
پاکستان میں تقریباً تمام مسلمانوں کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ ذہنی مرعوبیت کا ہے۔ ایک مسلمان جب اپنے ماحول میں گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے زندگی کا پورا نقشہ افرنگی طرز پر بنا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی آمدورفت کے تمام ذرائع سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی، ریل کار، ہوائی جہاز و ہیلی کاپٹر تمام کے تمام افرنگی ایجادات ہیں۔ اس کے گھر کے اندر باورچی خانہ کی چھوٹی بڑی ضروریات، چولہے سے لے کر پیسنے بنانے کے تمام آلات، گھر کی دیگر ضروریات مثلاً پنکھے، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ایئرکنڈیشنر، یہاں تک کہ اس کے غسل خانہ میں رفع حاجات کے کموڈ تک افرنگی ذہن کے بنائے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں، جہاں وہ کام کر کے روزی کماتا ہے وہاں کی ہر چیز افرنگ سے آئی ہوئی ہے، کرسی میز سے لے کر کام کے سلسلہ میں استعمال ہونے والے تمام برقی و غیر برقی آلات، ٹائپ رائٹر، فوٹو کاپیئر، فیکس مشین، کمپیوٹر وغیرہ نہ صرف افرنگی ہیں بلکہ اکثر و بیشتر افرنگ سے ہی بن کر آتی ہیں۔
آزاد حکومت اور ملکی دفاع کا یہ حال ہے کہ ہماری افواج کا لباس اور تربیت افرنگی اصولوں پر مرتب کیے گئے ہیں، جارحیت ہو یا دفاع، ان میں استعمال ہونے والے قریب قریب تمام ہتھیار افرنگی ٹیکنالوجی کے شاہکار ہیں۔ ہم ان میں سے بہت سے ہتھیار انہی کے اصولوں پر خود بھی بنا لیتے ہیں لیکن افرنگی، جو تخلیقِ علم کے میدان میں ہم سے کوسوں آگے ہیں، آئے دن نت نئے ہتھیار ایجاد کرتے رہتے ہیں جن کا توڑ ہمارے پاس نہیں ہوتا تاآنکہ وہ خود ہی ان ہتھیاروں کو تجارتی منڈیوں میں رکھ دیں اور ہم انہیں خرید کر نقل کر کے اپنے لیے بنالیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس ہر وہ مشین یا ہتھیار ہے جو افرنگیوں کے پاس ہے۔ نہیں! انہوں نے بہت سے مہلک ترین ہتھیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جن کی ہمیں بھنک تک نہیں پڑی ہوتی۔
زندگی کا کوئی میدان ہو، سمندروں کو کھنگالنا ہو یا فضائوں کو اجالنا ہو، زندگی کا کوئی جلی وخفی پہلو لے لیں، حیات، کلاں ہو یا خورد، ہاتھی سے لے کر خوردبینی جرثوموں تک، ہر تحقیقی میدان میں افرنگیوں کے نقوشِ پا آپ کو سب سے آگے نظر آئیں گے۔ ہم ابھی پدرم سلطان بود کے سحر ہی سے نہیں نکل پائے۔ علم کے کسی میدان کی بات ہو ہم ابوالہیشم اور ابن سینا قسم کے ناموں کی رٹ لگا دیں گے کہ افرنگیوں نے انہی سے نقل کیا۔ چلیے نقل کیا!۔۔۔ لیکن وہ انہی علوم کو اٹھا کر جن بلندیوں تک لے گئے ہماری تو نظر ان تک پہنچنے کی راہ سے تھک ہار کر واپس لوٹ آتی ہے۔ ہم تو خود اُن سب کو بھلا کر عدم و نیستی کے کسی اندھے کنویں میں جادبکے ہیں اور علم و تحقیق کے کسی میدان میں ہمارا کوئی قابل لحاظ وجود ہی نہیں۔
ماحول ہی نہیں، اس کی اپنی ذات کا یہ حال ہے کہ اس کی بود و باش، اس کے لباس تک کی تراش خراش، پاپوش سے لے کر گلے میں لٹکنے والی صلیب (نکٹائی) تک افرنگی ذہنی اثر کا پتا دیتی ہے، ہمارے مقتدر طبقہ کی اکثریت ذہناً افرنگی ہے جبکہ ہمارے دینی طبقہ کے بہت سے لوگوں کی شخصیتیں مرعوبیت کا شکار ہیں۔ اکثر آپ کو چہرے پر سنت رسولﷺ سجی ہوئی نظر آئے گی اور گلے میں صلیب لٹک رہی ہوگی۔ بڑے بڑے جغادری مسلمان، ذرا کرید کر دیکھیے تو افرنگ کے ثنا خوان نظر آئیں گے۔
