
پوری دنیا کی نظریں انتہائی اہمیت کے حامل علاقے موصل پر قبضہ چھڑانے کے لیے کی جانے والی عسکری کارر وائی پر لگی ہوئی ہیں(موصل پر جون ۲۰۱۴ء میں داعش نے قبضہ کیا تھا)۔
چند ماہ پہلے اس معرکے کے لیے تیاری شروع ہوئی، جسے عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے’’قادمون یا نینوی‘‘ کا نام دیا۔ اس کے بعد ۵۰ ہزار جنگجووں نے شہر کا محاصرہ کیا۔جن میں چالیس ہزار حکومتی فوجی، پولیس اور رضاکار ہیں۔ جنھیں جنوب مشرق سے شہر میں داخل ہونے کی مہم سپرد کی گئی ہے۔ جبکہ شمال مشرق سے داخل ہونے کی ذمہ داری ’’پیش مرگہ الکردیہ‘‘کے حوالے ہے، یہ لشکر دس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ باقی شیعہ ملیشاؤں کے ہزاروں افراد جو ’’الحشدالشعبی‘‘ میں شامل ہیں،شہر سے باہر حکومتی فوج کی پیچھے سے مددکے لیے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ شہر کے مضافات میں واقع قصبات اور دیہات کو جاری مہم کے پہلے مرحلے میں آزاد کیا گیا ہے، اور ’’الحشدالشعبی‘‘ کے لشکر کو عملاً ملا کر موصل کو دوبارہ حاصل کرنے اور’’تلعفر‘‘(جو موصل کو شام سے ملاتا ہے) پر قبضے کادوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔’’الحشدالشعبی‘‘نے موصل شہر کے مغربی محاذ کا داعش کے قبضے سے چھڑانے کا مشن اپنے سب سے طاقتور یونٹ’’عصائب اھل الحق‘‘کے ذمہ لگادیا ہے۔
موصل سے داعش کے قبضے کے خاتمے کے لیے عراق میں جاری عسکری کارروائی کے دوران ایران اور اس کے زیر اثر شیعہ ملیشا موصل کی آزادی کے بعد کی صورت حال کی تیاری اور(جنگجوؤں کی)حوصلہ افزائی کے لیے وسیع پیمانے پر ملاقاتوں،کانفرنسوں کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔۲۲ اکتوبر کو بغداد میں ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی،جو دو دن تک جاری رہی۔ جس میں عراقی حکومت کی اہم شخصیات نے شرکت کی جن میں نمایاں وزیر اعظم حیدرالعبادی اور قائد ایون سلیم الجبوری تھے، اور دوسرے عرب و اسلامی ممالک کے اہم ذمہ داران اور ایرن کے علی اکبر ولایتی بھی شریک ہوئے۔
کیا موصل میں رمادی اور فلوجہ کا تجربہ دہرایا جائے گا؟
شیعہ رہنما اور ان کے مراکز بار بار’’الحشدالشعبی‘‘ کے موصل کے معرکے اور شہر پر حملے میں شرکت پر زور دیتے ہیں۔ جس سے عراق کے سنی،کردی،اہل موصل اور انسانی وبین الاقوامی تنظیمیں سابقہ تلخ تجربے اور فلوجہ، رمادی اور صقلاویہ جیسے سنی علاقوں میں عراقی سْنیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کے وجہ سے تشویش میں ہیں۔ سنی عربی اتحاد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ملیشائی عناصر پر شہریوں کے خلاف فرقہ وارانہ ناپسندیدگی کی بنیاد پر قتل اور دوسری سزاؤں جیسے جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی شرم ناک خلاف ورزیوں کی وجہ سے عراق کے پڑوسی اور عالمی طاقتیں ’’الحشد الشعبی‘‘ کی معرکے میں شرکت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ جبکہ ’’حشدی‘‘ قائدین اور شیعہ گروہوں کے رہنما سب کے سب کسی اعتراض کو خاطر میں لائے بغیر ’’الحشدالشعبی‘‘ کی معرکے میں شمولیت پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ’’عصائب اھل الحق‘‘ کے سربراہ نے تو اعتراض کرنے والوں کو براہ راست دھمکی دی ہے۔ اور اس سے بھی خطرناک یہ کہ اس نے ’’اہل موصل‘‘ کو فرقہ وارانہ دھمکی دے کر انہیں ’’حسین کے قاتل‘‘ کہا ہے۔ عراقی حکومت اور شیعہ رہنماؤں کا اس خطرناک بات پر اصرار چند اہداف کے حصول کے لیے ہے۔ پہلا یہ کہ سنی شہر میں ان کے قدم مضبوط ہوجائیں (اس شہر سے شیعہ لشکروں کا بھر پور مقابلہ کیا گیا تھا اور ان کی توسیع پسند سیاست کو مسترد کردیا تھا)،اور مستقبل میں سنی مزاحمتی تنظیموں کو روکنے کی اہلیت حاصل کرنا۔دوم یہ کہ شامی فرقہ وارانہ حلیف نظام کی قوتوں کو عسکری اور اسٹریٹیجک امداد پہنچانے کے لیے پر امن راستہ بنانا،اور ان کے مقابل گروہوں کو پیچھے سے مارنے کے لیے نیا محاذ کھولنا۔سوم یہ کہ صوبہ موصل کے قیام کے منصوبے کو(جس کی بنیاد شہر کے سنی رہنماؤں نے رکھی ہے جن میں نمایاں سابق قائد ایوان اسامہ نجیفی ہیں) کوکامیاب ہونے سے روکنا۔چہارم داعش سے موصل کو چھڑانے کے بعد اس کے اربیل (کردستان کا دار الخلافہ) سے اسٹریٹیجک تعلقات کے قیام میں حائل ہو نا اور مقبوضہ شہر کو اپنی اصل حالت پر لوٹنے سے روکنا۔
(ترجمہ: معراج محمد)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’المجتمع‘‘ کویت۔ دسمبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply