
’’نہیں! آپ کو یہاں کی تصاویر لینے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
’’میں نے صرف اس پوسٹر کی تصویر کھینچی ہے‘‘۔
’’نہیں! آپ کو اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ لائیے کیمرے سے فلم نکال کر میرے حوالے کر دیجیے‘‘۔
’’معاف کیجیے گا! میرا ڈیجیٹل کیمرہ ہے۔ اس میں فلم نہیں ہوتی‘‘۔
میرا یہ مکالمہ اس سکیورٹی گارڈ کے ساتھ ہو رہا تھا جو حزب اﷲ کی پولیٹیکل کونسل کے دفتر کے مرکزی دروازے پر کھڑا تھا۔ جبکہ میں اس جگہ کی تصویریں کھینچ رہی تھی۔ پھر خاصی مشکل سے میں نے سکیورٹی گارڈ کو راضی کر لیا کہ وہ مجھے اپنے کیمرے کے ساتھ دفتر کے اندر جانے کی اجازت دے دے۔ میں دفتر کے اندر یہ سوچتے ہوئے داخل ہو گئی کہ مجھے اب سب سے پہلے حزب اﷲ کی مرکزی رہنما ریما فخری سے انٹرویو لینا ہے۔ بہت سارے سوالات میرے ذہن میں امڈ رہے تھے۔ میں بہت سی توقعات لے کر راستہ طے کر رہی تھی۔ یہ سب کچھ مجھے ایک ایڈونچر سا محسوس ہو رہا تھا‘ جو امریکی فلموں کا خاصہ ہے۔ آج میں نے تنِ تنہا بیروت شہر کی گلیوں میں سفر کیا اور اس شاندار شہر کے ایک دوسرے رخ سے آشنا ہوئی۔ اس کے جنوبی ضلع میں پہنچنے کے لیے مجھے ٹیکسی پر ۴۰ منٹ لگے۔ اس طرح میں ایک دوسری دنیا میں آگئی۔
آپ بیروت کے مشرقی حصے میں جتنا زیادہ سفر کریں گے‘ آپ کو اسی قدر زیادہ اندازہ ہو گا کہ اس شہر کے کتنے اور مختلف چہرے ہیں۔ میرے خیال میں لبنان مزاحمت‘ حمیت اور آزادی کا دوسرا نام ہے۔ زیادہ تر عرب یہاں خریداری‘ پرتعیش ہوٹلوں میں قیام کرنے اور نائٹ کلبوں کے لیے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شہر یہ ساری چیزیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کچھ فراہم کرتا ہے۔
لبنان کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آپ یہاں کے باشندوں سے کوئی سوال و جواب کر کے ان کو پہچان سکتے ہیں کہ وہ کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا طرزِ لباس‘ ان کی دکانوں کے نام‘ ان کے پوسٹرز اور دیواروں پر آویزاں اشتہارات سے یہ سب کچھ ظاہر ہو جاتا ہے۔ الحمرا۔۔۔ کاروبار اور عیش و عشرت کے مرکز اور الدحیہ الجنوبیہ۔۔۔ حزب اﷲ کے گڑھ کے مابین فرق محسوس کرنے میں زیادہ مشاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ راستے میں مَیں ایک اسکول کے قریب سے گزری جسے ’’المہدی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بظاہر یہ ایک روایتی شیعہ مسجد دکھائی دیتی تھی جس کا ایک بڑا نیلا گنبد تھا۔ اس طرح اس کے قریب ایک دکان تھی جس کا نام ’’آل البیت‘‘ (یعنی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اہل و عیال) تھا۔ حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین شہید اور ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی شہید کی تصاویر آویزاں تھیں۔ اسرائیل نے دونوں رہنماؤں کو شہید کر دیا تھا۔ دیواروں پر مسجد اقصیٰ کی تصاویر بھی تھیں۔ اس علاقے میں جو خواتین دکھائی دیتی تھیں‘ سب کی سب حجاب میں ملبوس تھیں۔ ان ساری چیزوں نے مجھ سے کچھ وقت لے لیا اور پھر میں اس عمارت تک پہنچی جو دراصل حزب اﷲ کی پولیٹیکل کونسل کا دفتر تھا۔ وہاں حزب اﷲ کے سیکرٹر ی جنرل حسن نصراﷲ کا ایک بہت بڑا پوسٹر ظاہر کر رہا تھا کہ میں ٹھیک جگہ پر پہنچ گئی ہوں۔ ایک دو لوگوں سے پوچھنے کے بعد ہی میں عمارت تک پہنچی۔
’’میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘ سکیورٹی گارڈ نے مجھ سے پوچھا۔
’’محترمہ ریما فخری کے ساتھ میری ملاقات طے ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’بہتر! آپ اس راستے سے چلی جائیے‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے میری رہنمائی کی۔
