
مصر کے منتخب اسلام پسندصدر محمد مرسی جب سے برسرِ اقتدار آئے تھے، اس وقت سے ہی ان کا مصر کی کرسیٔ صدارت پر براجمان ہونا کسی بھی مغرب پسند کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا، یہودیوں کے دُم چَھلّے، نام نہاد انقلاب کے روح رواں جنرل عبد الفتاح سیسی نے تو نام نہاد مفتیانِ کرام کا سہارا لے کر نہ صرف اپنے غیر اخلاقی اور غیر قانونی انقلاب کے جواز کو سندِ جواز فراہم کرنی چاہی، بلکہ بعض بِکے ہوئے اور نام نہاد، مفتیانِ کرام نے اس انقلاب کے جواز پر فتوے بھی دے ڈالے اور اس انقلاب کو شرعی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے جائز قرار دیا۔ اس شرمناک سیاسی اور غیر شرعی منظر نامہ کو دیکھ کر اہلِ حق علما کے ایک بڑے گروہ نے بھی احقاق حق اور ابطال باطل کے جذبہ کے تحت ان نام نہاد علما کے مقابل اصل شرعی حکم کی وضاحت کے لیے اپنے فتاویٰ جاری کیے، انہی فتاویٰ کو جو کہ صدر مصر اور اخوان المسلمون کے خلاف انقلاب کو ناجائز بتاتے ہیں، یہاں تحریر کیا جارہا ہے۔ ویسے تو مصر کے عوام اس انقلاب اور اس کے نتائجِ بد سے بیزار ہوچکے ہیں۔ عالم عرب کی مشہور اور قدیم یونیورسٹی ’جامع ازہر‘ جو کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی نمائندہ یونیورسٹی گردانی جاتی ہے، حکومت کے خلاف احتجاجوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، طلبہ اورطالبات دونوں اس حکومت اور اس کے زور زبردستی سے نافذ کیے جانے والے قوانین اور انسانیت کی حریت اور آزادی کو سلب کرنے والی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ عبوری حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دبایا جارہا ہے۔
ان تمام فتاویٰ کو کویت کے مشہور ہفتہ وار مجلہ ’المجتمع‘ نے شائع کیا ہے، جو استفادہ کے لیے پیشِ خدمت ہیں:۔
یوسف القرضاوی کا فتویٰ
علامہ یوسف قرضاوی کا شمارعالم عرب کے مشہور اور مقبول علما میں ہوتا ہے اور یہ مسلم علما کی عالمی یونین کے صدر ہیں، انہوں نے مصر کے منتخب صدر کے خلاف اس فوجی انقلاب کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور منتخب صدر کی دوبارہ قانونی طور پر بحالی اور باز ماموری کی بات کہی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ مصر کے منتخب صدر کے خلاف بغاوت اور انقلاب غیر شرعی ہے۔ جب عوام نے اپنے صدر کو جمہوری نظام کے مطابق صاف وشفاف انتخابات کے ذریعہ منتخب کیا ہے تو یہ صدر اور عوام کے درمیان ان کے چار سالہ مدت کے لیے صدر برقرار رہنے کا عہد وپیمان ہے، جب تک کہ صدر میں اپنے امور کو انجام دینے کی صلاحیت ولیاقت ہو تو اس وقت تک اس عہد کا پاس ولحاظ کرنا ضروری ہوگا، اور شرعی طور پر وزیر دفاع جنرل سیسی کے لیے یہ ضروری ہے کہ شرعی اور قانونی طور پر سیاسی منظرنامہ سے ہٹ جائیں اور صدر مرسی کو دوبارہ بحال کریں۔ چنانچہ اس فتویٰ کے پس منظر میں علامہ یوسف قرضاوی نے جامعہ ازہر کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
صدر شرعی کمیٹی اصلاح وحقوق ڈاکٹر علی سالوس کا فتویٰ
ڈاکٹر علی سالوس نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ: ’’اللہ عزوجل کی شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ حاکم وہ ہے جس کے ہاتھ پر مسلمان آزادانہ طور پر بیعت کریں۔ یہ بیعت صدر ڈاکٹر مرسی کے ساتھ ہوچکی ہے، عوام نے مرسی کو اپنے اختیار سے منتخب کیا ہے، ان سے رجوع کیے بغیر عہدۂ صدارت کے لیے رسہ کشی کرنا باطل جھگڑا اور غیر شرعی عمل ہے۔ اس لیے شرعی سیاست اور حکمرانی کے لیے ان بنیادی اصول کے لیے جدوجہد کرنا واجب اور اللہ ورسول کی اطاعت ہے، اس لیے تمام مسلمانوں پر لاز م ہے کہ وہ مصر میں ہر میدان میں اپنے قانونی اور شرعی حقوق کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ناحق قتل وخون وخرابہ میں ملوث نہ ہو ں‘‘۔ چونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غصہ ہوگا اور اس کی لعنت ہوگی اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے‘‘۔ (النساء:۳۹)
سعودی عرب کے علما کے فتاویٰ
سعودی عرب کے علما بھی انقلاب کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں، یہ صرف مصری علما کا فتویٰ نہیں ہے کہ منتخب صدر کے خلاف بغاوت حرام ہے، بلکہ عالمی سطح پر دیگر علما نے بھی اس انقلاب اور بغاوت کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے، ان میں سرفہرست سعودی عرب کے علما ہیں۔
حرم مکی کے امام شیخ سعود الشریم حفظہ اللہ کا فتویٰ
شیخ شریم نے اس فوجی انقلاب کو، جس نے صدر مرسی کو معزول کیا ہے، حرام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’اس انقلاب اور بغاوت کے جواز کے لیے جمہوریت کے مدّعی حضرات نے اپنی لفاظی اور گمراہ کن پروپیگنڈوں کے ذریعہ سند جواز فراہم کی ہے، یہ لوگ ظلم کو عدل کہتے ہیں، قید کو آزادی باور کراتے ہیں اور بے بنیاد الزامات کے ذریعہ اس بغاوت کو جائز قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب کذب اور دجل پر مبنی ہے‘‘۔
رابطۂ عالم اسلامی کے جنر ل سیکرٹری شیخ ناصر العمر کا فتویٰ
شیخ ناصر العمر فرماتے ہیں کہ ’’مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مسلمان حاکم پر زیادتی کے قبیل سے ہے، چند لبرل ذہنیت کے حامل لوگوں، نصرانیوں اور بعض دنیوی اغراض کے پٹھوں کی تائید سے، جو روئے زمین پر اسلامی حکومت کو دیکھنا پسند نہیں کرتے، صدر اور ان کے ساتھیوں کو معزول کیا گیا ہے، حالانکہ شریعت نے مسلمان بادشاہ کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس کی اطاعت سے جی چرانے کو حرام بتلایا ہے۔ اس انقلاب اور بغاوت کی مذمت کرنا افراد، حکومتوں اورعوام پر ضروری ہے‘‘۔
اس کے علاوہ سعودی عرب کے چھپّن (۵۶) علما نے، جن میں محمد بن سلیمان براک، عبد العزیز بن عبد المحسن ترکی، حسن بن صالح حمید، عبد العزیز، محمد فوزان وغیرہ شامل ہیں، اس فوجی انقلاب کی پُرزور مذمت کی ہے اور اس بغاوت کو شرعی نقطۂ نظر سے حرام اور مجرمانہ عمل قراردیا ہے، چونکہ یہ منتخب قانونی حاکم کے خلاف واضح بغاوت کے مترادف ہے اور عوام کی منشا اور ارادہ کے خلاف صریح تجاوز کرنا ہے۔ ان علما نے بعض ان ممالک کے بارے میں حیرت واستعجاب کا اظہار کیا ہے، جنہوں نے بعجلت اس انقلاب کو جائز قرار دیا، حالانکہ یہ انقلاب مصر کے عوام کی مرضی کے خلاف تھا اور قانونی طور پر منتخب صدر کے خلاف بغاوت تھا۔ ان کے بیانات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ واقعات، مشاہدات اور قومی وبین الاقوامی تجزیوں کی روشنی سے یہ ثابت ہوا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اتفاقِ رائے سے یہ انقلاب واقع ہوا تھا اور اس انقلاب کے تانے بانے اسی وقت بُنے گئے تھے جس وقت مرسی کا انتخاب بحیثیت صدر مصر کے ہوا تھا۔ ان علما نے یہ بھی بتلایا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ہنگامہ اور غیر معقول رپورٹنگ اور بعض جدید اور مغربی فکر کے حامل لوگوں کی حمایت کے نتیجہ میں جو انقلاب برپا ہوا ہے۔ اہل علم پر ضروری ہے کہ اس کی خطرناک پالیسیوں کے مقابل کھڑے ہو جائیں، ان پر اللہ عزوجل نے شرعی امور کے بیان و وضاحت کی جو ذمہ داری ڈالی ہے اور ان کو امت کے معاملات میں سیادت وقیادت کا جو تاج پہنایا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ اس حوالے سے مصر میں ہو رہے ظلم وستم کے خلاف اپنا مؤقف بیان کریں۔ ان علما نے ان مصری اور غیر مصری علما کی تحسین کی ہے جنہوں نے حق کا ببانگ دہل اعلان کیا اور اس انقلاب کی پُرزور تردید کی اورکہا کہ اس بغاوت کے خلاف یہی مؤقف تمام علماء امت، اہلِ علم اور اہلِ رائے کو اپنانا چاہیے۔
عالمی اسلامی امور کی جائزہ کمیٹی کا فتویٰ
عالمی اسلامی امور کی جائزہ کمیٹی نے کہا کہ تمام مصری عوام کو قانون اورشریعت کے معاملے میںیکجا اور متحد ہونا چاہیے۔ مصری عوام کے مفاد اور مصالح کی حفاظت کے سلسلے میں ہر قسم کے وسائل وذرائع کا استعمال کرنا چاہیے۔ جو کچھ مصر میں رونما ہورہا ہے وہ جمہوریت کے اور عوام کی آزادی کے خلاف ہے۔ عالمی اسلامی امور کمیٹی کے زیر اثر ۱۶؍اسلامی کمیٹیاں کام کرتی ہیں، جن میں، الاتحاد العالمی علماء المسلمین، رابطۂ علماء المسلمین، رابطہ علماء الشریعۃ خلیج، المجلس العالمی للدعوۃ والاغاثۃ، اتحاد علماء افریقا، رابطۂ الاوربیین مصر، رابطہ علماء اہل سنۃ، ہیئۃ غیر شرعیۃ للحقوق والاصلاح، ہیۃ علماء الیمن، رابطۃ علماء الشام، رابطۃ الشریعۃ لعلماء ودعاۃ السودان، ہیئۃ علماء السودان، رابطۃ الدعاۃ کویت، یہ ان کمیٹیوں کی متفقہ رائے ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمن البر کا فتویٰ
ڈاکٹر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ صدر مرسی کی معزولی جو کہ فوجی انقلاب اور عوام کے ارادہ کے خلاف مسلح بغاوت ہے، اس کا ہر آسمانی دین اور وضع کردہ قانون انکار کرتا ہے، قانونی طریقہ پر منتخب حاکم کے خلاف مسلح بغاوت بالکل جائز نہیں ہے، جب تک کہ وہ ایسے صریح کفر کا ارتکاب نہ کرے جس کی کوئی تاویل نہ ہوسکتی ہو اور محمد مرسی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ڈاکٹر موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ گناہ ہر اس شخص پر ہوگا جو خون بہانے کا حکم دے، رکوع وسجدہ کی حالت میں قتل کرنے کو کہے، عورتوں کے قتل کی اجازت دے، مساجد کو بند کرنے اور اس کی حصار بندی کرنے کو کہے اور قتل اور خون خرابے میں تائید کرے۔ یہ تمام لوگ ان لوگوں کے قتل میں برابر کے شریک ہیں جو کہ ظالم وجابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق کہنے نکلے تھے۔ ڈاکٹر موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ منتخب صدر کی بحالی کے لیے بغاوت کرنا شرعاً واجب ہے، اس وجہ سے کہ شریعت نے ظالم اور باغی کی مذمت کرنے کا حکم دیا ہے، اور اس کے مقابلے میں کھڑے ہونے کو عظیم جہاد قرار دیا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’سب سے بڑا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔
شیخ حسن شافعی کا فتویٰ
شیخ الازہر کے مشیر حسن شافعی کہتے ہیں : جو کچھ مصر میں ہوا ہے یہ فوجی انقلاب ہے، شرعاً یہ ضروری ہے کہ منتخب صدر کو رہا کیا جائے اور قانون کو اس کی فطری حالت پر لا یاجائے۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر جوگرفتاریاں عمل میں آئی ہیں وہ شرعاً حرام ہیں، ان کا کچھ بھی جواز نہیں ہے، گرفتارہ شدہ لوگوں نے کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے، بلکہ وہ قانون کے دفاع میں تھے۔
ان فتاویٰ کی روشنی میں کسی مسلمان بلکہ عالمی قوانین کے کسی بھی حامی کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ اس عسکری انقلاب کو جائز قرار دے، انقلابی حکومت مصر میں جو کارروائیاں کر رہی ہے وہ شریعت کے خلاف ہے، وہ جو قوانین نافذکر رہی ہے شرعاً ان کی کوئی قیمت نہیں ہے، چونکہ جس چیز کی بنیاد باطل پر رکھی ہوتی ہے وہ باطل ہی ہوتی ہے، جو کچھ کوششیں اس ناجائزانقلاب اور باطل بغاوت کو جائز ٹھہرا نے کے لیے کی جارہی ہیں اور جو نام نہا د اہلِ علم اس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں: مثلاً شیخ الازہر، ڈاکٹر احمد الطیب اورمفتی مصر علی جمعہ وغیرہ ان کے فتاویٰ کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور ان کوششوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(بشکریہ: ماہانہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ مارچ ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply