
لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کا زوال اب اختتام پذیر ہے۔ قوم انہیں عملی سطح پر مسترد کرچکی ہے۔ مگر اس سے کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ معمر قذافی نے چالیس سال قبل اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ ان چالیس برسوں میں انہوں نے پڑوسی ممالک سے کئی جنگیں لڑی ہیں، کئی بار ان پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں، ملک کو مختلف تنازعات کے باعث اقتصادی ناکہ بندی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دنیا نے ان کا تمسخر بھی اڑایا ہے۔ معمر قذافی نے یکم ستمبر کو اقتدار کے چالیس سال مکمل کیے۔ انہوں نے ۱۹۶۹ء میں آرمی کیپٹن کی حیثیت سے شاہ ادریس کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اب بھی وہ جواں عزم ہیں اور مزید حکمرانی کی خواہش رکھتے ہیں۔
گبون کے صدر عمر بونگو کے انتقال کے بعد اب معمر قذافی کو طویل اقتدار کے حوالے سے عرب دنیا یا افریقہ میں کسی سے مسابقت کا خطرہ نہیں رہا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کی طوالت ان کی خواہش حکمرانی کو مزید مہمیز دے رہی ہے۔ گزشتہ سال معمر قذافی نے اپنے آبائی قصبے سرطے میں افریقہ کے روایتی حکمرانوں کا ایک اجتماع منعقد کیا تھا جس میں انہوں نے خود کو افریقہ کے سلطانوں کا سلطان قرار دیا تھا۔ اس وقت وہ افریقی اتحاد کے صدر ہیں جسے وہ بھرپور فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بر اعظم کی سطح پر ریاست ہائے متحدہ افریقہ کی شکل دیکر اس کے سربراہ بنے رہنا چاہتے ہیں۔
علاقائی سطح پر اپنی نمایاں حیثیت برقرار رکھنے کی اس نوعیت کی کوششوں کو مضحکہ خیز بھی قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ لیبیا کے لیڈر کو حال ہی میں چند سفارتی محاذوں پر کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ لیبیا آج کل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جس کا رونالڈ ریگن کے زمانے میں تصور بھی ممکن تھا جنہوں نے لیبیا کے لیڈر کو پاگل کتا قرار دیا تھا! معمر قذافی ماہ رواں کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے امریکا کا اپنا پہلا دورہ کریں گے۔ اسے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لیبیا کو سفارتی سطح پر قبول کیا جارہا ہے۔ معمر قذافی جی ایٹ سربراہ اجلاس میں بھی دکھائی دیے ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور روس کے رہنمائوں کا لیبیا کا دورہ بھی اس بات کا غماز ہے کہ سفارتی سطح پر لیبیا کے لیے برف پگھل رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے کونڈولیزا رائس کا دورہ لیبیا بھی معاملات کو بہتر بنانے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔
لیبیا کے لیڈر نے دہشت گردوں کی حمایت اور انقلابی مقاصد کے لیے سرگرم افراد کی سرپرستی کے ذریعے جو خرابی پیدا کی تھی اسے دور کرنے کے لیے ایک عشرے سے جاری کوششوں کا یہ ثمر ہے۔ معمر قذافی کی جانب سے فلسطینی گروپوں اور آئرش ری پبلکن آرمی کو بھی مدد ملتی رہی ہے۔ لیبیا کے لیے حالات اس وقت بہتر ہوئے جب معمر قذافی نے ۱۹۸۸ء میں لاکر بی (اسکاٹ لینڈ) کے مقام پر امریکی طیارے کی تباہی اور ۱۹۸۹ء میں فرانس کے ایک طیارے کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کی۔ نائن الیون کے ذریعے لیبیا کو بڑا بریک ملا۔ لیبیا کی حدود نے جہادی عناصر کی سرکوبی کی اور اسامہ بن لادن کے لیے انٹرنیشنل اریسٹ وارنٹ کی پہلی درخواست دی۔ معمر قذافی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغربی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب امریکا نے وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کو تلف کرنے کے نام پر عراق کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تو لیبیا نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک ہی نہیں کیا بلکہ سپلائرز کے نیٹ ورک کو بھی بے نقاب کردیا۔ اندرون ملک اصلاحات کے طفیل بھی معمر قذافی کو بے مثال فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ دارالحکومت ٹریپولی میں نئے ہوٹلز اور ایئر پورٹ کی تعمیر سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسکولوں کی سطح پر تعلیم کا معیار بلند کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ ۲۰ سال پہلے کے مقابلے میں اب صحت عامہ کی سہولتیں بہتر ہیں جس کے نتیجے میں اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب کے وقت شیر خوار بچوں میں جو شرح اموات تھی اب وہ اس کے مقابلے میں دسویں حصے کے برابر رہ گئی ہے۔ مگر یہ تمام کامیابیاں ایک ایسے ملک کے لیے کچھ زیادہ پرکشش دکھائی نہیں دیتیں جو فی کس اتنا ہی تیل برآمد کرتا ہے جتنا سعودی عرب برآمد کرتا ہے۔ گزشتہ سال لیبیا کی تیل کی برآمدات ۴۶ ارب ڈالر رہیں۔ صرف ۶۴ لاکھ افراد میں اس آمدنی کا تقسیم ہونا غیر معمولی خوش حالی کی نوید ہی ہے۔ تیل کی اس قدر آمدنی کے باوجود لیبیا کے حالات درست نہیں ہوسکے ہیں۔ بیشتر بڑے شہروں میں اب بھی نفاست کا اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوسکا ہے۔ جس شخص کو معمر قذافی کے اقتدار سے قبل کا لیبیا یاد ہو وہ بتا سکتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوئی ہے۔ بہرحال ۱۹۸۰ء کے عشرے کے مقابلے میں حالات بہت اچھے ہیں جب معمر قذافی نے اپنے سماجی نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی اور منحرفین کو پوری ریاستی قوت سے کچل دیا گیا۔ لیبیا میں آج بھی ایک خاص قسم کا سوشلزم نافذ ہے جس کے تحت تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جاتی ہیں، اور رہائشی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں رعایت کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔ مزدور انجمنوں اور کسی بھی قسم کی سماجی تنظیموں کی آزادانہ سرگرمیوں پر بھی پابندی ہے۔ قومی خزانے میں اربوں ڈالر کا زر مبادلہ پڑا ہے مگر تنخواہیں بہت کم ہیں۔ لوگوں کو بیشتر معاملات میں نقدی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والے چند ہزار افراد قومی خزانے سے جی بھر کے استفادہ کر رہے ہیں۔ نجی شعبے میں بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے تیس فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ لیبیا میں سرکاری سطح پر بیان کیے جانے والے اعداد و شمار پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
لیبیا میں حکومتی اور انتظامی سطح پر جو خرابیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں وہ محض نا اہلی کا ثبوت نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ بیان کر رہی ہیں۔ لیبیا وہ ملک ہے جسے دو عشروں سے بھی زائد مدت تک بدانتظامی کا شکار رکھا گیا ہے اور ایسا حکومت کی ہر سطح پر ہوا ہے۔ ملک میں جو مختلف نظام خرابی کا شکار ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اب معمر قذافی کا جانشین کون ہوگا۔ معمر قذافی کے سات بیٹوں میں سے ان کی جانشینی کے امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔ بڑا بیٹا سیف اللہ انسانی حقوق کی پاسداری میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ چھوٹا اور کم آمیز بیٹا معتصم ممکنہ طور پر جانشین ثابت ہوگا کیونکہ خفیہ اداروں کے لیے اس کا انداز خاصا موزوں ہے۔ قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ دونوں بیٹوں نے چند برسوں کے دوران باپ کے موقف میں لچک پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیبیا کو اگر عالمی برادری میں قابل رشک مقام پانا ہے تو صرف دولت پانی کی طرح بہانے یا مغرب سے تعلقات بہتر بنانے سے کہیں بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ ملک کو ہر سطح پر تبدیلی کی ضرورت ہے اور قیادت کو اس کا احساس ہونا چاہیے۔
(بحوالہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۲۲ اگست ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply