب ، جادو گری وشعبدہ بازی ، کیمیا گری، ریاضی، ادیان غیر عرب پر قیمتی معلومات موجود ہیں۔ یہ کتاب اہم علوم سے متعلق اشخاص، کتابوں پر معلومات کا سمندر ہے مشہور مستشرق فلو گل نے اس کتاب کو مرتب کر کے اس کا نسخہ بیروت سے شائع کیا۔ چند سال قبل ایک انگریز محقق نے اس کتاب پر انتہائی شاندار حاشیے لکھ کر اس کتاب کے مباحث کو تاریخ کی روشنی میں صیقل کر دیا ہے۔ یہ کتاب ۳۷۷ ہجری میں لکھی گئی اور مصنف نے ۳۰ شعبان ۳۸۵ ھ کو وفات پائی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لسانیات، کتبات، آثار قدیمہ پر لکھنے والے محققین نے خواہ وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے اپنے علمی و تحقیقی کام میں ابن ندیم کی فہرست کا حوالہ نہیں دیا جو انتہائی تعجب انگیز بات ہے۔ ابن ندیم نے کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’ یہ عرب و عجم کی ان تمام کتابوں کی فہرست ہے جو عربی اور اس کے رسم الخط پر مشتمل ہے۔ اس میں ان کتابوں کے علوم مصنفین ، طبقات، مؤلفین ان کے انساب ، تاریخ ولادت،جائے قیام اور مناقب و نقائص کے بارے میں اس وقت سے معلومات فراہم کیے گئے ہیں جب سے وہ علوم ظہور میں آئے اور ہمارے زمانے ۳۳۷ ہجری تک پائے جاتے ہیں۔‘‘
ابن ندیم کے اس اقتباس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور ۳۷۷ ہجری تک دنیا بھر میں موجود زبانوں ، علوم ، شخصیات، فنون ، مذاہب اور مختلف اہم علمی ، فکری و تحقیقی مباحث کے بارے میں یہ کتاب معلومات کے دریچے وا کرتی ہے۔ اس کتاب میں عمرانیات، بشریات اور آثارہ قدیمہ کے حوالے سے بھی بڑی دلچسپ و عجیب وغریب معلومات نظر آتی ہیں اور ان توہمات کا بھی تفصیل سے ذکر کیاگیا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں میں موجود تھیں اور حیرت انگیز طور پر و ہ توہمات اور اس سے متعلق رسومات آج بھی مسلمانوں سمیت دنیا کے تمام طبقات، مذاہب اور غیر مذہبی گروہوں میں موجود ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مولانا الجلال ندویؒ نے بھی اپنی تحقیقات میں ابن ندیم کا کوئی حوالہ نہیں دیا نہ ہی اس کی تحقیق پر نقد کیا نہ اس کا رد کیا ۔ یہ کتاب دس مقالات پر مشتمل ہے اس کتاب کا پہلا مقالہ’’ لغات اقوام عرب و عجم ، ان کے اسلوب تحریر ، رسم الخط اور انداز کتابت‘‘ کا بھر پور طریقے سے احاطہ کرتا ہے ۔ ابن ندیم نے اس موضوع کو مقالہ اول کے طور پر تحریر کرتے ہوئے ایک ذیلی سرخی’’پہلا فن ‘‘ کے نام سے دی ہے جس کی مصلحت یہ ہے کہ رسم الخط اور کتابت کے بغیر علم کا فروغ ممکن ہی نہیں لہذا ابن ندیم نے اپنے پہلے مقالے میں زبانوں کے آغاز و ارتقاء کے بارے میں مختلف روایتیں بیان کی ہیں ۔ پھر خطِ سریانی ، خطِ فارسی، خطِ پہلوی ، خط ِدری، خط ِعبرانی ، خطِ عربی، روسی خط، خط ِرومی ، چینیِ خط ، خطِ سودانی ، خطِ رومی ، خطِ فرنگی کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے ۔
اس مقالے میں ہندوستان کے لوگوں کے فن کتابت کا بھی جزوی تذکرہ ہے ۔ ابن ندیم نے اس مقالے میں وادی سندھ کے رسم الخط اور یہاں کی مختلف زبانوں اور مذاہب کے بارے میں بھی چند جملے تحریر کیے ہیں۔ انہوں نے وادیٔ سندھ کے رسم الخط اور دنیا میں اس وقت پائے جانے والے تمام رسم الخط کے نمونے بھی دیے ہیں مختلف زبانوں کے دیئے گئے نمونوں کا موازنہ جب آج کل ان زبانوں کے موجود ہ رسم الخط سے کیا گیا تو اس میں کوئی مطابقت محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن وادی سندھ کے رسم الخط کے حوالے سے ابن ندیم نے وادی سندھ کی مہروں کی چار مختلف تحریریں نقل کی ہیں۔ ان تحریروں کے نقوش جان مارشل کے دریافت کردہ مہروں کے نقش سے ملتے جلتے ہیں۔ ابن ندیم کا بیان ہے کہ وادی سندھ میں دو سوا سا لیب کتابت رائج ہیں ، وہاں کے لوگ مختلف زبانوں اور مختلف مذاہب کے حامل ہیں۔ ابن ندیم نے اس رسم الخط کے حروف تہجی بھی تحریر کیے ہیں اور نقطوں کے اضافے سے اس خط میں حروف معجم کی تکمیل کا طریقہ بتایا ہے۔ مختلف زبانوں کے رسم الخط جو ندیم نے دیئے غالباً یہ خط ابن ندیم کے مخطوطے کے نقل در نقل ہونے کے باعث وراق کے ہاتھوں تبدیل ہو گیا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک ہزار سال کی مسافت کے باعث رسم الخط خود تبدیل ہو گئے ہوں۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہے ۔
ابن ندیم نے اپنی کتاب میں بعض ایسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جو آج کل کی عربی میں مستعمل نہیں ہیں۔ اس نے بعض ایسے شہروں کے نام بھی تحریر کیے ہیں جن کا سراغ ماہرین کو جغرافیے میں نہیں مل سکا مثلاً زر زق ، بلغر، موریہ، قرنکت، استان ممکن ہے کہ کاتبوں نے مخطوطے کی کتابت کرتے کرتے لفظوں میں تحریف کر دی ہو لیکن شہروں کے نام ہو سکتاہے کہ امتداد زمانہ کے باعث کچھ سے کچھ ہو گئے ہوں ۔ اس موضوع پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے لسانیات کے حوالے سے مغربی ماہرین کا شاندار کام ۱۸ ویں صدی میں شروع ہوا اور اس کے بعداس میدان میں تحقیق کا دائرہ وسیع تر ہوتا رہا لیکن ابن ندیم نے ۱۸ ویں صدی سے سات سو سال پہلے لسانیات کے مباحث کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا لہذا لسانیاتی تحقیقات کے ہر جائزے میں ابن ندیم کا حوالہ آنا چاہیے لیکن ایسا کیوں نہ ہوا۔ یہ انتہائی اہم نوعیت کا سوال ہے ندیم کا حوالہ نہ مغربی ماہرین کے یہاں ملتا ہے نہ مشرقی ماہرین کی کتابوں میں ۔
چوتھی صدی ہجری کے ابن ندیم کی کتاب کے بعد ہم وادی سندھ واپس چلتے ہیں جہاں ۲۱ ۱۹۲۰ء میں سرجان مارشل کی زیر ہدایت ہڑپہ اور موہن جودڑو میں آثار قدیمہ کی کھدائی شروع ہوئی اور وادی سندھ کی مہریں ان کھدائیوں سے برآمد ہوئیں۔ اس کے بعد وادی سندھ کا رسم الخط ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کا خاص موضوع بن گیا۔ سر جان مارشل کی کتاب “Mohenjo Daro & the Indus Civilizatoin”۱۹۳۱ میں شائع ہوئی تو اس میں وادیٔ سندھ کی مہروں کے نقوش بھی شائع کیے گئے ۔ عراق اور عیلام کے ماہرینِ آثار قدیمہ نے بھی ایسی کئی مہروں کی نشاندہی کی جو سندھی مہروں کے مماثل تھیں اس کے بعد سوسا اور کش کے کھنڈرات سے ایسی مہریں بر آمد ہوئیں جو سندھ کی مہروں سے گہری مماثلت رکھتی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کی رائے یہ تھی کہ سندھ سے مصنوعات کی تجارت کا دائرہ عراق تک محیط تھا لہذا سندھ کی مہریں وہاں ان تاجروں کے ذریعے پہنچیں جو تجارت وغیرہ میں مصروف تھے ۔ اس لحاظ سے سرجان مارشل کو پہلا ماہر آثار قدیمہ قرار دیا گیا جس نے وادی سندھ کے رسم الخط کے نمونے شائع کر کے دنیا بھر کو اپنی طرف متوجہ کیا لیکن سرجان مارشل سے آٹھ سو سال قبل محمد بن اسحاق ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست کے پہلے مقالے میں سندھ کے رسم الخط کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس رسم الخط کے چار نمونے بھی تحریر کیے ہیں۔ ابن ندیم کے دئیے گئے نقوش کا موازانہ مارشل کے نقوش سے کیا گیا تو ان میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ جزیرۃ العرب کے لوگ ۳۷۷ھ میں وادی سندھ کے رسم الخط اور اس رسم الخط کے نقوش و علامت سے بخوبی واقف تھے۔ وادی سندھ کا یہ قدیم رسم الخط اس وقت بھی اہل عرب کے لیے معروف تھالہذا اس سوال پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب اور زبان اگر کئی صدیوں پہلے دنیا سے نوبود ہو چکی تھی اور وادی سندھ کی تہذیب اور اس کا رسم الخط چوتھی صدی ہجری میں موجود نہیں تھا تو ابن ندیم کی رسائی اس رسم الخط تک کیسے ہوئی؟ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ معمہ بھی حل ہو سکے گا کہ بحر الکاہل کے جزائر ایسٹر کا رسم الخط جو اٹھارویں صدی کے آخر تک مستعمل تھا اور وادی سند ھ کے رسم الخط سے مماثل تھا کیوں محفوظ رہا؟
ذیل میں ہم ابن ندیم کی کتاب الفہرست سے سندھ کے رسم الخط کے بارے میں ابن ندیم کی تحقیق اور رسم الخط کے نمونے پیش کررہے ہیں۔
خط سندھ
یہاں کے لوگ مختلف زبانوں اور مختلف مذہبوں کے حامل ہیں اور ان کے ہاں گونا گوں اسالیب کتابت رائج ہیں ۔ جو لوگ ان کے شہروں میں آمدورفت رکھتے ہیں ان میں سے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ان کے اسالیب کتابت دو سو کے قریب ہیں ۔ اس نے یہ بھی بتایاکہ میں نے وہاں کے پایہ تخت میں سونے کا ایک بت دیکھا، کہا جاتا ہے کہ وہ بدھ کا مجسمہ ہے۔ وہ ایک ایسا شخص ہے جو کرسی پر بیٹھا ہے اور اس کے ایک ہاتھ کی انگلیاں عقد انا مل کے مطابق تیس کے عدد کو ظاہر کر رہی ہیں۔ اس کرسی پر جو کچھ مرقوم ہے اس کا نمونہ یہ ہے ۔
مذکورہ بالا شخص نے یہ بھی بتایا کہ ان کے اکثر لوگ نو حروف سے لکھتے ہیں جس کا نمونہ یہ ہے ۔
جس کا آغاز الف ، ب ، ج، د، ہ ، و ، ز ، ح، ط سے ہوتا ہے جب ط پر پہنتے ہیں تو پہلے حروف پر لوٹ آتے ہیں اور اس کے نیچے اس طرح ایک نقطہ ڈال دیتے ہیں۔
اور اس طرح وہ ی ، ک، ل ، م ، ن، س، ع، ف ، ص، ہو جاتے ہیں اور یوں گو یا دس حروف پر دس کا اور اضافہ ہو جا تا ہے پھر جب ص تک پہنچتے ہیں تو اس طرح لکھتے ہیں کہ ہر حروف کے نیچے دو نقطے ڈالتے چلتے جاتے ہیں ۔ مثلاً
اس انداز سے یہ ق ، ر،ش ، ت، ،ث، خ، ذ، ف، ظ ہو جاتے ہیں۔ اور جب ظ پر پہنچتے ہیں تو حرف اول کے نیچے جو اصل میں (۱) ہے اس طرح (آ) تین نقطے ڈال دیے جاتے ہیں اس ترتیب سے تمام حروف معجم کی تکیمل ہو جاتی ہے اور ان کی مدد سے جو چاہتے ہیں لکھتے ہیں۔
{}{}{}
Leave a Reply