یہ ایک فطری سی بات ہے جب آپ کی بودوباش افرنگی انداز پر ہو، آپ اپنا دفاع انہی سے منگائے ہوئے اسلحہ سے کرتے ہوں، جب آپ اپنی روزی انہی کے بنائے ہوئے ضابطوں سے حاصل کرتے ہوں، جب آپ کی تعلیم انہی کے علوم کی نقالی پر مبنی ہو، جب آپ کے کان انہی کے ذرائع ابلاغ کے پھیلائے ہوئے خیالات کو سنتے ہوں اور آپ کی آنکھیں انہی کے دکھائے ہوئے مناظر کو دیکھتی ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے ذہن کسی بھی انداز میں آزادانہ سوچ کے حامل ہو سکیں؟ ہمارے سیاستدان خواہ وہ دینی ہوں یا بے دین، انہی کی بتائی ہوئی طرزِ حکومت، جمہورت، کے پیروکار ہیں۔ ہم نے نہ صرف یہ کہ افرنگی نظام جمہوریت کو اسلام کا لبادہ پہنا دیا، بلکہ رٹ یہ لگا دی کہ یہ جمہوریت تو اصل میں انہوں نے ہم سے سیکھی۔ ہم اپنی جہالت میں اس درجہ بے بس ہوئے کہ ایک خدا سے باغی متکبر انسان کے نظامِ حیات اور خدا کے سامنے جھکنے والے فروتن انسان کے نظامِ حیات میں فرق ہی نہ کرپائے۔ کہاں خاک، کہاں عالم پاک اور پھر اس جمہوریت کے ساتھ مادر پدر آزاد سرمایہ داری کے نظام کو بھی ہم نے من و عن قبول کرلیا۔ وہ جو قومِ رسول ہاشمی کا مزاج تھا، تاریخ کے حوالے ہوا اور ہم نے جدید اجتہاد یا اسلام کے لبادے میں ایک نئی جہت، ایک نئے مزاج اور ایک نئے مقصد کو اپنا لیا۔ یہ سب کچھ ہماری ناسمجھی سے ہوا۔ ہم یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ اس جمہوریت و سرمایہ داری کے طفیل ہم اس مزاج اور اس رویے کو خیرباد کہہ رہے ہیں جسے اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ غرض ہم اپنی نجی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی کے تمام اظہارات تک وہی کرتے ہیں جو افرنگی ہم سے چاہتے ہیں۔ ہماری خارجہ حکمت عملی بھی کھربوں روپوں کے خسارے اور ہزاروں افراد کی قربانی کے باوجود افرنگی مفادات کو آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارا دینی طبقہ کبھی نیچے، کبھی اونچے سروں میں مخالفت کے باوجود مکمل طور پر بے اثر ہے۔
ایسے میں ہمارے ایک عام آدمی سے جو جاہل یا نیم پڑھا لکھا ہے اور جسے عموماً معاشی استقلال بھی حاصل نہیں، یہ توقع آخر کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی اپنے ذہن سے سوچنے کے قابل ہو سکتا ہے؟ ہمارا مقتدر طبقہ جن لوگوں کی اولادوں پر مشتمل ہے، ان کی ذہنی آبیاری خود افرنگیوں نے اپنے نو آبادیاتی قبضہ کے دوران کی۔ انہی کی نسلیں ہمارے ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں۔ ان سب کی اکثریت بے دینی کی علمبردار ہے۔ یہ حضرات اول تو تعلیم کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے، اور جو ناقص تعلیمی نظام موجود بھی ہے، اس میں بھی یہ اصحاب اپنے آقائوں کی ہدایات کے مطابق افرنگی نظریات کی ترویج کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام کو دینی اثرات سے پاک کرنا، اباحیت کو دبے پائوں آنے دینا، انگریزی کو نشست حاکمیت پر بٹھائے رکھنا، ان کے مقاصد میں شامل ہے۔ ان حالات میں کسی نوع کی ذہنی آزاد روی یا مستقبل میں ایسی کسی صورت کے پیدا ہونے کا دور دور تک کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
جب قوم کی غالب اکثریت ذہنی مرعوبیت کا شکار ہو، جہالت عام ہو، معاشی میدان میں ہمارا انگ انگ بیرونی و اندرونی قرضوں کے شکنجے میں کسا ہو، سیاسی حالت انتشار میں مبتلا ہو اور امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہو، تو کیا مستقبل کے بارے میں مایوسی کے علاوہ بھی کوئی راہ ان حالات سے نکلنے کی ممکن ہے؟ ایک راہ البتہ، ایسی موجود ہے جسے اختیار کر کے ہم یقینی طور پر ان حالات سے نکلنے کی سبیل پیدا کر سکتے ہیں۔ اور وہ راہ ایسی ہے جس کا حصول ہم اپنے وسائل سے ممکن بنا سکتے ہیں۔ اور وہ راہ صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے تخلیقِ علم!
تخلیقِ علم ہی وہ راہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی بنیادی کمزوری کو ختم کرسکتے ہیں۔ اگر ہم تخلیقِ علم پر قادر ہو سکیں تو افرنگ کے مقابلہ میں فدویانہ جھکی نظروں سے غلامانہ تعریفی کلمات کی ممیاہٹ کے بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آزاد روی کی بلند آہنگی سے پُراعتماد رویے کو جنم دیا جاسکتا ہے۔ ہم افرنگ کے ساتھ تخلیقی عمل میں ساجھی ہوئے بغیر نہ اپنی دل گیری ختم کر سکتے ہیں اور نہ دنیا میں کوئی مقام پیدا کرسکتے ہیں۔
تخلیقِ علم کے لیے پہلا مرحلہ حصولِ علم کا ہے۔ حصولِ علم سے مراد دوسروں کی زبانوں میں رٹا ہوا علم نہیں، دوسروں کی زبانوں میں رٹا ہوا علم، علم نہیں وہ تو معلومات کا ذخیرہ ہے۔ جسے ہم اپنے ذہن کے تاریک خانوں میں بھر دیتے ہیں۔ اس علم میں اور کتابوں میں لکھے علم میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے مہندسین ساٹھ سالوں سے جن مشینوں کو ان کے تیار کنندگان کی لکھی ہوئی ہدایات کے مطابق چلاتے آرہے ہیں، جب کبھی ان کی کارکردگی بہتر کرنے کا مرحلہ آتا ہے یا ان میں کوئی خرابی آتی ہے تو انہیں درست کرنے کے لیے ورلڈ بنک سے قرضہ لے کر افرنگی مہندسین بلائے جاتے ہیں۔ ذہن کی دو پرتوں کے درمیان انگریزی میں رٹا ہوا علم اور کتابی علم جلد کی دو پرتوں کے درمیان لکھے ہوئے علم میں کوئی فرق نہیں۔ ضرورت پڑنے پر اسے ذہن سے نکال لیں یا کتاب کھول کر پڑھ لیں، مطلب برآری کے لیے یکساں ہے۔ تخلیقِ علم نہ کتابی علم سے ممکن ہے، نہ رٹے ہوئے علم سے۔ علم وہ ہے جو ہماری جان کا حصہ بن جائے۔ ایسے ہی جیسے زرگل شہد کی مکھی کی جان کا حصہ بن جاتا ہے، پھر وہ شہد اگلتی ہے جو اپنے اندر مسیحائی کا درجہ رکھتی ہے۔ محض معلومات کی جگالی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمیں مروجہ علوم کو اپنی زبان میں اپنی جان کا حصہ بنانا ہے، تبھی وہ ہماری معاشی، معاشرتی اور سیاسی مشکلات کا حل پیش کر سکیں گے۔
اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو حصولِ علم کے لیے تیار کریں۔ انہیں مناسب مواد بہم پہنچانے کے لیے مروجہ بین الاقوامی علوم کے تمام شعبہ جات کی نمائندہ کتب کو اپنی زبان میں منتقل کردیں اور نئی ایجادات و انکشافات پر مشتمل رسائل کو تسلسل کے ساتھ ترجمہ کرکے شائع کرتے رہیں تو بہت جلد ہم سیکھے ہوئے علم کی اس حد تک پہنچ جائیں گے جس سے تخلیقِ علم کی منزل دوچار گام ہی ہوا کرتی ہے۔ جس طرح ایک آدمی جسم، عمر اور صحت کی ایک حد کو، جسے بلوغت کہتے ہیں، حاصل کرکے تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی شعبۂ علم میں سمجھی ہوئی معلومات کے حصول کی ایک ایسی سطح بھی ہوتی ہے، جس کے آگے تخلیقِ علم کی راہ کھلتی ہے۔ ذہن نئے اور اچھوتے خیالات کی پیدائش کے قابل ہو جاتا ہے اور ایجادات و انکشافات کی ایک دنیا اس کے سامنے وا ہو جاتی ہے۔
اگر ہم یہ کرسکیں، اگر ہم حصولِ علم کو تخلیقِ علم کی حدوں تک لے جائیں تو بہت جلد ہم مرعوبیت کے بند گنبد سے نکل کر لاانتہا امکانات کے کھلے آسمان کے نیچے آجائیں گے، جہاں ہم تخلیق علم کی دوڑ میں افرنگ کا مقابلہ کرسکیں گے، پھر معاملہ صرف لینے کا نہیں، لینے اور دینے کا ہوگا۔ پھر ہماری نظریں بھی اعلیٰ مقاصد کی بلندیوں پر ہوں گی، اس دوڑ میں کبھی وہ آگے اور کبھی ہم آگے ہوں گے۔ یہ دوڑ کسی کا پیچھا کرنے کی نہیں، مسابقت کی دوڑ ہوگی۔
یہی وہ راہ ہے، تخلیقِ علم کی راہ، جس پر چل کر ہم اپنی ذہنی غلامی، اپنی پس ماندگی، اپنی ذلت و ادبار سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں،ہم ایک عرصہ تک دوسرے تمام میدانوں کی طرح علمی میدان میں بھی پیش قدم رہے ہیں۔ اگر ہم آج ارادہ کریں تو اس کھوئے ہوئے مقام کو باآسانی دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور۔ جولائی ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply