اوباما کا مسئلۂ ایران

امریکی صدر اوباما چاہتے ہیں کہ ایران سے معاملات درست کرلیے جائیں، تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے۔ مگر کانگریس اس معاملے میں ان کا زیادہ ساتھ دینے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔

سابق امریکی صدر جارج واکر بش کے دوسرے دور کے آخری ایام میں امریکا میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے دشمنوں کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنے کے لیے سفارت کاری کافی ہے یا پھر فضائی حملوں کے ذریعے ان کے ارادے ناکام بنائے جائیں۔ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا تھا کہ کسی کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جارج واکر بش امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے طاقت کے استعمال سے کسی بھی وقت پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر بہرحال، سفارت کاری کو پہلے ضرور آزمانا چاہیے۔

اس وقت براک اوباما کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا میں رائے عامہ ایران کے حوالے سے تقسیم ہوچکی ہے۔ حکومتی اور پارلیمانی حلقوں میں ایران پر بحث شدت اختیار کرگئی ہے۔ کانگریس میں اس حوالے سے واضح طور پر دو کیمپ دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کو ایران کے معاملے میں کانگریس سے زیادہ مدد نہیں مل سکے گی اور انہیں اس راہ پر تنہا ہی سفر کرنا پڑے گا۔

ایوان نمائندگان سے تو خیر جیسے تیسے نمٹ ہی لیا جائے گا، مگر سینیٹ میں اوباما کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ۱۰۰؍میں سے ۵۹؍ارکان کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر مزید پابندیاں لگانے کے حق میں ہیں۔ صدر اوباما واضح کرچکے ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں ایران بِدک جائے گا اور اس سے معاملات درست رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ مگر کانگریس بھی بضد ہے کہ نئی، اضافی پابندیاں ایران پر مسلط کرکے دَم لے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ایران بات چیت بند کردے گا۔ دیرپا امن کے لیے ایرانی قیادت سے امریکیوں کی بات چیت ناگزیر ہے۔ اسی صورت اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ ایوان نمائندگان میں اس وقت ری پبلکنز کی اکثریت ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے اور مزید پابندیوں سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ ایک طرف تو وہ ایران کی نیت پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہے کہ ایران میں قیادت کی تبدیلی رونما ہو۔ امریکا کی قومی سلامتی کونسل کو بھی کانگریس میں ایران مخالف رجحانات پر تشویش ہے۔ کونسل کے ایک رکن نے حال ہی میں کہا کہ ایران پر حملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کانگریس کو امریکی عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی۔

ایران کے بارے میں اب تک کئی ممالک کی رائے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کا شمار امریکا کے سب سے قابلِ اعتماد اتحادیوں میں ہوتا ہے اور ان دونوں کی رائے میں ایران انتہائی ناقابلِ اعتبار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے مکمل طور پر باز رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔ ایران کے بارے میں کانگریس کے بہت سے ارکان کی رائے یہ ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایرانی قیادت نے صدام حسین کے بعد کے عراق میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اگر حسن روحانی کی حکومت دنیا کی طرف مسکرا کر دیکھ رہی ہے تو اِسے امریکی قانون ساز اقتصادی پابندیوں کے شاندار اثرات کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران پر پابندیاں عائد رکھ کر ہی اسے اپنی پالیسیاں تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

امریکا میں مڈ ٹرم انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایک اسرائیل نواز گروپ، امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی نے کانگریس کے ارکان میں لابنگ شروع کردی ہے تاکہ ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ایرانی اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ امریکی کانگریس میں مجاہدین خلق کی آواز بھی سنی جارہی ہے۔ تیسرے یہ کہ ایران کے حوالے سے کانگریس میں عجیب و غریب منفیت سی پائی جاتی ہے۔ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا معاملہ فی الحال رائے شماری کی منزل تک نہ پہنچے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا بل لایا جائے جس کے نتیجے میں معاملات جوں کے توں رہیں اور نتیجہ کچھ بھی برآمد نہ ہو۔ ڈیموکریٹک پارٹی چاہتی ہے کہ ایران کے خلاف پائی جانے والی فضا میں شدت گھٹے، اس پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا معاملہ کمزور پڑے اور میڈیا پر مہم بھی مزید زور نہ پکڑے۔

اب یہ بات تقریباً طے دکھائی دیتی ہے کہ صدر اوباما ایران کے خلاف طاقت کے استعمال میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ شام کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری بھی کانگریس نے انہیں نہیں دی تھی۔ وہ ایران کے معاملے میں بھی کانگریس کا رخ کرکے صدر کی حیثیت سے اپنی ساکھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے خلاف امریکی صدر کا رویہ خاصا نرم رہے گا اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے اسے باز رکھنے کے معاملے میں شاید نئی پابندیوں کا آپشن اپنانے پر بھی غور نہیں کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ براک اوباما کچھ زیادہ ہی بات چیت کرتے ہیں۔ ان کے پاس ڈرونز کے ذریعے فضائی حملوں کا آپشن موجود تو ہے مگر اس سے مطلوبہ نتائج خال خال ہی حاصل ہو پاتے ہیں۔

روس اور شام کے صدور کا رویہ

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور شام کے صدر بشار الاسد نے گزشتہ برس امریکا کی طرف سے شام پر فضائی حملوں کی بات کو خاصی سنجیدگی سے لیا۔ واشنگٹن اور اس کے باہر صدر اوباما کے حامی کہتے ہیں کہ شام پر حملے کے حوالے سے امریکی صدر کا رویہ خاصا کمزور تھا مگر اس کے باوجود روس اور شام بہت پریشان تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکا واقعی حملہ کردے۔ اس خوف کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ شام کو کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر تلف کرنے پڑے۔

اسرائیل اور سعودی عرب اگر امریکا کے بارے میں شکوک و شبہات کو راہ دے رہے ہیں تو اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ امریکی قیادت کو ایران کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ امریکیوں کو خلیجی ریاستوں سے یہ شِکوہ ہے کہ وہ اپنے تمام مفادات امریکی فوجیوں کی قیمت پر حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اسرائیل اور خلیجی ریاستیں بظاہر جوہری مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کر رہی ہیں۔ مگر درحقیقت انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدہ طے پاگیا اور وہ کامیاب بھی رہا تو امریکا سے ایران کے تعلق انتہائی خوشگوار ہوجائیں گے۔ یہ بات خلیجی ریاستوں کے لیے انتہائی ناقابلِ قبول ہوگی۔ وہ بھلا یہ بات کیونکر برداشت کرسکتی ہیں کہ امریکا سے بہتر تعلقات کی بدولت خطے میں ایران کی پوزیشن مزید مستحکم ہو؟ کانگریس میں کم ہی لوگ ان خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ ایک سینئر قانون ساز کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں بمشکل پانچ ارکان ملیں گے جو یہ سوچ رکھتے ہوں کہ ایران سے بہتر تعلقات کی صورت میں امریکا خطے میں کتنی بڑی تبدیلیوں کو راہ دینے جارہا ہے۔

اوباما کی پالیسی کو کسی بھی حال میں خامیوں سے پاک یا مُبرّا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شام کے حوالے سے ان کی پالیسی مکمل طور پر الجھی رہی ہے۔ اب ایران کے معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ ایران سے بات چیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری میں ایک رائے پنپ چکی ہے۔ وہ اس معاملے میں گھر میں بھی کچھ مدد چاہتے ہیں مگر فی الحال انہیں کوئی ایسی مدد فراہم کیے جانے کے آثار نہیں۔

(“Mr Obama’s Iran problem”…
“The Economist”. Jan. 18, 2014)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*