’گھر پر تعلیم‘: چین میں مقبولیت

زیامین (Xiamen) شہر کے مغرب میں موجود سمندر کے بالمقابل ٹاؤن میں یوان ہونگ لِنگ جس گھر میں رہتا ہے اس کے دروازے پر ’گھر پر تعلیم‘ (Study at home) کے الفاظ آویزاں ہیں۔ ان سے یوان کی مراد ہے کہ بچوں کو ’اسکول بھیجنا ترک کرو‘۔یہ فیصلہ یوان نے اپنی بیٹی زیاؤنی (Xiaoyi) کے لیے اُس وقت کیاتھا، جب وہ ۲۰۰۲ء میں کودکستان (Kinde garden) میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اُکتاہٹ کا شکار ہوگئی تھی۔ یوان نے اپنی بیٹی کو اسکول سے نکال کر اُس کا کُل وقتی اسکول استاد بننے کو ترجیح دی۔یہ اس کاایک بنیادی فیصلہ تھا۔مغربی ممالک میں کبھی اس روش کو اجنبی تصور کیا جاتا تھا لیکن وہاں کچھ عشروں سے اس طرزِ تدریس کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔چین میں سرکارسے وابستہ افراد اس روشِ تدریس سے خوف زدہ ہیں۔ اُن کاکہنا ہے کہ اسکولوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے، کیوں کہ یہ اسکول ہی ہیں جو بچوں میں سوشل ازم کے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔

تھنک ٹینک سے وابستہ رہنے اور اس کے بعدتجارت کا پیشہ اپنانے والے یوان کے لیے یہ سب کچھ آسان نہ تھا۔ ابتدائی نو برسوں تک گھر پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرکاری منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔عام طور پر ان برسوں کے دوران طالب علموں کی عمر نو سے پندرہ برس ہوتی ہے۔یہ سرکاری منظور ی خاص حالات میں دی جاتی ہے، یعنی جب کوئی بچہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کا حل اسکول پیش کرنے میں ناکام ہو۔ گزشتہ سال زیاؤنی نے یونیورسٹی سے گریجویٹ کی سند حاصل کی ہے۔یوان آج بھی گھر پر درجن بھرکُل وقتی طالب علموں کو تعلیم دیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان طالب علموں کا تعلق دیگر خاندانوں سے ہے۔

گھر پر تعلیم دینے کانظام آج بھی متنازع ہے۔ ۲۰۱۷ ء میں پہلی مرتبہ وزارتِ تعلیم نے اسے روکنے کے لیے اپنے اختیارات استعمال کیے۔اس بارے میں سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گھر پر تعلیم دینابچوں کی عمر بھر تعلیم و تربیت میں نقصان دہ ہے۔والدین کو بھی یاددہانی کرائی گئی ہے کہ بغیر اجازت کے گھر پرتعلیم دینے کا سلسلہ ممنوع ہے۔مارچ میں والدین کو تنبیہ کی گئی تھی کہ انہوں نے سرکاری احکامات کی تعمیل نہ کی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کچھ والدین ایسے ہیں، جو بالکل خوف زدہ نہیں۔ ۲۰۱۷ء میں بیجنگ کے ایک تھنک ٹینک نے تخمینہ پیش کیاہے کہ ۵۶ ہزار طالب علموں نے اپنے اپنے اسکولوں کو خیر باد کہہ دیا ہے۔یہ تعداد ۲۰۱۳ء میں تین گنا حد تک بڑھ گئی تھی۔ وہ والدین جو گھر وں پر تعلیم دے رہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ ایسے طالب علموں کی تعدا د ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔بیجنگ کی ایک خاتون تسلیم کرتی ہیں کہ اُن کی طرح کے لاکھوں خاندان ہیں۔ ’’وی چیٹ‘‘ جیسے گروپ میں جو لوگ اس بارے میں اپنے تجربات تحریر کرتے ہیں ان کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ ان میں ایسوں کی کثرت ہے، جنہوں نے سرکاری منظوری حاصل نہیں کی ہے۔ انھیں اس ضمن میں منظوری حاصل کرنے کی پرواہ بھی نہیں۔سر کاری تنبیہا ت کے باوجودگزشتہ دو برسوں میں تیز رفتاری سے نہ سہی لیکن گھروں پر تعلیم دینے میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے باوجود کئی وجوہات ایسی ہیں، جن کے باعث والدین خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ایک سروے کے مطابق سرکاری اسکولوں میں’نظریات‘ اور ’طریقہ تدریس‘ دو ایسی چیزیں ہیں جنہیں لوگ ناپسند کرتے ہیں۔یوان کا کہنا ہے کہ آزاد سوچ اور بحثوں کا نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔اسکول کلچر میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ یہاں دن رات طالب علم نصاب کی چیزوں میں منہمک رہتے ہیں۔کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو گھروں پر تعلیم دینے کو مذہبی وجوہات کی وجہ سے ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ چین کے اسکول الحاد پھیلارہے ہیں۔

اکثر والدین شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور خاصے تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں۔ ان والدین کا تعلق ۹۰ کی لبرل دہائی سے ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں، جو امریکا کے گھروں میں تعلیم دینے کے اندازسے متاثر ہیں۔امریکا کی ۳۰ ریاستوں میں ۱۹۸۰ء تک اس طرزِ تدریس پر پابندی تھی۔ اب تین فیصد طالب علم اس انداز سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ چین میں لاکھوں طالب علم جو گھروں پر تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی تعداد ۹ سے پندرہ سال کے طالب علموں کی کُل تعداد کا ایک فیصد بھی نہیں۔

چین میں گھر پر دی جانے والی تعلیم دو طرح کی ہے۔ پہلی طرز یہ ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک، عام طور پر باپ، کل وقتی استاد بننے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ اپنا روزگار چھوڑ کر جزو وقتی ملازمت اختیار کرلیتا ہے۔ وسطی صوبے شانگزی میں رہائش پذیر ۱۷سالہ سونین کو اسکول سے اس وقت نکال دیا تھا جب وہ دس سال کا تھا۔ اس کے والد لیکچرار ہیں، وہ اس کے کل وقتی استاد بن گئے۔ نین (اصل نام یہ نہیں) اب جوان ہے اور ا س کے والدنے دوبارہ اپنا سابقہ پیشہ اختیار کرلیا ہے۔نین نے اپنے پڑھنے اور کام کرنے کے اوقاتِ کار ترتیب دیے ہیں۔وہ آن لائن پڑھتا ہے اور رضاکارانہ بنیادوں پر کام بھی کرتا ہے۔والدین جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے چین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں، ان کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی کے نظریات کو سمجھیں اور ان نظریات کا جاننا داخلے کے امتحان میں کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ طالب علم ان نظریات سے آگاہی حاصل کریں۔ نین جیسے طالب علم جوگھروں پر تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

دوسری قسم جسے ’’اجتماعی گھر اسکول‘‘ (Collective home School) کہا جاتا ہے، قدرے کم مقبول ہے۔زیامن میں موجود یوان اس کے منتظم ہیں۔اس طرزِ تدریس میں مصروف اساتذہ طالب علموں سے سالانہ سات ہزار ستر امریکی ڈالر وصول کرتے ہیں۔

یہ کام سرکار کا ہے کہ وہ اس طرزِ تدریس پر عمل پیرا افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے برعکس سرکار سیاسی مخالفین کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔کچھ سرکاری افراد گھروں پر اسکول چلانے والوں کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہیں۔ ۲۰۱۷ ء میں حکومت کی جانب سے انتباہ جاری کرنے سے پہلے سرکاری ذرائع ابلاغ نے گھروں پر تعلیم دینے کے انداز میں اضافے کے باعث انھیں منظوری دینے کا اشارہ دیا تھا کیوں کہ اس طرح طالب علموں میں موجود تناؤ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ممکن ہے کہ سرکاری اہلکار اجتماعی گھر اسکولوں پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتے ہوں، تاکہ ان والدین کے خلاف کارروائی کی جائے جو اپنے بچوں کوپیسہ کمانے کے لیے بھیجتے ہیں۔شواہد بھی اس بارے میں یہی کچھ بتاتے ہیں۔ایک خاندان جس کی نو عمر بیٹی گھر اسکول میں پڑھتی ہے، اس نے کہا کہ انھیں تعلیم کے مقامی محکمے کی جانب سے کال آئی تھی۔ان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کی بیٹی کہاں پڑھتی ہے۔ اس کے بعد سے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔اس نے بتایا کہ ایسے بہت سے خاندانوں کا بھی یہی تجربہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری اہل ِ کار دانستہ آنکھیں بند کیے ہیں۔وینگ ڈونگ ایک وکیل ہے، جو تعلیم کے شعبے میں کام کرتا ہے اس نے کوئی ایسا خاندان ابھی تک نہیں دیکھا جسے گھر پر تعلیم دینے کی وجہ سے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

جولائی کے مہینے میں وزارتِ تعلیم نے کوشش کی تھی کہ اسکول وطن اور پارٹی سے محبت کے جذبات کو فروغ دیں۔ اگست کے مہینے میں سرکاری ذرائع ابلاغ نے چین کے رہنما زی جن پنگ (Xi Jinping) کے الفاظ کو دہرایا کہ ’’اسکول کو لازمی طور پر طالب علموں کے دلوں میں سوشلسٹ نظریات کی جڑوں کو گہرا کرنا چاہیے‘‘۔ سرکاری اہلکار اس بارے میں بالکل پُراعتماد نہیں ہیں کہ والدین اس پر عمل کریں گے۔ ایسے افراد پر مبنی آئن لائن کلب کے بانی زو زوئی جن (Xu Xuejin) نے اپنی ویب سائٹ بندکردی ہے تاکہ اپنے اراکین کی شناخت کو مخفی رکھے۔

(ترجمہ: جاوید احمد خورشید)

“More Chinese are home schooling their kids”. (“The Economist”. Oct. 17, 2019)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*