
مراکش میں اعتدال پسند اسلامی جماعت نے پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار کامیابی حاصل کر لی ہے، یہ عرب ممالک میں انقلاب کے بعد ایک نئی مذہبی جماعت کی بڑی کامیابی ہے۔ یہ کامیابی اس وقت ہوئی ہے جب صرف ایک ماہ پہلے ہی تیونس میں انقلاب کے بعد اسلامی جماعت النہضہ نے کامیابی حاصل کی ہے اور مصر میں انتخاب کے لیے پیش گوئی جاری ہے (واضح رہے کہ مصر میں انتخاب کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہے، جس میں آخری اطلاعات تک اخوان المسلمون کو برتری حاصل ہے)۔
مراکش کے وزیر داخلہ طیب شرقوی نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ ۳۹۵ سیٹوں میں سے ۲۸۸ پر انتخابات ہوئے، جن میں اسلامی جماعت نے ۸۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے جو کہ سابق وزیراعظم عباس الفاسی کی جماعت سے تقریباً دوگنی ہیں (جن کی تعداد ۴۵ ہے) جب کہ اس سے پہلے وزیراعظم عباس الفاسی کی سربراہی میں پانچ جماعتوں کے اتحاد نے ۲۰۰۷ء میں دوسری مدت پوری کی۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مکمل نتائج کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری عبداللہ بن قِران نے مراکش کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ ان کے اعتماد پر پورا اتریں گے‘‘۔ ابھی جب کہ جزوی نتائج کا اعلان ہوا تھا ایسے میں کامیابی کی خوشی میں عوام کی بڑی تعداد جسٹس پارٹی کے انتخابی نشان لیمپ کے ساتھ دارالحکومت رباط کی سڑکوں پر نکل آئی۔
مراکش کے نئے آئین کے مطابق، جس کو جولائی میں ہونے والے ریفرنڈم میں لوگوں کی اکثریت نے منظور کیا تھا۔ شاہ محمد ششم نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم اکثریتی پارٹی سے ہوگا، اس سے پہلے وزیراعظم کا انتخاب شاہ اپنی مرضی سے کیا کرتا تھا۔ یہ تبدیلی بنیادی طور پر تیونس، مصر اور لیبیا میں شخصی آمریتوں کے خلاف عوام کے جذبات کو دیکھ کر شاہ محمد نے کی۔ انہوں نے مارچ کے مہینے میں آئین میں تبدیلی کے لیے سفارشات پیش کیں اور بعدازاں ریفرنڈم کے ذریعہ اس کی توثیق کی گئی۔ شاہ محمد نے اس شہنشاہیت کے سلسلہ کو جو کہ ۳۵۰ سال سے جاری ہے، کو جاری رکھنے کے لیے یہ اصلاحات ضروری سمجھیں۔ اس آئینی تبدیلی سے کچھ کو فائدہ ہوگا لیکن سب کو نہیں۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری عبداللہ بن قران نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پارٹی کے منشور سے ہم آہنگ جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جائے گی اور یہ کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کی بنیاد جمہوریت اور بہتر طرزِ حکمرانی ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آہستہ آہستہ مراکش میں اپنے ووٹروں میں اضافہ کیا، یہی وجہ ہے کہ آج خطے میں ہمارا ملک بہت مستحکم ہے، ہم نے ۱۹۹۷ء میں پہلی دفعہ صرف آٹھ نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ عوام میں مقبولیت کے باعث ۲۰۰۲ء میں ۴۲، اور ۲۰۰۷ء میں ۴۷ نشستیں حاصل کی تھیں۔ ابتدا میں ہمارا جھکائو سماجی معاملات کی جانب تھا، مثلاً کہ میوزک پروگرامات اور شراب کی فروخت وغیرہ جس کو ان انتخابات میں ہم نے کرپشن اور بے روزگاری کے خاتمے کی جانب موڑ دیا ہے، اس الیکشن کی مہم میں ہم نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے گا اور تنخواہوں میں ۵۰ فیصد تک اضافہ کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ کالعدم حزب اختلاف جماعت جسٹس اینڈ چیئریٹی کے برعکس ہم شہنشاہ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اختیار کریں گے، اس سے قبل بن قران پر بربر قوم اور ہم جنس پرستوں پر حملے کے حوالے سے مختلف الزامات لگتے رہے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں انہوں نے مراکش میں ایک ہم جنس پرست ایلٹن جان کی جانب سے ہونے والے میوزک پروگرام کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
بن قران کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سیاحت پر ملک کا بہت انحصار ہے اور اس حوالے سے کسی کو بھی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی طرف سے کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا، ہم مغرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ سابق حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل دو جماعتوں The Independence Party اور Socialist Union of Popular Force نے بھی کہا ہے کہ اسلامی جماعت کے ساتھ اتحاد ممکن ہے۔
دوسری جانب امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پارلیمانی انتخاب منعقد ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت کے قیام کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے، جب کہ مراکش میں اصلاحات کے حامی افراد نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا، ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اور آئین میں ترامیم ناکافی ہے۔
وزیراعظم عباس الفاسی کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود ووٹ ڈالنے والوں کی شرح اچھی رہی ہے جو کہ ۲۰۰۷ء کے ۳۷ فیصد سے بڑھ کر ۴ء۴۵ فیصد ہوگئی ہے، لیکن پھر بھی ۲۰۰۲ء کے ٹرن آئوٹ ۶ء۵۱ فیصد کے مقابلے میں کم ہے، ان کا کہنا تھا کہ اداروں کی مضبوطی اور جمہوریت کے تسلسل سے مستقبل میں اس میں اور بھی اضافہ ہوگا۔
(بشکریہ: ’’AFP‘‘۔ ۲۷ نومبر ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: عمار بن فیضان)
Leave a Reply