مراکش: انتخابات کے بعد۔۔۔

مراکش میں ایک معتدل اسلامی جماعت فاتح کے طور پر سامنے آئی ہے۔ عرب میں اٹھنے والی حالیہ لہر میں یہ دوسرا واقعہ ہے کہ عوام نے اسلام پسندوں کو چُنا ہے۔

جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے ہفتہ تک جاری ہونے والے نامکمل ابتدائی نتائج کے مطابق سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر یہ کامیابی اکیلے حکومت بنانے کے لیے کافی نہیں ہے، یہ انتخابات ملک میں نئے دستور کے تحت پہلے انتخابات ہیں۔ اگر آگے بھی یہ نتائج برقرار رہے تو ’’شاہ‘‘ کو اس پارٹی ہی سے وزیراعظم نامزد کرنا ہوگا اور اس پارٹی کو مخلوط حکومت کی سربراہی کا اختیار ہوگا۔

پچھلے برس جمہوریت کے لیے مظاہروں کے بعد مراکش کے شاہ محمد ششم نے جو دستور بنایا، وہ مکمل آئینی بادشاہت کے بجائے شاہ کے لیے، دفاعی اور مذہبی معاملات سمیت بہت سے اہم اختیارات کا حامل ہے، اب بھی مظاہرین کی طرف سے مکمل آئینی بادشاہت کے لیے آوازیںاُٹھ رہی ہیں۔ بہرحال یہ قائم ہونے والی حکومت مراکش میں عوام کی پہلی آزادانہ منتخب حکومت ہوگی اسے اپنے وزراء کا تقرر کرنے اور پارلیمان کو برخاست کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔

گزشتہ ماہ تیونس میں بھی عوام نے معتدل اسلام پسند جماعت ’’النہضہ‘‘ کو پہلے آزاد عام انتخابات میں منتخب کیا تھا۔

مراکش کی وزارتِ داخلہ کی طرف سے ہفتہ ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو جاری کیے جانے والے ابتدائی نتائج کے مطابق جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے ’۸۰‘ نشستیں براہ راست حاصل کیں، جبکہ ’۹۰‘ نشستیں ان نتائج کو سامنے رکھ کر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر تقسیم کی جائیں گی۔ ابھی ۱۷ نشستوں کے نتائج آنا باقی ہیں، توقع ہے کہ ۳۹۵ نشستوں کی پارلیمان میں JDP کو خاصی نشستیں حاصل ہو جائیں گی، اس نتیجے سے یہ ضمانت حاصل ہو رہی ہے کہ اس پارٹی کی اکثریت اب باقی رہے گی۔

استقلال پارٹی، جس کو موجودہ وزیراعظم کی مدد حاصل تھی اور جو تاریخی طور پر بادشاہت کی حمایتی جماعت ہے، یہ ۴۵ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی ہے۔

’۳۸‘ نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی درمیانی دائیں بازو کی ’’نیشنل ریلی آف انڈی پنڈنٹس (NRI) ہے، جس کے سربراہ اس وقت کی حکومت میں موجود وزیر خزانہ ہیں۔

اس کے باوجود کہ یہ ایک تاریخی تبدیلی ہے مگر JDP سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ کوئی بنیادی سماجی اصلاح کی منصوبہ بندی کرسکے گی، امید ہے کہ ان کو استقلال پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانی ہوگی۔

جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ۱۹۹۸ء میں قائم کی گئی تھی، یہ ہمیشہ شاہ کی وفادار رہی، اس کے سربراہ عبداللہ بن قران نے فرانس کے ٹی وی پر ہفتہ کو بات کرتے ہوئے فتح کا دعویٰ یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’وہ اپنی توجہ جمہوریت اور طرزِ حکمرانی پر مرکوز رکھیں گے‘‘ فرانس کے ٹی وی پر آپ نے مزید کہا کہ ’’آج میں مراکشی عوام سے وعدہ کر سکتا ہوں کہ میں اور میرے ساتھی اس بات کی کوشش کریں گے کہ ہم سنجیدہ و زیادہ عقلی بنیاد پر کام کریں‘‘۔ ان کی جماعت نے مراکش کے غریب عوام کو ان کی معاشی اور معاشرتی مسائل کی بنیاد پر اپنی طرف راغب کیا، اور اپنے آپ کو ترکی کی مقتدر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کا نمونہ بنا کر پیش کیا جو مذہب اور سیاست کو علیحدہ رکھ کر حکومت چلا رہی ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ نگار منیر فیرم نے کہا کہ تیونس کی ’’النہضہ‘‘ کی طرح یہ لوگ بھی اقتدار میں نئے وارد ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے اب تک عوام کو دھوکا نہیں دیا ہے، اور انقلابی تبدیلیوں کا حقیقی اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس پارٹی کی کامیابی دراصل موجودہ صاحبِ اقتدار جماعت کی وسیع پیمانے پر بدعنوانیوں کے خلاف عوام کا ردعمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آنے والی نئی حکومت ملک کے لیے سیاسی دھچکا ثابت ہوگی‘‘۔

جسٹس پارٹی نے بدعنوانی کی مذمت کی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ امیر اور غریب کا فرق دور کیا جائے گا، لیکن ان کی پالیسی ابھی تک مبہم اور غیرواضح ہے۔

پارٹی کے ایک قائد مصطفی رامد نے ایک انٹرویو میں کہاکہ ’’ہم اسلام کے ترقی پسندانہ رجحانات کے حامل ہیں۔ انصاف اور مذہبی آزادی کے ذریعہ ہی مراکش کو اسلامی طرز پر ڈھالنا ممکن ہوگا‘‘۔

مراکشی عوام نے تیونس کے عوام کی طرح اپنے سربراہ مملکت سے ناتا نہیں توڑا۔ شاہ محمد ششم جو ۱۹۹۹ء سے اقتدار میں ہیں، اب بھی عوام میں مقبول ہیں۔ عوام نے جولائی کے ریفرنڈم میں شاہ کے ترمیم شدہ دستور کی بڑے پیمانے پر توثیق کی ہے۔ اس کے باوجود کہ مکمل جمہوریت کی حامی تحریک نے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی، ۲۵ نومبر جمعہ کے دن پولنگ میں رائے دہندگان کی توقع سے زیادہ شرکت دیکھنے میں آئی، جس سے شاہ کی طرف سے ریفرنڈم کے بعد دستوری اصلاحات کی حمایت میں تسلسل کا اظہار ہوتا ہے۔ وزارت داخلہ کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق ۴۵ فیصد ووٹ ڈالے گئے، جبکہ ۲۰۰۷ء کے پارلیمانی انتخابات میں ۳۷ فیصد ووٹ پڑے تھے۔

یہ دستور شاہ کے قابل اعتراض نازک اختیارات کا تحفظ کرتے ہوئے عوام کی مقبول حکومت کی طرف ہلکا سا جھک رہا ہے، نئی حکومت کو وزیروں اور حکومتی عہدیداروں کے تقرر کے ساتھ ساتھ پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی ہے۔ ادھر اب عدلیہ بھی آزاد ہے اس کے ججوں کو شاہ سے عطائِ منظوری لینے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔

سال گزشتہ انقلابی تحریک چلانے والے قائدین کے ایک گروہ نے کھلے طور پر اعلانِ مذمت کیا ہے کہ یہ اصلاحات کافی نہیں ہیں، انقلابی تحریک کے رہنمائوں نے مزید کہاکہ یہ اصلاحات درحقیقت شاہی اختیارات کو مزید تقویت پہنچا رہی ہیں۔

فواد عبدالمومن ایک انقلابی رہنما نے ہفتہ کو کہا کہ ’’جسٹس پارٹی شاہ محمد ششم کی مرضی کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں کر سکتی ہے‘‘۔ جمہوریت ملک میں اس وقت تک نہیں آسکتی ہے جب تک ’’شاہ اپنے سارے سیاسی اختیارات سے دستبردار نہ ہو جائیں‘‘۔ یہ تحریک ایک مخلوط تحریک ہے جس میں طلبہ، آزادی پسند لوگ، بائیں بازو والے اور اسلام پسند سب شامل ہیں۔ اس تحریک نے مسلسل احتجاجی مظاہرے کر کے ایک ماحول تشکیل دیا جو ان اصلاحات کا باعث بنا، انہوں نے سیاسی بدعنوانی کے خلاف تسلسل کے ساتھ مظاہرے کیے، اگرچہ ان لوگوں نے آئینی بادشاہت کی حمایت اس شرط کے ساتھ کی کہ شاہ سیاسی فیصلوں میں کسی قسم کی مداخلت سے باز رہیں گے۔

(بشکریہ: ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: قاضی مظہر الدین طارق)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*