
میں آپ کو ایک ایسی کہانی سنانا چاہتا ہوں جو میری بقا کے حوالے ہی سے نہیں بلکہ کشمیر کاز کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ ۱۹۷۹ء میں میری زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے جو کچھ میں بیان کر رہا ہوں، اسی کی بنیاد پر میرا راستہ طے ہوا اور میں نے خود کو کشمیر کاز سے اُسی طرح وابستہ کر لیا، جس طرح مرد و زن رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں۔
میں تب عمر کے تیسرے عشرے میں تھا۔ میرے دل میں بہت سی امنگیں تھیں، بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ میں کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا چاہتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بناؤں، کچھ کر جاؤں۔ اس وقت مجھے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انچارج مقرر کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور عالمی سطح پر زیادہ قابلِ توجہ بنانے کے لیے مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ خانۂ کعبہ کے امام کو مقرِر کی حیثیت سے کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کروں۔ میں جدہ گیا اور وہاں بہت سی با اثر شخصیات سے ملا اور ان سے استدعا کی کہ وہ امام کعبہ کو اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آمادہ کریں۔ اسلامی دنیا میں امام کعبہ کا ایک خاص مقام ہے۔ روزانہ کروڑوں مسلمان کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ اس اعتبار سے امام کعبہ کا کانفرنس میں شریک ہونا کشمیر کاز کے لیے غیر معمولی وقعت کا حامل ثابت ہوسکتا تھا۔ ویسے تو خیر امام کعبہ کو کوئی باضابطہ منصب نہیں دیا گیا ہے لیکن اگر احترام کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو امام کعبہ کو اسلامی دنیا میں وہی وقعت حاصل ہے جو کیتھولک عیسائیوں میں پوپ کو حاصل ہے۔
جدہ میں چند اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کے بعد مجھے امام کعبہ تک رسائی کا موقع ملا۔ انہوں نے نہ صرف ملاقات کی اور دعوت نامہ قبول کیا بلکہ مجھے دوپہر کے کھانے پر بھی بلایا۔ اس وقت سعودی عرب کے فرماں روا خالد بن عبدالعزیز تھے۔ امام کعبہ نے مجھ سے کہا کہ وہ چونکہ مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں، اس لیے سری نگر میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے لازم ہے کہ شاہ خالد بن عبدالعزیز کی رضامندی حاصل کی جائے۔ ان کی اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرا دورہ میرے اندازوں سے کہیں زیادہ وقعت کا حامل تھا۔
اگلے دن میں یونیورسٹی کے اسکالرز سے ملا جنہوں نے بہت ملائمت اور اپنائیت سے بات کی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ریاض جاکر شاہ خالد بن عبدالعزیز کے پروٹوکول افسر سے ملاقات کروں۔ انہوں نے مجھے اس حوالے سے ایک خط بھی دیا۔ میں جب شاہی محل پہنچا تو گارڈز نے روکا جو فطری بات تھی۔ میں نے انہیں اسکالرز کا سفارشی خط دکھایا تو انہوں نے اندر جانے کی اجازت دی۔ مرکزی دروازے سے اندرونی عمارت کا پیدل کا راستہ پندرہ منٹ کا تھا۔ میں یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے سوچتا ہی رہا کہ جو ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی، وہ میرے اندازوں سے کہیں بڑھ کر نکلی۔ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے معمولی پس منظر کے باعث میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی میں اس حد تک بھی جاسکوں گا۔ اس ذمہ داری کا بوجھ اب مجھے اپنے کاندھوں پر محسوس ہونے لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ میری حیثیت ہی کیا ہے کہ ان اعلیٰ شخصیات سے کوئی ’’فیور‘‘ حاصل کرسکوں۔ شاہ خالد بن عبدالعزیز کی شخصیت بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ بھلا میری استدعا کیوں قبول کریں گے؟
جب میں محل کے اندرونی حصے میں پہنچا، تب ایک بار پھر گارڈز نے مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور وہاں کیا کر رہا ہوں۔ میں نے انہیں خط دکھایا۔ خط دیکھ کر انہوں نے مجھے پروٹوکول افسر تک پہنچایا۔ وہ بہت نرم خو دکھائی دیے۔ انہوں نے نہایت خوش دلی سے مجھے خوش آمدید کہا اور جب میں نے خط ان کی طرف بڑھایا تو انہوں نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا۔ پروٹوکول افسر نے ایک نظر میں میرا جائزہ لیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ میں نے بتایا کہ میں کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ اب تک میں شدید دباؤ میں تھا مگر پھر کچھ راحت سی محسوس ہونے لگی۔ میں سوچنے لگا کہ اتنی چھوٹی عمر میں کوئی اپنے طور پر ایسی اعلیٰ شخصیات سے کس طرح مل پاتا ہے۔ میرے لیے یہ بہت بڑا موقع تھا۔
پروٹوکول افسر نے کشمیر کے حالات پوچھے۔ میں نے بتایا کہ وہاں صورت حال بہت خراب ہے۔ لوگ اب بھی اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ میری کیا مدد کرسکتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ دس دن کے بعد ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے، جس میں ہم امام کعبہ کو مدعو کرنا چاہتے ہیں تاکہ کشمیر کاز عالمی سطح پر نمایاں اور اجاگر ہو۔ انہوں نے کہا کہ محض دس دن میں تو شاہ خالد بن عبدالعزیز سے منظوری لینا انتہائی دشوار ہے۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ ابھی چند لمحات قبل ہی انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ میری کیا مدد کرسکتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی مدد سے کشمیر کاز کو اجاگر کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔
پروٹوکول افسر نے میرے لیے چائے منگوائی۔ وہ کچھ دیر سوچتے رہے۔ میں اندازہ نہ لگا سکا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کوئی ٹیلی فون نمبر ہے جس پر مجھے مطلع کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شاہ خالد بن عبدالعزیز سے اجازت لیتے ہی مجھے مطلع کریں گے۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور انہیں مکہ مکرمہ میں اُس جگہ کا نمبر دیا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ساتھ ہی میں نے امام کعبہ کو بھی شاہ خالد بن عبدالعزیز کے پروٹوکول افسر سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔ ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور انہوں نے کہا کہ ہمیں مثبت جواب کی توقع رکھنا چاہیے۔
چند دن گزرے کہ امام کعبہ نے ڈرائیور بھیج کر مجھے طلب کرلیا۔ میں ان سے ملا تو انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ شاہ خالد بن عبدالعزیز نے انہیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ امام کعبہ نے ایک بار پھر مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ یہ غیر معمولی اپنائیت کا اظہار تھا۔ انہوں نے مجھے ایک نمبر دیا اور کہا کہ جدہ میں بھارتی سفارتی مشن کو کال کروں۔ میں نے کال کی اور کہا کہ مجھے بھارت کے سفیر سے بات کرنی ہے۔ جواب ملا کہ بھارتی سفیر ہی بات کر رہا ہوں! مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ ڈائریکٹ نمبر تھا۔ بھارتی سفیر نے مجھ سے کام پوچھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ امام کعبہ کل اپنے وفد کے ساتھ بھارت روانہ ہو رہے ہیں اور انہیں ویزا درکار ہے۔ بھارتی سفیر نے کہا کہ امام کعبہ دو ہفتے قبل ہی تو بھارت گئے تھے۔ پھر دوبارہ کیوں جانا چاہ رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ اس بار وہ کشمیر جائیں گے۔ یہ سن کر بھارتی سفیر کا لہجہ قدرے سرد پڑ گیا۔۔۔ کشمیر؟ کیوں؟ میں نے بتایا کہ وہ ایک کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ بھارتی سفیر نے کہا کہ براہِ راست ویزا دینا ممکن نہیں۔ اس کے لیے بھارتی وزارتِ خارجہ سے منظوری لینا پڑے گی۔ اور یہ کہ اس کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے امام کعبہ کو، جو یہ گفتگو سن رہے تھے، بتایا کہ ہم انتظار کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ امام کعبہ نے کہا کہ سفیر سے کہہ دو کہ ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے جس کی بدولت انہیں کسی ویزا کی ضرورت نہیں۔ یعنی یہ کہ ہم کل ہی بھارت روانہ ہوں گے۔
ہم ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ بھارتی سفیرلائن پر تھے۔ انہوں نے پوچھا آپ وہی ہیں جنہوں نے ایک گھنٹہ قبل فون پر بات کی تھی۔ میں نے انہیں نام نہیں بتایا تھا۔ میری طرف سے اثبات میں جواب ملا تو بھارتی سفیر نے کہا کہ بات ہوچکی ہے۔ پاسپورٹ بھیج دیے جائیں۔ کاؤنٹر پر کوئی نہ کوئی ان پاسپورٹس کے انتظار میں بیٹھا ہوگا۔
ہمارے پاس بہت وقت تھا۔ جس وقت بھارتی سفیر نے فون کیا، دن کا ڈیڑھ بجا تھا۔ سفارت خانے کا وقت پانچ بجے تک تھا۔ مکۂ مکرمہ سے جدہ تک کا سفر ایک گھنٹے کا تھا۔ میرے پاس تو انڈین پاسپورٹ تھا، اس لیے مجھے ویزا کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ امام کعبہ کو سفارتی پاسپورٹ کی بدولت ویزا کی حاجت نہ تھی۔ ان کے ساتھیوں کے ویزے لگوائے گئے۔ ہم اگلے دن ممبئی روانہ ہوئے۔
میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اس حد تک کامیاب ہو جاؤں گا۔ میرے ساتھ امام کعبہ، ان کے صاحبزادے یحییٰ، حرم میں تبلیغی شعبے کے سربراہ شیخ طہٰ عبدالواسع البرکاتی اور مدینۂ منورہ میں شعبہ تجوید کے سربراہ قاری خلیل الرحمٰن تھے۔ ان اعلیٰ شخصیات کے ساتھ بھارت واپس جانا میرے لیے بہت بڑی کامیابی تھی کیونکہ میرا پس منظر معمولی تھا۔ مجھے کسی طور یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اس حد تک کامیاب ہو رہوں گا۔
جب ہم ممبئی پہنچے تو ایئر پورٹ پر مہاراشٹر حکومت کا وفد استقبال کے لیے تیار تھا۔ ہمیں خاصے غیر معمولی اہتمام کے ساتھ ایک شاندار ہوٹل لے جایا گیا۔ وہاں قیام کے بعد ہم نئی دہلی روانہ ہوگئے۔ نئی دہلی ایئر پورٹ پر بھارت کی وزارت خارجہ کا وفد اور بھارت میں سعودی عرب کے سفیر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہمیں اس وقت کے جدید ترین سہولتوں والے اشوکا ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ نئی دہلی کے وسط میں واقع اشوکا ہوٹل فائیو اسٹار سہولتوں سے مزین تھا۔ اشوکا ہوٹل میں ایک دن قیام کے بعد ہم کشمیر روانہ ہوئے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کشمیر کی حکومت نے ۵۰؍ارکان پر مشتمل سرکاری وفد کو ہمارے استقبال کے لیے ٹرمنل نہیں بلکہ رن وے پر کھڑا کیا تھا۔ امام کعبہ کو ممبئی اور نئی دہلی میں جو احترام ملا تھا، وہی احترام سری نگر میں بھی ملا۔ بھارتی حکومت نے انہیں وی وی آئی پی درجہ دیتے ہوئے سختی سے ہدایت کی تھی کہ کسی بھی مرحلے پر ان کے خیر مقدم میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ بھارتی حکومت کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ امام کعبہ کو اسلامی دنیا میں اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں غیر معمولی وقعت حاصل ہے۔ کسی اور وی وی آئی پی کے لیے اس قدر احترام کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
سری نگر پہنچ کر امام کعبہ نے دوپہر میں ہلکا پھلکا کھانا کھایا۔ پھر کچھ دیر قیلولہ کیا۔ میں نے شام کو ان سے استدعا کی کہ اگر چاہیں تو ہوٹل سے چھ سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مغل گارڈن (شالیمار باغ) کا دورہ کریں۔ یہ باغ مغل شہنشاہ جہانگیر نے اپنی ملکہ نور جہاں کے لیے بنوایا تھا۔ امام کعبہ میری تجویز پر شالیمار باغ جانے کے لیے راضی ہوگئے۔ وہ اور ان کے وفد کے ارکان شالیمار باغ میں فوارے، شاندار اور پُرشِکوہ جھروکے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ یہ باغ مشہور زمانہ ڈل جھیل کے کنارے واقع ہے جسے کشمیر کے تاج میں نگینہ قرار دیا جاتا ہے۔
امام کعبہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پورا کشمیر اس باغ کی طرح خوبصورت ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ جب انہوں نے پہلگام اور گلمرگ دیکھا تو میری بات درست مان لی۔ سعودی شاہی خاندان اور بھارتی حکومت کی طرف سے امام کعبہ کو کشمیر میں پانچ دن تک ہر مقام کے دورے کی اجازت دی گئی تھی۔ امام کعبہ نے کہا کہ وہ اپنے قیام کو دو ہفتوں کے لیے بڑھانا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے لیے شاہی خاندان سے منظوری لینا لازم تھا۔ ویسے وہ اس بات کے پابند تو نہ تھے کہ شاہی خاندان سے اجازت لیں مگر رسمی طور پر یہ ضروری سمجھا گیا۔
اگلے دن کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس گول باغ میں ہو رہی تھی۔ گول باغ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی رہائش اور مرکزی سیکریٹریٹ کے سامنے واقع تھا۔
اہل کشمیر امام کعبہ کو اپنے درمیان پاکر بہت خوش تھے۔ ہزاروں غریب کشمیری حج کی سکت نہ رکھتے تھے۔ ان کے لیے یہی کافی تھا کہ اگر وہ مکہ نہیں جاسکتے تو امام کعبہ ہی ان کے درمیان آگئے ہیں۔ مجھ سمیت کانفرنس کے تمام منتظمین اپنی کامیابی پر شاداں تھے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا لمحہ تھا اور اس سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ کانفرنس میں ہم نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ کانفرنس میں امام کعبہ جیسی وقیع شخصیت کی شمولیت سے اس ایونٹ کی شان بڑھ گئی تھی۔
ہمیں اس بات کی زیادہ خوشی تھی کہ کشمیر کاز کے لیے ایک قرارداد اس حالت میں منظور ہوئی کہ ذرا بھی احتجاج نہیں کرنا پڑا، نہ کسی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا۔ سب کچھ بہت سکون سے ہوگیا۔ کشمیر میں ہزاروں افراد اپنے کاز کے لیے مکمل متحد اور متفق دکھائی دیے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کرنے کا مطالبہ بھارتی حکومت کے نزدیک غداری اور بغاوت کے مترادف تھا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہوگا مگر اس حوالے سے کوئی بھی تحرک دکھائی نہ دیتا تھا۔ ان قراردادوں کو امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور سابق سوویت یونین نے تسلیم کیا تھا مگر ان پر عمل تک نوبت نہ پہنچتی تھی۔ کانفرنس میں کشمیر کاز کے لیے قرارداد کی منظوری کے لیے ہم نے وہ کام کیا جو بھارتی حکومت کی نظر میں پسندیدہ نہ تھا۔ یہ میرے لیے فیصلے کی گھڑی تھی۔ اس دن سے میں کشمیر کاز سے جڑ کر رہ گیا۔ میرے لیے یہ بہت بڑا لمحہ تھا کہ اللہ نے مجھ سے خدمت لی اور پھر میں اس کاز سے ہمیشہ کے لیے وابستہ ہوگیا۔
بھارت کی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے نے اکتوبر ۱۹۸۹ء میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو انہیں حکومت کی طرف سے غداری کے مقدمے کی دھمکی دی گئی۔ ۲۷ نومبر ۲۰۱۰ء کو ارون دھتی رائے نے نئی دہلی میں کہا کہ جب میرے خلاف غداری اور ملک سے جنگ چھیڑنے کی ایف آئی آر درج کرنے کی بات کی گئی تو مجھے خیال آیا کہ ایسی ہی ایف آئی آر جواہر لعل نہرو کے خلاف بھی درج کی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے ۲۵ نومبر ۱۹۴۷ء کو بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی غیر جانبدار ادارے (اقوام متحدہ وغیرہ) کے تحت حل کیا جانا چاہیے یعنی کشمیریوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ پاکستانی ہم منصب کو ٹیلی گرام میں بھی پنڈٹ جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ تمام متنازع علاقوں کے لوگوں کو بھارت یا پاکستان سے الحاق کی پوری آزادی دی جانی چاہیے اور ہمیں ان کی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔
کشمیر بھر کے لوگ امام کعبہ کو سننا چاہتے تھے۔ سب چاہتے تھے کہ امام کعبہ ان سے خطاب کریں۔ میں نے ان کے لیے پچیس سے تیس لیکچرز کا اہتمام کیا۔ ہر لیکچر میں دس سے بیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ ہر لیکچر کے اختتام پر کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے سے متعلق قرارداد منظور کی جاتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ نے بھی امام کعبہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے لیے وزیر اعلیٰ کے عربی مترجم مفتی عبدالغنی الازہری نے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ میرے عربی کے استاد تھے اور ہم نے مل کر حج بھی کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ امام کعبہ سے ملنے کا حق سب کو ہے۔ وزیر اعلیٰ طے کریں، ملاقات ہوجائے گی۔ امام کعبہ سے ملاقات کے حوالے سے میں غیر معمولی اہمیت حاصل کرچکا تھا۔ کشمیر میں امام کعبہ صرف مجھے جانتے تھے۔ اگلے ہی دن ہم دو پہر کے کھانے پر وزیر اعلیٰ کے ساتھ تھے۔
امام کعبہ کے جانے کے کچھ ہی دن بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں امام کعبہ کے دورے کے اثرات کے حوالے سے اجلاس ہوا۔ امام کعبہ نے لاکھوں افراد سے خطاب کیا اور ہر اجتماع میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا تھا۔ بھارت میں یہ بات غداری کے مترادف تھی۔ سیدھی سی بات تھی کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے حکام مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کشمیری حکام سے ملاقات پر بھارت سے چلے جانے کو ترجیح دی۔ میں نے سعودی عرب کی فلائٹ لی، جہاں میرے بہت سے دوست تھے۔ سعودی عرب میں کچھ دن قیام کے بعد میں امریکا چلا گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب میری زندگی مکمل طور پر کشمیر کاز کے لیے وقف ہوکر رہ گئی۔ کشمیر ہی میرا سب کچھ تھا اور اس کے لیے جو کچھ بھی میں کرسکتا تھا، کرنا میرا فرض تھا۔ میں اس کاز سے کسی بھی طور غفلت نہیں برت سکتا تھا۔
(“How I Became Involved in the Cause of Kashmir at the International Level”… “gnfai.com”. November 29, 2013)
Leave a Reply