اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی مفاد کے نام پر کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اسرائیلی پالیسیوں کے مطابق تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے موساد نے مختلف ادوار میں کئی ممالک کو نشانہ بنایا ہے۔ کسی بھی شخصیت کو قتل کرکے سیاسی، سفارتی اور معاشی فوائد بٹورنا اس ادارے کا وتیرہ رہا ہے۔ اسلحے کے کئی تاجروں کو موساد نے ٹھکانے لگایا۔ جیرارڈ بُل بھی ان تاجروں میں سے تھا۔ موساد نے جیرارڈ بُل کو ۱۹۹۰ء میں قتل کیا۔
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بین گوریان کو ایک بھیانک خواب اکثر ڈرایا کرتا تھا۔ اس خواب کے مطابق ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے یہودی اسرائیل میں ہولو کاسٹ کا نشانہ بن رہے تھے۔ ۱۹۶۲ء میں یہ خواب حقیقت میں بدلتا دکھائی دیا جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے چار ایسے میزائلوں کی آزمائش کا اعلان کیا جو بیروت کے جنوب میں کسی بھی مقام کو یعنی اسرائیل میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔
اسرائیل میں تو اس اعلان سے کھلبلی مچ گئی۔ موساد نے سوچا بھی نہ تھا کہ جمال عبدالناصر کبھی ایسا کوئی قدم اٹھائیں گے۔ موساد نے اپنے ذرائع سے معلوم کرلیا کہ مصر نے صحرائی علاقے میں میزائل تیار کرنے کے لیے فیکٹری ۳۳۳ کے نام سے ایک پلانٹ لگایا تھا جس میں جرمن سائنس دانوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ان میں دوسری جنگ عظیم کے دوران لندن کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے وی ون اور وی ٹو راکٹ تیار کرنے والے سائنس دان بھی شامل تھے۔ اس منصوبے کا سیکورٹی چیف سابق جرمن آمر ایڈولف ہٹلر کے خفیہ دستے ایس ایس کا ریٹائرڈ افسر تھا۔ مصر کی حکومت ۹۰۰ میزائل تیار کرنا چاہتی تھی اور ان میزائلوں کو ممکنہ طور پر اسرائیل کے خلاف استعمال ہونا تھا۔
اس میزائل پروگرام میں ایک خامی تھی اور موساد نے اس خامی یا کمزوری کا سراغ لگالیا۔ بڑے پیمانے پر میزائل تیار کرنے کے لیے مصریوں کو جرمن سائنس دانوں کی خدمات طویل مدت کے لیے درکار تھیں۔ موساد نے اسرائیل کے خلاف استعمال کے لیے میزائل اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف سائنس دانوں کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں پہلے آپریشن کو یونانی دیو مالا کے حوالے سے ’’ڈیموکلیس‘‘ کا نام دیا گیا۔
موساد نے جرمن سائنس دانوں کو قتل کرنے سے زیادہ خوفزدہ کرنے پر توجہ دی۔ گمنام قاتلوں کی سیکورٹی کا خیال تو رکھا گیا تاہم انہیں سامنے بھی لایا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں خوف جا گزیں ہو۔ ستمبر ۱۹۶۲ء میں فیکٹری ۳۳۳ کے ایک پلانٹ (انٹرا) کا سربراہ ہینز گرگ میونخ میں لاپتہ ہوگیا۔ نومبر ۱۹۶۲ء میں میزائل پروگرام کے ڈائریکٹر وولف گینگ پلز کے دفتر میں دو پارسل بم وارد ہوئے جن کے پھٹنے سے وولف گینگ پلز کا سیکریٹری اور پانچ مصری ورکر مارے گئے۔ فروری ۱۹۶۳ء میں فیکٹری ۳۳۳ کے ایک اور سائنس دان ہانس کلائنواکٹر سوئٹزر لینڈ میں ایک حملے میں بال بال بچے۔ اپریل ۱۹۶۳ء میں موساد کے دو ایجنٹوں نے باسل میں پروجیکٹ منیجر پال گوئرک کی بیٹی ہیڈی گوئرک کا تعاقب کرکے اسے اور اس کے والد کو جان سے مارنے کی دھمکی تھی۔ دونوں ایجنٹس کو معمولی سزائے قید ہوئی۔
مصر مخالف مہم سے اسرائیل کے اتحادیوں میں بھی بے چینی کی لہر دوڑ رہی تھی۔ مغربی جرمنی کی حکومت نے تمام جرمن سائنس دانوں کو واپس آنے کی ہدایت کی۔ انہیں مغربی جرمنی میں پرکشش ملازمتیں دینے کا اعلان کیا گیا۔ زندگی کو خطرے میں دیکھ کر تمام ہی سائنس دانوں نے منصوبے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور مصر کی حکومت کے پاس اس منصوبے کو ترک کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔
۱۹۷۰ء کے عشرے کی آمد تک قدرے سکون رہا۔ پھر اسرائیل کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا کہ عراق کے صدر صدام حسین وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام شروع کر رہے ہیں۔ اب موساد کو نئے سائنس دانوں کی تلاش کا کام سونپا گیا۔ ۱۹۸۰ء میں موساد کے ایجنٹوں نے مصر کے ایٹمی سائنس دان یحی المشد کو غیر متوقع طور پر پیرس میں دیکھا۔ وہ صدام حسین کے لیے کام کر رہے تھے اور موساد کے ایجنٹس کو حکم ملا کہ انہیں دیکھتے ہی ختم کردیا جائے۔ ان ایجنٹس کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔ انہوں نے ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوکر یحی المشد کو گلا دبا کر مار ڈالا۔ ایک طوائف نے پولیس کو بیان دیا کہ اس نے کمرے کے باہر چند آوازیں سنی تھیں جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی بات پر شدید بحث ہو رہی ہے۔ یہ طوائف چند ہی دنوں کے بعد سڑک کے ایک حادثے میں ماری گئی۔
جون ۱۹۸۱ء میں اسرائیل نے اوسیرک کے مقام پر عراق کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کردیا تاہم اس کے باوجود صدام حسین ایٹمی ہتھیار بنانے کے ارادے سے باز نہ آئے۔ انہوں نے کینیڈا سے تعلق رکھنے اور بیلجیم میں رہائش اختیار کرنے والے انجینئر اور اسلحہ ڈیلر جیرارڈ بُل سے رابطہ کیا اور اس کی خدمات حاصل کرلیں۔ جیرارڈ بُل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے ایک سپر گن تیار کی تھی۔ یہ گن سیکڑوں کلومیٹر دور گولہ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اسلحے کے اسرائیلی ماہرین نے جب اس امر کی تصدیق کرلی کہ یہ سپر گن کوئی خیالی چیز نہیں بلکہ حقیقت ہے تو جیرارڈ بُل کو نشانے پر لے لیا گیا۔ مارچ ۱۹۹۰ء میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم نے برسلز میں جیرارڈ کے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر داخل ہوئے اور جیرارڈ کے سر کے پچھلے حصے میں دو اور کمر میں تین گولیاں اتار دیں۔ ہٹ ٹیم کے ایک رکن نے مقتول کے کلوز اپ فوٹو گراف بھی لیے۔ ایک فوٹو گراف عراقی پروجیکٹ کے دیگر یورپی ملازمین کو بھیجا گیا جس پر لکھا تھا ’’اگر ایسے انجام سے بچنا چاہتے ہو تو کل سے کام پر مت جاؤ۔‘‘ اسرائیل کے دفاعی سربراہان محض امید کرسکتے ہیں کہ ایسا کوئی نوٹ اب دکھائی نہ دے۔
(رونین برگمین اسرائیلی اخبار یڈیٹ ایرونوت سے وابستہ عسکری اور خفیہ امور کے سینئر تجزیہ کار ہیں۔ وہ آج کل موساد اور قتل کے فن پر ایک کتاب لکھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۱۳؍ دسمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply