
مراکشی مملکت میں سیاسی اصلاح کا تجربہ قابل غور ہے، اگرچہ اس کو وہ صحافتی توجہ نہیں ملی جو لیبیا، شام، یمن جیسے خونیں انقلاب کو حاصل ہوئی۔ میرے خیال میں میڈیا کوریج میں توازن کئی لحاظ سے ضروری ہے، ان میں سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ آئندہ مرحلہ میں انقلابات کے لیے تیار متعدد ممالک کے سامنے مراکش کی مثال قابلِ تقلید نمونہ بن سکتی ہے کہ کس طرح بغیر خون بہائے اور حکمرانوں کو معزول، جلاوطن یا قتل کیے بغیر جامع و شامل اصلاح و تعمیر اور عام حالت بہتر ہو سکتی ہے، جس سے ملک کی طاقت کے عناصر تباہی، عوام قتل و غارت گری اور عوامی زندگی مفلوج ہونے سے بچے اور حکمراں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکے جانے سے بچیں۔ چنانچہ جب عرب انقلابات کے ساتھ مراکش کی سڑکوں پر سیاسی اصلاحات، کرپشن کے مقابلے اور عدل و انصاف کی حکومت کے قیام کے لیے مظاہرے شروع ہوئے اسی وقت مراکشی نظامِ حکومت نے ڈور سنبھال لی، عوامی مطالبات کو سنا اور کئی دستوری ترمیموں کا فیصلہ کیا جو اگرچہ تمام مطالبات کو پورا نہیں کرتی تھیں لیکن اصلاح کی راہ میں ایک قدم ضرور تھیں،پھر پاک صاف پارلیمانی انتخابات منعقد کیے جن کا کئی گروہوں نے بائیکاٹ کیا، لیکن بیشتر پارٹیوں نے ان میں شرکت کی، اور عوام کے حقیقی نمائندے نکل کر سامنے آئے جن میں سرفہرست اسلامی رجحان کی العدالۃ والتنمیۃ پارٹی تھی، پھر مراکش کے بادشاہ نے بھی اس عوامی پسند کا لحاظ کرتے ہوئے مذکورہ جماعت کے جنرل سیکرٹری عبداللہ بنکیران کو حکومت بنانے کی دعوت دی جو مراکش کی تاریخ میں اسلام پسندوں کی تشکیل کردہ پہلی حکومت ہوگی۔
ان تمام کارروائیوں اور اقدامات نے کسی نہ کسی حد تک سابق سیاسی و انتخابی تصرفات میں شکوک و شبہات کے بیجوں کی جگہ اعتماد و بھروسے کے بیج بوئے۔ یہ اعتماد سازی اگرچہ مکمل نہ ہوسکی پھر بھی جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ اصلاح اور عوامی مطالبات کے احترام اور سنجیدگی سے ان کو سوچنے سمجھنے اور قبول کرنے کی سمت ایک قدم ہے اور اب مراکشی نظام حکومت کو جامع و شامل اصلاح کے لیے اس پُرامن مہذب راستے پر تیزی سے آگے بڑھنا ہے اور العدالۃ والتنمیۃ (انصاف و ترقی) پارٹی کی قیادت میں نئی حکومت کو عوام کی پریشانی کے مسائل جیسے کرپشن و بے روزگاری کا خاتمہ سیاسی سرگرمیوں کے لیے زیادہ پرامن ماحول کی فراہمی وغیرہ سے نپٹنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ عبداللہ بنکیران کی حکومت نہ صرف ان مقاصد کو کامیابی سے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ وہ مراکش کو جامع و شامل اصلاح کے راستے پر بھی ڈال سکتی ہے جس سے عوام کی توقعات کے مطابق پیشرفت و ترقی حاصل ہو۔ میری اس رائے کی کئی وجوہ ہیں۔ اول: عبداللہ بنکیر ان کی سب کے لیے کھلی ہوئی سیدھی سادھی شخصیت جو پیچیدگی اور رکاوٹوں کے بغیر معاملات کرنے کے عادی ہیں، نیز ان کو سیاسی زندگی اور اسلامی عمل کا بڑا تجربہ ہے۔ وہ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرہ سے جدید اسلامی عمل کی بنیاد رکھنے والے رہنمائوں میں سے ہیں۔ ان کی اس شخصیت اور تجربہ نے فکر و خیال میں اسلام پسندوں کی مخالف بنیادی سیاسی طاقتوں کے ساتھ تاریخی اتحاد قائم کرنے میں مدد کی جس سے مراکشی حکومت عوام کے بیشتر رجحانات کی نمائندہ بن گئی۔ میں ان کو ذاتی طور پر اچھی طرح جانتا ہوں… اور کہہ سکتا ہوں کہ برجستہ ظرافت کی روح کے ساتھ وہ وسیع القلب، عمیق الفکر اور بات کے دھنی ہیں، اگر انہوں نے اپنی ان وہبی صفات کی حفاظت کی تو وہ عرب مغربی علاقہ کے متفقہ عوامی زعیم ہوں گے جیسے کہ جزائری زعیم شیخ محفوظ نحناح تھے جن کو بے حساب عوامی محبت ملی تھی۔
دوم: جیسا کہ اب تک معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کو ملک محمد السادس کی ہر طرح کی مدد حاصل ہے، اگر وہ جاری رہی تو یقین ہے کہ وہ مطلوب مقاصد کے حصول کے تجربے کو جاری رکھے گی۔
سوم: اس تجربے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے حکومت میں شامل تمام پارٹیوں کی سنجیدگی، پارٹی بازی سے دوری اور وطنی روح کے ساتھ عوام کے بڑے مقاصد کے حصول اور دشوار مسائل کے حل کے لیے تمام مراکش میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نظامِ حکومت، عوام اور سیاسی طاقتوں سب کے لیے نادر موقع ہے۔ نظامِ حکومت کے لیے موقع ہے کہ وہ منتخب اداروں کے راستے سے عوامی مطالبات پر کان دھرے اور عوامی دبائو کی حد اور سرکاری سخت جواب کی نوبت نہ آنے دے جس نے بہت سے ممالک کو خونیں تصادم تک پہنچا دیا اور العدالۃ والتنمیہ پارٹی کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنا مکمل پروگرام اعتقاد کے ساتھ پورا کرے۔ دیگر سیاسی طاقتوں کے لیے بھی موقع ہے کہ وہ مشترکہ چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے پارٹی مفادات سے بلند ہو کر حکومت کے ساتھ صف بستہ ہوں۔ اس نادر موقع سے سب کے ایک ساتھ مل کر فائدہ اٹھانے سے یقینا عوام کا موجودہ نظام پر اعتماد بحال ہوگا، ان کو سکون و اطمینان نصیب ہوگا اور آئندہ وہ ان لوگوں کے ارد گرد جمع ہوں گے جو ان کے مطالبات سنجیدگی سے پورے کریں گے۔ ملک ان حالات سے بچے گا جو عرب انقلابات کے دیگر ممالک میں ہو رہے ہیں۔
اس طرح عالم عرب میں ہمارے سامنے دو تجربے ہیں: ایک تجربے میں عوام ہزاروں شہیدوں اور زخمیوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے حقوق ظالم استبدادی نظام کو اکھاڑ پھینک کر چھین رہے ہیں اور دوسرا مراکش کے نظامِ حکومت کا عوام کے بعض مطالبات قبول کر کے اصلاحی قدم اٹھانے کا تجربہ، یہ ان حکام کو روشنی دکھاتا ہے جو عوامی بغاوت کے پھیلنے اور ان سے روانگی کے مطالبے سے پہلے اپنے آپ کو سنبھالنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کے ہاتھ ان کے عوام کے خون میں نہ ڈوبیں اور ان کے ملک میں امن و امان قائم رہے اور آزادی و خوشحالی اور ترقی کے ملک کی تعمیر ہوتی رہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ یکم اپریل ۲۰۱۲ء۔ ترجمہ: مسعود الرحمن ندوی)
Leave a Reply