میں عمارت میں داخل ہوئی اور محترمہ ریما فخری کے دفتر میں جا پہنچی۔ ان کا دفتر دراصل ایک سادہ سا کمرہ ہی تھا۔ جہاں سرخ اور پیلے رنگ کے پردے تھے اور ایک نفیس صوفہ پڑا ہوا تھا۔ محترمہ فخری سیاہ لباس میں ملبوس تھیں۔ انہوں نے مادرانہ محبت اور گرم جوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا۔
محترمہ ریما فخری بیروت میں واقع امریکن یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے ۱۹۹۰ء میں ڈگری حاصل کی۔ پیشے کے اعتبار سے وہ انجینئر ہیں۔ گریجویشن کے بعد وہ حزب اﷲ کے سینٹر فار اسٹڈیز اینڈ ڈاکو مینٹیشن میں کام کرنے لگیں۔ ان سے پہلے ان کے خاندان میں کوئی دوسرا فرد حزب اﷲ کا رکن نہیں تھا۔ حزب اﷲ میں شمولیت کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ چار سال بعد وہ حزب اﷲ کے شعبۂ خواتین میں فعال ہو گئیں۔ اس وقت وہ حزب اﷲ کی پولیٹیکل کونسل کی واحد خاتون رکن ہیں۔
جب میں نے تحریک میں خواتین کے کردار کی بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں مردوں اور عورتوں کا یکساں کردار ہے۔ انہیں ایک جیسے ہی اہداف دیے جاتے ہیں‘ صرف کچھ امور مردوں کے لیے مختص ہیں جو براہِ راست مسلح جدوجہد سے متعلقہ ہوتے ہیں۔
خواتین ہر میدان میں متحرک ہیں‘ چاہے یہ تعلیم کا میدان ہو یا صحت کا‘ میڈیا ہو یا تعلیمی مہمات کا معاملہ۔ محترمہ ریما نے مزید بتایا کہ حزب اﷲ کی اگلی صفوں میں ان کی تقرری نے دیگر خواتین کے لیے بھی راستہ کھول دیا۔ ہمارا مذہب اور ہمارے نظریات عورتوں کے قائدانہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے مخالف نہیں ہیں۔ یہاں یہ چیزیں قابلِ قبول ہیں۔ پالیٹیکل کونسل کے ارکان باقاعدہ منتخب ہوتے ہیں۔ ہماری تحریک میں کچھ تنظیمی درجے ہیں۔ چھوٹے درجوں کے لوگ بڑے درجوں کے لیے افراد کو منتخب کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں صلاحیتیں مدنظر رکھی جاتی ہیں۔
وہ حزب اﷲ کی سماجی خدمات کا ذکر کرنے لگیں۔ انہوں نے بتایا کہ حزب اﷲ نے لوگوں کی خدمت کی ہے‘ قطع نظر اس کے کہ کوئی اس سے وابستہ ہے یا نہیں۔ ان خدمات میں خیراتی امور ہیں‘ شعور بلند کرنے کی مہمات ہیں اور صحت عامہ کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ تحریک میں خواتین کو کیا مقام حاصل ہے اور میڈیا ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے‘ تو انہوں نے بتایا کہ حزب اﷲ کی مختلف سرگرمیوں میں خواتین انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی سے ہی حزب اﷲ پر میڈیا بار بار حملے کرتا رہا ہے۔ دراصل مغربی میڈیا مسلمان خواتین کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرتا ہے۔ لیکن ہم ثابت کر رہے ہیں کہ یہ سراسر غلط پراپیگنڈہ ہے۔
’’حزب اﷲ کو کسی قسم کے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
محترمہ ریما فخری نے بتایا کہ حزب اﷲ نے جب سے اپنے آپ کو ایک موثر قوت ثابت کیا ہے‘ وہ شدید دباؤ میں ہے۔ جب سے حزب اﷲ نے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا اظہار کیا ہے‘ اس پر دباؤ بڑھا ہے۔ امریکا حزب اﷲ کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔ اب جنوبی لبنان کی آزادی سے وہ لوگ لرزہ براندام ہیں جو ہماری قوت کے بارے میں غلط اندازے لگایا کرتے تھے۔
مئی ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوج‘ اس کی پراکسی فورس اور جنوبی لبنان کی آرمی نے چند گھنٹوں کے اندر علاقہ خالی کر دیا۔ ان کے چھوڑے ہوئے ٹارچر سیل اور ان کی بدنام زمانہ جیلیں ساری دنیا پر آشکار ہو گئیں۔ ’’انصار جیل‘ کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں جنوبی لبنان کے مردوں کی آدھی سے زیادہ آبادی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی۔ جنوبی لبنان کی آرمی کی مدد سے اسرائیلی فوج جنوبی دیہات پر بمباری کرتی رہی۔ وہاں کرفیو نافذ کیا‘ بہت سے دیہات کا محاصرہ کیا‘ ان کو بجلی اور پانی کی سہولتوں سے محروم کر دیا۔ اسرائیل نے اس علاقے کو سکیورٹی زون بنا رکھا تھا اور پھر اس نے جس طرح یہاں سے اپنی فوجیں نکالیں‘ اس پر بہت سے مبصرین نے لکھا کہ بڑھتے ہوئے اثر نے اور اسرائیلیوں کے مورال کے گرنے سے اور ساری توجہ اپنی طرف کرنے سے اسرائیل کے لیے ناممکن ہو گیا کہ جنوبی لبنان پر اپنا قبضہ برقرار رکھے۔ اسرائیل اپنے خود ساختہ ’’سکیورٹی زون‘‘ کو برقرار رکھنے کی لیے جو قیمت چکا رہا تھا‘ وہ اس کی استطاعت سے بڑھ رہی تھی۔
حزب اﷲ کی فتح نے عرب عوام کو امید اور اعتماد کی نعمت سے مالا مال کر دیا۔ یہاں اب یہ جذبات ہیں کہ ہم اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ محترمہ ریما نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر۱۵۵۹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو لبنان میں شامی موجودگی کے حوالے سے تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس قرارداد کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کی مزاحمتی قوتوں کو غیرمسلح کر دیا جائے۔ ان کے مطابق اس قرارداد کے اجرا سے دراصل لبنان میں امریکی مداخلت کو عروج ملا اور حزب اﷲ کو دباؤ میں رکھنے کی امریکی کوششوں میں اضافہ ہوا۔ تاہم حزب اﷲ میں اس قسم کے سارے دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تمام تر مخالف حالات حزب اﷲ کی ثابت قدمی پر اثرانداز نہ ہو سکے۔ ہم نے عام لبنانی عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے مشترک قدروں کو تلاش کیا۔ ہم نے اپنے آپ کو داخلی اختلاف میں نہ الجھنے دیا۔
محترمہ ریما نے بتایا کہ حزب اﷲ نے مائیکل عون کی جماعت فری نیشنل فرنٹ کے ساتھ ایک میمورینڈم آف انڈر اسٹینڈنگ پر دستخط کیے ہیں۔ یہ جماعت لبنان کے ۷۰ فیصد عیسائیوں کی نمائندہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے حوالے سے ہماری پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کی کوشش میں اجتماعیت پیدا ہو جائے۔
جب میں نے حزب اﷲ کے عسکری ونگ کو غیرمسلح کرنے کے مطالبے کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حزب اﷲ کی عسکری سرگرمیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ دراصل لبنان کے ایک ہمہ پہلو دفاعی نظام کی تشکیل کے عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کو ایک علیحدہ عنوان کے تحت نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اسی طرح محترمہ ریما نے حزب اﷲ کے سپاہیوں کو لبنانی فوج میں ضم کر دینے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیرعقلی حل ہے۔ لبنانی آرمی کے پاس صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہماری جنوبی سرحدوں کی حفاظت کر سکے۔ حزب اﷲ کے سپاہی بھی اس فوج کا حصہ بن کر بے صلاحیت بن جائیں گے۔ یہ حزب اﷲ کی غیرروایتی فورسز ہی تھیں جو فتح کی ایک وجہ ثابت ہوئیں۔ ہم ایک گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں جو ہمیں بعض فوائد بخشتی ہے۔ اسی طرح یہ ہمیں زیادہ چوکس اور ہوشیار بناتی ہے۔ روایتی فوج لبنان کی جنوبی سرحد کا دفاع نہیں کر سکتی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے ۱۹۹۶ء میں اسرائیلی جارحیت کا جواب مقبوضہ فلسطین (محترمہ ریما اسرائیل کا لفظ استعمال کرنے سے انکاری تھیں کیونکہ یہ لفظ استعمال کرنے سے مقبوضہ علاقوں پر قائم ہونے والی مملکت تسلیم ہو جاتی ہے) کے شمالی علاقے کی طرف میزائل لانچ کر کے دیا۔ جب اسرائیلی جنگی جہاز ہمارے میزائل لانچروں کو تباہ کرنے آئے تو وہ انہیں تلاش نہ کر سکے۔
۱۹۹۶ء میں اسرائیل نے گروپس آف ریتھ آپریشن (Groups of Wrath Operation) کے نام سے ایک آپریشن کیا۔ اس فوجی آپریشن میں اسرائیلی آرمر‘ آرٹلری اور بمباروں نے پورے جنوبی لبنان کو تہس نہس کر دیا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں پناہ لینے والے ۱۰۲ عام شہریوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے۔
میں نے پوچھا کہ لبنان کے باقی گروہ حزب اﷲ کے ملٹری ونگ کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں‘ اس حوالے سے آپ کیا کہتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو حل نہ ہو سکتا ہو۔ اس پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ جنوبی سرحدوں کی حفاظت کے لیے حزب اﷲ کے علاوہ باقی گروہ بھی اپنی گوریلا فورس تیار کر سکتے ہیں۔ شیبا فارمز کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے شیبا کے باغات کو آزاد کروانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں‘ وہ میدانِ جنگ کے حالات پر منحصر ہیں۔
ہمارے گوریلا مجاہد جو تدابیر اختیار کرتے ہیں‘ ان کے کرنے کے بعد ہم آپریشن کرتے ہیں اور دشمن کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم موجود ہیں۔ ہم کوئی روایتی فوج نہیں ہیں اور یہ باغات بھی ایک رات میں واگزار نہیں کروائے جاسکتے۔ اس طرح کے کام وقت مانگتے ہیں۔
انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ شیبا کے باغات کس طرح آزاد کروائے جانے والے دوسرے لبنانی علاقوں سے مختلف ہیں۔ زمینی حقائق اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ جنوبی لبنان کے دوسرے علاقوں کے برعکس شیبا باغات میں زیادہ آبادی نہیں ہے۔ البتہ اس کی تزویراتی اہمیت ہے۔ اگر اسرائیل کا اس علاقے سے کنٹرول ختم ہو جائے تو وہ تزویراتی اہمیت بھی اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔
حزب اﷲ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراﷲ کو قتل کرنے کی سازش کے حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ لبنانی ملٹری انٹیلی جنس نے یہ سازش بروقت پکڑ لی تھی۔ اس سے زیادہ ہمیں اس معاملے کے بارے میں علم نہیں ہے۔ سارا معاملہ عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اس طرح کے حالات سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ یہ پہلا قاتلانہ حملہ نہیں ہے‘‘۔
یاد رہے کہ حزب اﷲ کے دو سابق سیکرٹری جنرل راغب حزب اور عباسی الموساوی دو مختلف واقعات میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ حزب ۱۹۸۴ء میں قتل ہوئے جبکہ الموساوی ۱۹۹۲ء میں اپنی اہلیہ اور ۵ سالہ بچے کے ساتھ قتل ہوئے۔ اسرائیلیوں نے ایک اپاچی میزائل مار کر ان کی کار کو نشانہ بنایا تھا۔
محترمہ ریما فخری پوری دنیا تک اپنے پیغام کو پھیلانے میں میڈیا کے کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا انتہائی طاقتور ہتھیار ہے۔ یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ ہمارے کچھ اخبارات و جرائد ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل کم ہیں۔
جب میں واپس اپنے ہوٹل جارہی تھی‘ میں سوچ رہی تھی کہ لبنانی دیہات والے اب اس خوف کے بغیر کہ اسرائیلی فوجی ان کے بیٹوں کو گرفتار نہیں کریں گے‘ ان کے پیاروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے ٹارچر سیلوں میں قتل نہیں کریں گے۔ کیسے آزادی کی خوشبو سے مسحور ہو رہے ہوں گے۔ میں ان لوگوں کے چہرے دیکھ رہی تھی‘ وہ جس جنگ کے دور سے گزرے‘ جس نقصان کا انہیں سامنا کرنا پڑا‘ میں اس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ایک گلی کی نکڑ پر میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ایک گروپ کو دیکھا جو گیند کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ایک ماں اپنے بچے کو سنبھالے ہوئے تھی‘ دو لڑکیاں آپس میں گپ شپ میں مصروف تھیں۔ میں نے ان مردوں کے بارے میں سوچا جو سرحد کی حفاظت کر رہے تھے‘ اپنا لہو بہا رہے تھے‘ ان بچوں اور عورتوں کے چہروں پر مسکراہٹ برقرار رکھنے کے لیے انہیں کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
انٹرویو کا یہ حصہ لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت سے پہلے کا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ ’’اسلام آن لائن‘‘ کے زیرِ اہتمام ایک آن لائن مکالمے پر مشتمل ہے۔ مختلف ممالک سے لوگوں نے محترمہ ریما فخری سے موجودہ صورتحال کے بارے میں سوالات کیے جس کے انہوں نے جوابات دیے۔
ایک امریکی خاتون نے ان سے سوال کیا کہ حزب اﷲ پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ حالیہ بحران کی ذمہ دار وہی ہے۔ ہمسایہ عرب ممالک کے سربراہان کے بیانات جاری ہونے کے بعد۔ لبنان کے اندر آتش فشانی کی صورت پیدا ہونے کے بعد‘ کیا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حزب اﷲ اب مکمل طور پر تنہا ہو چکی ہے۔ اب اسے مادی حمایت حاصل ہے نہ اخلاقی۔
محترمہ ریما نے بتایا کہ حزب اﷲ نے عرب حکمرانوں پر کبھی انحصار نہیں کیا۔ عربوں کے اندر ہماری حمایت موجود ہے۔ بعض حکمران ہمارے رویے پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ ان کی ہمدردی کا ایک انداز ہے جو وہ ہم سے رکھتے ہیں۔ دراصل وہ خود بین الاقوامی کھلاڑیوں کے دبائو میں ہیں۔ ہم صرف عرب عوام پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم عرب حکمرانوں پر انحصار نہیں کرتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عرب عوام ہمارے تجربات سے استفادہ کریں۔ ہم اپنے آپ کو امریکی کنٹرول سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔
کیا یہ بات درست ہے کہ لبنانی آرمی جنگ میں آپ کا ساتھ دے رہی ہے؟
ایک پاکستانی خاتون نے پوچھا۔
انہوں نے جواب دیا کہ شروع ہی سے لبنانی آرمی کے ساتھ ہماری کوآرڈی نیشن ہے۔ چند روز پہلے لبنانی آرمی کو اسرائیلی حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ اسرائیلی فوج کو شکست دینے کی صلاہیت رکھتی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ لبنانی آرمی کی صلاحیتیں محدود ہیں۔ اسی لیے ہم ہمیشہ اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں کہ حزب اﷲ کو لبنانی آرمی میں ضم کرنا چاہیے۔
’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوجیوں کے اغوا کے جواب میں اسرائیل کا موجودہ رویہ ضرورت سے زیادہ سخت ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ حملہ طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے؟‘‘
’’بالکل! ہر فرد جانتا ہے کہ ہم نے اسرائیلی فوجیوں کا اغوا کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ اسرائیل فوجیوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ جب انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی جائے تو انہیں کیا کرنا ہے۔ چنانچہ یہ ساری چیزیں باقاعدہ طے شدہ تھیں۔ اسرائیلی فوجیوں کے اغوا کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ہمارے ارکان کو اغوا کر لیتے۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ بغیر منصوبہ بندی کے نہیں تھا۔ ہماری طرف سے اغوا کاری کے جواب میں وہ اس لیے زیادہ جارحیت پر اتر آئے کہ انہیں غزہ میں عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں اب شرمندگی اور خفت کا سامنا ہے۔ ’’ناقابلِ شکست فوج‘‘ کو ایک اسکینڈل کا سامنا ہے۔ اب وہ فوجی اپنے منہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے اندرونی مسائل کا کوئی حل تلاش کر رہے ہیں۔ فوجیوں کی اغوا کاری کے بہانے وہ لبنان تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے راکٹ حیفہ تک پہنچ چکے ہیں۔ اب ہم تل ابیب کو نشانے پر لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اسرائیلیوں کو ہماری صلاحیتوں کی بابت علم ہے۔ ہم اﷲ تعالیٰ سے مدد کی استدعا کرتے ہیں کیونکہ ہم اسی کی خاطر لڑ رہے ہیں‘‘۔
سعودی عرب سے ایک نوجوان عبداﷲ نے حزب اﷲ کی رہنما کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ وہ ان کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
محترمہ ریما نے جواب دیا: ’’ہمیں رقم کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب عوام کو متحرک کیا جائے۔ انہیں دنیا پر ثابت کر دینا چاہیے کہ وہ انسانیت سوزی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم گذشتہ عرب رہنماؤں کے بیانات دیکھ چکے ہیں۔ اگر ہم متحد ہو جائیں تو مجھے یقین ہے کہ یہ بت (اسرائیل) تباہ ہو جائے گا۔ آپ اسرائیلی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو اپنے آپ پر فخر محسوس ہو گا۔ عرب عوام کے متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو سکے کہ ہم تنہا ہیں انہیں اپنی حکومتوں کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ بھی دشمن کے خلاف کارروائی کریں۔ دنیا میں مظاہرے کرنے کی ضرورت ہے۔ عرب عوام کا غصہ اور ان کا غضب نظر آنا چاہیے‘‘۔
ایک فرانسیسی نے سوال کیا کہ اسرائیل لبنان میں ہر چیز کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ اس بمباری سے محفوظ ہونے کے لیے لوگوں کے پاس کوئی جگہ ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ’’ہم نے بہت سی جنگوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ہمیں کسی بم شیلٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے اس طرح کی کوئی تیاری نہیں کی‘ نہ ہی ہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لوگ کسی محفوظ جگہ پر جانے کا رسک لیتے ہیں لیکن ہم اﷲ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہاں ایک ایک گھر میں تین تین چار چار خاندان رہ رہے ہیں۔ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے‘ اس سے لبنانی عوام میں مزید اتحاد پیدا ہو گیا ہے۔ آج کل ہر فرد اتحاد کی باتیں کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کی باتیں کر رہا ہے‘‘۔
ایک برطانوی طالب علم نے پوچھا کہ کیا آپ اسرائیل سے جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی خدمات بھی جاری رکھیں گے؟ کیا آپ کشتی کے واقعے کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گی؟ کیا اس پر مصری سوار تھے؟ محترمہ ریما نے جواب دیا کہ ہم اپنی خدمات کا سلسلہ نہیں روکیں گے۔ ایک رات ’’ضاحیہ‘‘ میں بمباری ہوئی لیکن اگلی صبح سب نے دیکھا کہ ہر چیز اپنی جگہ پر قائم ہو گئی تھی اور زندگی معمول پر تھی۔ رہی بات کشتی کی‘ حزب اﷲ نے صرف اسرائیلی بحری جہاز پر دو میزائل داغے تھے۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کوئی دوسری کشتی یا جہاز بھی نشانے پر آیا ہے۔
شام سے کسی نے موجودہ صورتحال کی بابت دریافت کیا تو محترمہ ریما نے کہا کہ ہم اسرائیلی حملے کے لیے تیار تھے۔ یہ ان کا صرف ردِعمل نہیں ہے۔ ہمیں اسرائیلی حملے کی توقع تھی۔ اسی لیے ہم نے اپنی منصوبہ بندی ۲۰۰۰ء ہی سے شروع کر دی تھی۔
رومانیہ سے ایک فرد نے بتایا کہ وہ راسخ العقیدہ عیسائی ہے اور پوچھنا چاہتا ہے کہ حزب اﷲ جو کارروائیاں کر رہی ہے‘ اس کا کیا جواز ہے؟ حزب اﷲ کو خدا کی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے۔ کیا وہ اپنی پالیسی کے دفاع کے لیے لڑ رہی ہے‘ یا پھر مسلمان معاشرے کے تحفظ کی خاطر لڑ رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ سب کچھ محض نفرت کی بنیاد پر ہو رہا ہے؟ یاد رکھیے کہ خدا معصوم لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور پھر جنہیں بے گناہ قتل کر دیا جاتا ہے‘ ان کی نسلیں بھی قاتلوں سے نفرت کرتی ہیں۔
محترمہ ریما نے جواب دیا: ’’ہم اپنے لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ جنوبی لبنان میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ سے غلط سلوک کیا جارہا ہے۔ یہاں ایک بڑی تعداد اسرائیلی حملوں میں قتل کر دی گئی ہے۔ حزب اﷲ کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا ہے کہ ہم لبنان کے ہر شہری کا تحفظ کریں گے‘ چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم‘‘۔
ایک طالب علم نے پوچھا کہ آپ کی کارروائیوں کی وجہ سے یہودیوں سے زیادہ بے گناہ مسلمان شہید ہو رہے ہیں۔ اس پر آپ کیا جواز پیش کریں گی؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسرائیلی ایک بہانہ تلاش کر رہے تھے۔ اگر ہم اسرائیلی فوجی اغوا نہ کرتے‘ تب بھی وہ حملہ کرتے۔ ہم نے اسرائیلیوں کو اغوا کیا ہے تو اس کا باقاعدہ جواز موجود ہے۔ اس پر ہمیں لبنان کی ایسی تمام قوتوں کی حمایت حاصل ہے جو لبنانی قیدیوں اور شیبا باغات کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے جو کچھ کیا ہے‘ اس کا جواز موجود ہے۔ ہم نے کبھی اعلان نہیں کیا کہ ہم نے اپنی کارروائیاں روک دی ہیں۔ ہم نے جو کچھ کیا ہے‘ وہ ہماری معمول کی مزاحمتی کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔ رہی بات تباہی و بربادی کی تو یہ تو جنگوں میں ہوتی ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ النساء میں فرماتا ہے کہ ’’اس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اﷲ سے اس چیز کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں۔ اﷲ سب کچھ جانتا ہے اور وہ حکیم و دانا ہے‘‘۔ (النساء:۱۰۴)
ایک امریکی شہری نے بتایا کہ لبنان میں معصوم لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے بارے میں پڑھ کے وہ بیمار ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک امریکی شہری کی حیثیت سے دوسرے امریکیوں کو کیسے بتایا جائے کہ مغربی میڈیا جو کچھ پیش کر رہا ہے‘ وہ غلط ہے اور تعصب پر مبنی ہے۔ محترمہ ریما نے بتایا کہ حزب اﷲ کی طرف سے میں کہتی ہوں کہ ’’جو ہمارے ساتھ تعاون کرے گا‘ ہم اس کے احسان مند ہوں گے۔ آپ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ لوگ شعور پھیلا سکتے ہیں۔ لوگوں میں شعور پھیلے گا تو ہماری پوزیشن مزید بہتر ہو جائے گی‘‘۔
ایک خاتون نے سوال کیا کہ کیا لبنانی عوام اب بھی منقسم ہیں؟ کیا اب بھی حزب اﷲ کے حامی اور مخالف‘ دو الگ الگ طبقات ہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ اسرائیلی آرمی جنوبی لبنان میں داخل ہو جائے گی اور حزب اﷲ کی ملیشیا کو غیرمسلح کر دے گی؟ کیا اب نئی خانہ جنگی شروع ہو گی؟
محترمہ ریما فخری نے جواب دیا: ’’ان شاء اﷲ خانہ جنگی نہیں ہو گی۔ لبنانی لوگ اب متحد ہیں۔ حملے سارے لبنانی عوام پر ہو رہے ہیں۔ لبنانی عوام ان لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے جو ان کی زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہیں‘‘۔
حزب کی خاتون رہنما سے سوال کیا گیا کہ کیا اسرائیل شام پر حملہ کرے گا؟ اگر اس نے ایسا کیا تو کیا ایران بھی اس جنگ میں کود پڑے گا؟
سعودی عرب موجود صورتحال کا ذمہ دار حزب اﷲ کو قرار دیتا ہے۔ آپ اس پر کیا فرمائیں گی؟
انہوں نے جواب دیا کہ وسیع پیمانے پر جنگ ناممکن ہے۔ تاہم اگر شام پر حملہ کیا گیا تو پھر یہ بات ہے کہ ایران اور شام کے مابین ایک دفاعی معاہدہ موجود ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ اس لیول تک نہیں پہنچے گا۔ حزب اﷲ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیلی بیان کا جواب دے دیا ہے۔ لیکن ہم ہر ایک کے ساتھ مباحثہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’خواتین میگزین‘‘ لاہور۔ شمارہ: اگست ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply