سن ۱۹۸۴ء میں ایم کیو ایم کے قیام کے پیچھے تین عوامل کارفرما تھے:
۱۔کراچی کی تعلیم یافتہ تجارتی برادری پر شہری علاقوں کے پنجابیوں کا روز افزوں غلبہ، ۲۔ تعلیم یافتہ مہاجر متوسط طبقہ کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور ۳۔ سندھ پیپلز پارٹی کی انتخابی قوت کے مقابلے کے لیے ایک نئی عوامی پارٹی کے قیام کا جنرل ضیاء صاحب کا منصوبہ جو ان کے مخالفین کی قوتوں کو بے اثر و ناکارہ بنا سکے۔
سندھ میں پسماندگی میں مبالغہ نہیں ہو سکتا اور سندھی وڈیروں کے تئیں عام لوگوں کی جو مرعوبیت ہے، وہ شاید پاکستان کے دوسرے مقامات پر اتنی شدید نہیں ہے۔ بلوچستان اور صوبۂ سرحد میں جو صورتِ حال ہے، اس کے برعکس سندھ کے وڈیرے علاقائی سطح کے بجائے قومی سطح پر سیاسی طور پر شریک اور سرگرم ہیں اور عام دھارے کی قومی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس صورتِ حال نے سندھیوں کے اندر اپنے علاقائی اور شہری مسائل، جنھیں عموماً نظرانداز کیا گیا ہے، کے حوالے سے مایوسی کو جنم دیا ہے اور یوں انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے باہم متحد و منظم ہوں۔ بہرحال اس میں شک نہیں کہ ایم کیو ایم ایک روایتی سیاسی پارٹی کے علاوہ کوئی پارٹی ہے جو پارلیمنٹ میں اپنے حامیوں کے مفادات کی پُرامن طور پر نمائندگی کرتی ہو۔ اس کے خطرناک اور مسلح ہونے کی اپنی ایک تاریخ ہے اور واضح طور پر اچھی طرح تربیت یافتہ اور اچھی طرح ساز و سامان سے لیس اپنے حلیفوں کا ایسا گروہ رکھتی ہے جو اپنے قائد کے اشارے پر ہر طرح کی خفیہ و دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے آمادہ ہے۔ اسے بڑے بڑے تاجروں کی بھی پشت پناہی حاصل ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ تو پھر کیا اسے فسطائی جماعت کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے؟
شاید فاشزم کو بہتر طور پر اس کے اظہار کے اس روایتی ماڈل سے سمجھا جاسکتا ہے جو جرمنی میں ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کی دہائیوں میں سامنے آیا۔ ہٹلر کی نازی پارٹی (نازی جو نیشنلسٹ کا اختصار یہ ہے )ابتدا میں ایک غیرمعمولی گروہ کی نمائندہ تھی ، جس نے بڑی تیزی سے شہری نوجوانوں اور بے روزگار لوگوں میں مقبولیت حاصل کی، خاص طور پر موخرالذکر گروہ جو ایک بڑا گروہ تھا اور اس کی وجہ وہ سزا دہندہ معاہدۂ ورسیلیز ہی جو پہلی جنگِ عظیم کے بعد طے پایا اور جو ۴۰ سال بعد عملاً ایک دوسری عالمی جنگ کا ضامن ثابت ہوا۔ عدم اطمینان کا شکار اس گروہ کے لیے نازی پارٹی میں بڑی جاذبیت تھی اور یہ جاذبیت پارٹی کی نسلی شدت پسندی اور گلی کوچوں میں دادا گیری اور تشدد پر مبنی کارروائیوں کے سبب تھی جو قومی ایجنڈے کے ساتھ اس کی واضح اور مضبوط پاسداری کی علامت خیال کی جاتی تھی۔ بڑا تاجر طبقہ اور صنعتی طبقہ شروع میں پارٹی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی علاقہ نہیں رکھتا تھا اور یہ ابتداً بعد میں اس کشتی میں سوار ہوا جب اقتصادی حالات یعنی ایک طویل اور تباہ کن کساد بازاری ایسے گروہ کے وجود کی ضرورت پر تاکید کر رہی تھی۔ اس نازی پارٹی کو مہمیز دی گئی تاکہ یہ دولت مند طبقے کے مفادات کی تکمیل کرے جو اشتراکیت کی جانب عوام کی ممکنہ یکبارگی ہجوم کی صورت میں اپنے تحفظ کا متلاشی تھا۔ یہ صورتِ حال یقینی طور سے ایم کیو ایم کو نازی پارٹی جیسا ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے کہ اول الذکر مساوی کچھ علامات لازمی طور سے یہاں موجود ہیں مثلاً منظم تشدد، نسل پرستی، عوامی مقبولیت، تاجر طبقوں کی حمایت اور انتخابی کامیابی۔ لیکن کچھ نمایاں فرق بھی ہے۔ اپنی مسلسل اور جارحانہ یہودی مخالف مہم میں ہٹلر نے آریائی نسل کی برتری پر زور دیا جبکہ ایم کیو ایم کا نسلیت کے حوالے سے جو موقف ہے، وہ جارحانہ کے بجائے مدافعانہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے حقوق پر دوسروں نے اپنی بالادستی کے ذریعہ دست درازی کی ہے اور انھیں ان سے محروم کر دیا ہے۔ مزید برآں نازی پارٹی نے قومی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیا اور بالآخر ریاست پر قابض ہو گئی جبکہ ایم کیو ایم کی اہم خصوصیت علاقائیت رہی۔ اس کا سندھ کے شہری علاقوں سے باہر اثر و رسوخ قائم نہ ہو سکا اور ۲۳ برسوں کے بعد بھی یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو ایک چھوٹی سی اقلیت کی نمائندگی کرتی ہے اور ایک سیاسی پریشر گروپ کی حیثیت رکھتی ہے نہ کہ اس سے آگے کی کوئی چیز ہو۔ بلکہ یہ ایک بہت ہی ضدی اور پریشان حال فطرت کی حامل ہے۔ اگر فاشزم کو ایک ترقی یافتہ سرمایہ داری کی فضا میں موجودہ نظام کو خطرے سے دوچار کرنے والا بائیں بازو کے خلاف ایک انتہائی اور بھیانک ممکنہ ردِعمل تصور کیا جاتا ہے تو یقینا وہ فاشزم نہیں ہے جو ایم کیو ایم کی فطرت کے مرکز میں ہے۔ پاکستانی ریاست نے ایم کیو ایم کو اس کے اول دن سے ہی اسے محض ایک ایسا گروہ تصور کیا ہے جسے ضیاء الحق نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مصنوعی طور سے خلق کیا ہے اور جو انتہا پسندوں کا ایک سازشی گروہ ہے جو ناجائز طریقوں اور چور دروازوں سے اپنی حمایت حاصل کرتا ہے۔ پارٹی کے تعلق سے سادہ لوحی پر مبنی اس فہم کے پیش منظر ایک ماہ قبل کراچی کی سڑکوں پر ہونے والے تشدد پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے جو (سایہ کی طرح) اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں ہی گروہ ایم کیو ایم کے منتخب ارکان کے ساتھ مصالحت کے ذریعہ حکومت تشکیل دینے کے لیے آمادہ ہیں اور پھر طاقت کے استعمال کے ذریعہ انھیں جھکانے کے بھی در پے ہیں۔
نوٹ: مصنفہ بلوم فیلڈ ہال اسکولز کی بانی اور اکیڈمک کوآرڈینیٹر ہیں۔ موصوفہ گزشتہ بیس برسوں سے تدریس میں مصروف ہیں اور متعدد مقبول ترین اسٹیج ڈراموں کی ہدایت کاری کر چکی ہیں۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ لاہور۔ شمارہ: ۱۸ جون ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply