تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ کو شروع کرنے ہی کے لیے نہیں بلکہ جاری رکھنے اور ختم کرنے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولنا ناگزیر ہوتا ہے۔ 31 اگست کو امریکی صدر بارک اوباما نے عراق میں کومبیٹ مشن ختم کرنے کے حوالے سے جو تقریر کی وہ جھوٹ کا پلندہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق جنگ در اصل ایک ملک کو غیر مسلح کرنے کے لیے تھی! کیا واقعی؟ عراقی دہشت گردوں نے امریکی فوجیوں کو ہائی جیک کرکے اپنے ہاں جنگ پر مجبور کیا ہوگا! مجھے مکمل یقین ہے کہ عراقی باشندے آج بھی ’’دہشت گرد‘‘ ہی ہیں! امریکی پتا نہیں کس طرح عراق میں پھنس گئے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو امریکیوں نے اپنی مرضی سے شروع نہیں کی! سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کس جھوٹ کو قبول نہ کیا جائے!
امریکی کسی بھی جنگ میں بلا وجہ شریک ہو جاتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکا کی جانب سے کسی بھی ملک پر جنگ مسلط کرتے ہیں وہ ہیرو ہی کہلاتے ہیں۔ امریکیوں نے جنگ کو مقدس فریضے میں تبدیل کردیا ہے۔ عراقیوں کو بچانے کے لیے اس ملک پر جنگ مسلط کی گئی۔ ہم عراق کو ’’بچانے‘‘ میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اب تک دس لاکھ سے زائد عراقی قتل ہوچکے ہیں۔ بیس پچیس لاکھ عراقی اپنا ملک چھوڑ کر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اور جو عراقی ملک میں رہ گئے ہیں ان کے پاس امریکیوں سے نفرت کے سوا کون سا آپشن رہ گیا ہے۔
امریکا کا دعویٰ ہے کہ عراق میں تمام خرابیاں ختم کردی گئی ہیں۔ صدام حسین کی حکومت کا صفایا کردیا گیا جس کے بعد عوامی حکومت آئی۔ عراقیوں کو اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنے کا موقع دیا گیا۔ مگر ملک کا کیا حال ہوا؟ اس وقت جو عراق ہے کیا وہ ۲۰۰۳ء سے پہلے کے عراق سے بہتر ہے؟ اور ۲۰۰۳ء میں جو عراق تھا کیا وہ ۱۹۸۹ء کے عراق سے بہتر نہیں تھا؟ جارج ہربرٹ بش اور جارج واکر بش کی مسلط کردہ جنگوں نے عراق کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ ملک میں انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوا۔ تعمیر نو کے نام پر اس ملک کی تیل کی دولت کو جی بھر کے لوٹا گیا۔ امریکی صدور کہتے ہیں کہ یہ جنگ عراقی عوام کے مفاد میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کون سا مفاد سلامت رہ گیا ہے؟ عراقیوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کردیا گیا ہے۔ ان کی ایک پوری نسل تباہ ہوگئی۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو غیر معمولی حد تک فروغ ملا۔ ایسے میں کسی ملک کے مستحکم رہنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
امریکا نے عراق اور افغانستان پر جو جنگ مسلط کی وہ القاعدہ سے نجات پانے کی خاطر تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک میں جنگ چھیڑے جانے سے قبل القاعدہ کہاں تھی؟ یہ ایک معمولی سی تنظیم تھی جو چند ایک ریکروٹس بھی مشکل سے حاصل کر پاتی تھی۔ افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کیے جانے کے بعد امریکا نے القاعدہ کو پنپنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ القاعدہ کو افغانستان میں ہرانے کا عزم لے کر جو فوجی افغان سرزمین پر اترے وہ القاعدہ کو پچھاڑنے میں اب تک ناکام ہی رہے ہیں۔ عراق میں کومبیٹ مشن ختم کردیا گیا ہے۔ اب وہاں جو امریکی فوجی تعینات ہیں وہ جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ وہ عراقی فورسز کی تربیت اور مشاورت وغیرہ کے لیے وہاں رہیں گے۔ افغانستان کی حالت یہ ہے کہ صدر اوباما ہر حال میں جولائی ۲۰۱۱ء تک انخلا شروع کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکی عوام کو بتا سکیں کہ جنگ ختم ہو رہی ہے اور امن قائم ہوگیا ہے۔ امریکا میں ۲۰۱۲ء میں صدارتی انتخاب ہوگا۔ اوباما چاہیں گے کہ ان کی پوزیشن مضبوط ہو اور وہ دوبارہ صدر منتخب ہوں۔ مگر افغانستان میں امریکی افواج کے نئے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا کہنا ہے کہ انخلا کے بارے میں حتمی فیصلہ حالات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
عراق اور افغانستان کے حالات میں بہت فرق ہے۔ عراق میں تعمیر نو کا کام آسان تھا۔ یہی سبب ہے کہ کومبیٹ مشن جلد لپیٹ دیا گیا مگر افغانستان میں معاملات یکسر مختلف ہیں۔ عراق میں جنگ ختم کرنے کے لیے امریکی افواج نے کارروائی تیز کرتے ہوئے بہت سے علاقوں کو کنٹرول میں لے لیا تھا۔ افغانستان کے صوبے ہلمند میں یہ تجربہ ناکام رہا ہے۔ اوباما خواہ مخواہ کامیابی کا تاثر دے رہے ہیں۔ ہلمند میں ناکامی اتنی واضح ہے کہ قندھار آپریشن ستمبر کے آخر تک موخر کردیا گیا ہے۔ اگر ہلمند میں کامیابی ملی تھی تو قندھار آپریشن میں اس قدر تاخیر کیوں؟ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔
بارک اوباما نے سابق صدر بش جونیئر سے ملاقات کی اور اس کے بعد کہا کہ وہ اس جنگ سے کبھی متفق نہ تھے۔ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ بارک اوباما نے کئی بار سینیٹ میں عراق اور افغان جنگ کے لیے فنڈنگ میں اضافے کی راہ ہموار کی۔ اس ملاقات کے بعد اوباما نے کہا کہ بش جونیئر نے جو کچھ کیا اس سے امریکا کو محفوظ بنانے میں مدد ملی۔ یہ بھی نرا جھوٹ ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ امریکا کو جس قدر خطرات اب لاحق ہیں پہلے کبھی لاحق نہ تھے۔ امریکا کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس نے افغانوں اور عراقیوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ صدر بش اور ان کے رفقاء نے بلا جواز جنگیں شروع کرکے امریکیوں کے لیے مسائل پیدا کیے۔ اس پر ان کا کڑا محاسبہ ہونا چاہیے۔ شریک جرم ہونا کسی بھی اعتبار سے خدمات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ بارک اوباما نے کہا کہ عراق جنگ میں امریکا کو ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے پڑے۔ سرمایہ کاری متاثر ہوئی۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ امریکا کو معاشی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بجٹ کا خسارہ بڑھ گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ زیادہ کام کرنے پر بھی کم اجرت ملتی ہے۔ امریکا کی مسابقت کی صلاحیت دم توڑتی جارہی ہے۔
بارک اوباما نے ان سیکڑوں ارب ڈالر کا ذکر نہیں کیا جو عراق میں خرچ کیے جانے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکیوں کو ابھی بہت کچھ ضائع کرنا ہے۔ سیکڑوں ارب ڈالر ٹیکس ادا کرنے والوں کی جیب سے نکال کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیئے جائیں گے۔ ایک بڑا جھوٹ یہ بھی ہے کہ عراق میں کومبیٹ مشن ختم کردیا گیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا عراق میں تعینات امریکی فوجی اب کسی بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے؟ اور اگر ان پر حملہ کیا گیا تو کیا وہ چپ سادھ لیں گے؟ امریکیوں کو عراق میں مزید سوا سال رہنا ہے۔ اس دوران وہ عراق فورسز کی تربیت کا فریضہ انجام دیں گے اور چند ایک انتظامی امور میں بھی ہاتھ بٹائیں گے۔ امریکی سفارت کار، امدادی کارکن، انجینئر، ڈاکٹر اور دوسرے بہت سے پروفیشنلز عراق میں خدمات انجام دینے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ عراق میں تشدد کا گراف نیچے نہیں آئے گا۔ اور یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ تشدد بڑھنے پر امریکی کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے۔
(بحوالہ: ’’گلوبل ریسرچ ڈاٹ کام‘‘۔ یکم ستمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply