معاشی بحالی
سندھ کے انتظامی امور میں اکثر برہمن ذات کے افراد تعینات تھے۔ راجہ داہر کے بعد ان سب لوگوں کا معاشی مستقبل خطرے میں پڑ گیا تھا۔ لہٰذا وہ محمد بن قاسم کے پاس درخواست گزار ہوئے۔ آپ نے ان کی درخواست منظور کی اور جس طرح راجہ چچ کے زمانے میں ہر برہمن کسی نہ کسی کام پر مامور ہوا کرتا تھا۔ آپ نے بھی انہیں کوئی نہ کوئی کام سونپ دیا اور ان سے فرمایا:
’’راجہ داہر نے تمہیں اہم کاموں پر مامور کیا کیا تھا جس کی وجہ سے تم شہر اور مضافات سے بخوبی واقف ہو گئے۔ تم جس مشہور و معروف کو بھی تربیت اور نوازش کا مستحق سمجھو، اس سے ہمیں آگاہ کرو تاکہ اس کے حق میں مہربانی کی جائے اور اسے اعلیٰ انعامات سے سرفراز کیا جائے۔ چونکہ ہمیں تمہاری ایمانداری اور صداقت پر پورا اعتماد اور بھروسہ ہے، اس لیے تم اپنے عہدوں پر بحال کیے جاتے ہو۔ ملک کا سارا کاروبار تمہاری معاملہ فہمی پر چھوڑ دیا جائے گا اور یہ منصب تمہاری اولاد اور نسلوں سے کبھی نہ چھینا جائے گا۔‘‘
اس سے نہ صرف مقامی اہلکاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ نظامِ حکومت کی بحالی میں بھی کافی مدد ملی، محمد بن قاسم کے اس اقدام کے متعلق اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں:
’’محمد بن قاسم نے سرکاری ملازمتوں میں دیسی باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھرتی کر کے کس طرح ایک دانش مندانہ حکمتِ عملی اختیار کی تھی۔ فی الحقیقت اسی حکمتِ عملی نے عرب حکومت کو اس کے قیام کے وقت کامیاب بنایا۔ کیونکہ نئے مقرر شدہ بدھ اور ہندو سرکاری ملازمین اندرونِ ملک پھیل گئے اور انہوں نے عوام میں اعتماد پیدا کر کے انتظامی اور مالی کل پرزوں کو ایک مرتبہ پھر چالو کر دیا۔
بعض علاقوں میں تو سارا کاروبارِ حکومت مقامی لوگوں کے حوالے کر دیا گیا۔ مثلاً سیستان کے متعلق تاریخ معصومی کی روایت ہے کہ سیستان کی فتح پر جو برہمن وزیر مسلمانوں کی امان میں آیا، اسے اپنے آدمیوں کے ہمراہ ٹھٹھہ اور نیرون کوٹ کی طرف روانہ کر کے وہاں کا کاروبار اسی کی عقل اور سمجھ پر چھوڑا گیا۔‘‘
برہمن ذات میں سے وہ لوگ جو مذہبی خدمات کے لیے وقف تھے اور ان کا ذریعہ معاش پجاریوں کی نذر و نیاز وغیرہ تھا۔ آپ نے ان کو بھی حسبِ سابق بحال کر دیا کیونکہ اب برہمنوں کی وہ رسم کہ تاجر اور ٹھاکر وغیرہ برہمنوں کو خیراتیں دیا کرتے تھے، بند ہو گئی تھی اور لشکر کے خوف کی وجہ سے خیرات اور کھانا بھی دستور کے مطابق نہ پہنچتا تھا، جس کی وجہ سے وہ مفلس اور قلاش ہو گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حاضر ہو کر التجا کی کہ ہم راہب ہیں، ہماری ترقی اور معاشی بحالی بتوں کی مجاوری پر ہے۔ جس صورت میں تاجروں اور کافروں پر مہربانی فرمائی گئی ہے کہ وہ جزیہ قبول کر کے ذمی ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ہم بندگان بھی حضور کے کرم سے امید رکھتے ہیں کہ ہمیں اشارہ فرمائیں گے تاکہ ہم بھی اپنے معبود کی پرستش کریں اور اپنے بت خانے آباد کریں۔ ان کی درخواست پر آپ نے عام لوگوں کے لیے حکم جاری فرمایا کہ وہ اپنی بخشش اور خیرات سے برہمنوں اور فقیروں کی خدمت کریں۔ اپنی رسمیں اور تہوار اپنے باپ دادا کے دستور کے مطابق جاری رکھیں۔ برہمنوں کو اس سے پہلے جو خیراتیں دیا کرتے تھے، وہ حسبِ دستور دیتے رہیں۔ سو درہم اصل مال میں سے تین درہم (نکال کر اس میں سے) جو کچھ ان کا حق ہے، وہ انہیں پہنچا دیں اور برہمنوں کے لیے فیصلہ ہوا کہ ہاتھوں میں تانبے کی تھالی لے کر خیرات کے لیے گھروں کے دروازے پر جائیں اور اناج وغیرہ جو کچھ بھی مل سکے، حاصل کریں تاکہ تباہ نہ ہوں۔
مقامی لوگوں کو فوج میں شامل ہونے کا موقع بھی دیا گیا، جس سے وہ لوگ اسلامی دستور کے مطابق جزیہ سے بری الذمہ ہو گئے۔ اس کے علاوہ اپنی خدمات کا معاوضہ بھی پانے لگے۔ صرف سیوستان سے چار ہزار جاٹ نوجوانوں کو اسلامی لشکر میں شامل کیا گیا۔ مختلف مقامات پر مقامی لوگ فوج میں شامل ہوتے رہے، حتیٰ کہ ملتان کی فتح کے بعد اسلامی فوج کی تعداد ۵۰ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
جزیہ و خراج کی وصولی
سندھ کی غیرمسلم رعایا سے محصولات کے معاملے میں بھی نرمی و سہولت کو مدنظر رکھا گیا۔ خود حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو اپنے ایک خط میں اس کے متعلق مفید ہدایت دیں:
’’جو لوگ فرمانبرداری کے لائق ہیں اور ان کے دل صاف ہیں، انہیں امان دے کر ان کے ذمہ جزیہ مقرر کرو۔ دستکاروں اور تاجروں پر ہلکا بوجھ رکھنا۔ جس کے متعلق بھی یہ معلوم ہو کہ وہ زراعت اور کاشت میں بڑی محنت کرتا ہے، اس سے قانونی محصول میں رعایت اور ہمدردی کی جائے۔ جو اسلام کی عزت سے مشرف ہو، اس کے مالِ زراعت سے عُشر لیا جائے۔ جو اپنے دھرم پر قائم رہے، اس کے کارخانے اور زراعت سے ملکی قانون کے مطابق دیوانی محصول کر کے عاملوں کے حوالے کیا جائے۔‘‘
سندھ میں جزیہ اُسی شرح سے لاگو کیا گیا جو حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں رائج تھا۔ یعنی سرداروں (مرفع الحال لوگوں) پر فی کس ۴۸ درہم وزن کی چاندی، دوسرے درجے کے گروہ پر ۲۴ درہم وزن کی چاندی اور تیسرے درجے کے لوگوں پر ۱۲ درہم وزن کی چاندی مقرر کی گئی۔ اس رقم کے علاوہ ان کی زمینیں اور گھوڑے (مویشی) وغیرہ ان سے نہ لیے گئے۔
جزیہ کے تعین اور وصولی میں ممکنہ حد تک نرمی برتی گئی۔ برہمن آباد کے معرکے میں عوام کا بہت سا مالی نقصان ہوا تھا۔ محمد بن قاسم نے یہاں پر سوداگروں، صناعوں اور مزارعین کا اندراج کرایا۔ یہ لوگ تعداد میں دس ہزار نکلے۔ اس کے بعد آپ کے حکم پر ان میں سے ہر ایک پر صرف بارہ درہم وزن کی چاندی مقرر کی گئی کیونکہ ان کا اثاثہ لٹ گیا تھا۔ یہ جزیہ کی کم سے کم شرح تھی۔ خراج کے تعین میں حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق مقامی دستور اور حالات کا لحاظ رکھا گیا اور مقامی رہنمائوں سے بھی رائے لی گئی۔ پھر ان محصولات کی وصولی کا کام بھی مقامی اہلکاروں کے حوالے کیا گیا اور انہیں بھی عوام کے ساتھ عدل و احسان کا برتائو کرنے کی تاکید کی گئی۔ محمد بن قاسم نے انہیں حکم دیا کہ حکومت اور خالق کے درمیان سچائی کا خیال رکھنا۔ اگر کوئی شے تقسیم کرنا ہو تو برابر تقسیم کرنا اور ہر ایک پر اس کی برداشت کے مطابق مالیہ مقرر کرنا۔
ان انتظامات کے علاوہ آپ عوام کی شکایات کا ازالہ بھی کرتے تھے تاکہ اہلکار کسی شخص پر ظلم و زیادتی نہ کر سکیں۔
مذہبی آزادی
محمد بن قاسم نے اپنے توحیدی اعتقادات کے باوجود، مقامی آبادی کے مذہبی عقائد و رسومات میں کوئی مداخلت نہ کی۔ عین جنگ کے دوران بعض مندروں میں شکست و ریخت اور لوٹ مار کی گئی۔ جس کی ایک وجہ ان کا مسلمانوں کے خلاف عسکری مراکز کے طور پر استعمال تھا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ عرصۂ دراز سے پجاریوں اور یاتریوں کے لائے ہوئے نذرانے اور عطیات کا یہاں ذخیرہ تھا جو فاتحین کی توجہ کا باعث بنتا تھا۔ مذہبی تعصب کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ اس امر کو خود ہندو مورخین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ رما شنکر ترپاٹھی لکھتے ہیں:
’’سندھ کے فاتحین نے رواداری کے دور اندیشانہ پالیسی پر عمل کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام پھیلا، لیکن عیسائیوں کے گرجوں، یہودیوں کے عبادت خانوں اور آتش پرستوں کی قربان گاہوں کی طرح، ہندو مندر بھی محفوظ و مستحکم رہے۔ برہمنوں کو اجازت تھی کہ وہ چاہیں تو نئے مندر تعمیر کریں، چاہیں پرانے مندروں کی مرمت کرائیں۔‘‘
آپ نے کہیں بھی بلاوجہ مندروں کو نقصان نہ پہنچایا۔ اہلیانِ سندھ کے ساتھ اکثر معاہدوں میں ان کی مذہبی آزادی کا ذکر بھی موجود ہے۔ دیبل سندھ کا پہلا اہم شہر تھا جسے آپ نے فتح کیا۔ وہاں پر سب سے بلند عمارت بودھوں کا معبد تھی۔ آپ نے قلعہ والوں کو شہر کا دروازہ کھولنے پر مجبور کرنے کے لیے اس معبد کے مینارہ پر، جو سب سے اونچا اور باہر سے نظر آتا تھا، توپ کا گولہ پھینکا، جس سے وہ ٹوٹ گیا۔ لیکن جب شہر کا دروازہ کھل گیا اور شہر فتح ہو گیا تو اس معبد کو برباد نہیں کیا گیا، بلکہ برقرار رکھا گیا۔ چنانچہ تیسری صدی ہجری تک یہ عمارت موجود تھی۔ عباسی خلیفہ معتصم ۲۱۸ھ۔۲۲۸ھ کے زمانے میں اس کا ایک حصہ جیل خانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اسی طرح ملتان کا عظیم الشان بت خانہ بھی صحیح و سالم رہا۔ بلکہ عربوں کی تین سو برس کی حکومت میں بھی وہ بعینہٖ قائم رہا۔ تمام ہندوستان سے لوگ اس مندر کی یاترہ کو آتے تھے اور وہاں جا کر نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ یہ رقم سرکاری خزانہ میں جمع ہوتی، جس سے اس مندر کے مصارف اور وہاں کے پجاریوں کی تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ مذہبی رواداری کی اس سے زیادہ کیا صورت ہو گی کہ محمد بن قاسم نے جس طرح مسجدوں کے لیے اوقاف مقرر کیے، ویسے ہی مندروں کے لیے بھی جاگیریں مقرر کیں۔
حجاج بن یوسف کی جانب سے بھی مذہبی رواداری کی تاکید تھی۔ مثلاً برہمن آباد کی فتح کے موقع پر محمد بن قاسم نے ان سے اس بارے میں استفسار کیا تو ان کا جواب آیا:
’’تم نے جو حالات تحریر کیے ہیں، وہ معلوم ہوئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ برہمن آباد کے سربراہ بت خانہ کی آبادی اور اپنے مذہب کے لیے عرض کر رہے ہیں، جس صورت میں کہ انہوں نے ہماری فرمانبرداری کے زمرے میں داخل ہو کر دارالخلافہ کا جزیہ اپنے اوپر مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں جزیہ کے علاوہ ہمارا ان پر کوئی حق اور تصرف نہیں ہے۔ انہیں اپنے معبود کی عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تم کسی بھی آدمی سے اس کے طریقے کے بارے میں کوئی روک ٹوک نہ کرنا تاکہ وہ اپنے گھروں میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے رہیں۔‘‘
تب آپ نے وہاں کے بزرگوں، سربراہوں اور برہمنوں سے فرمایا کہ:
’’بے شک تم اپنے معبود کی عبادت کرو، اپنی رسمیں اور تہوار اپنے باپ دادا کے دستور کے مطابق جاری رکھو۔‘‘
اروڑ کے معاہدے میں بھی مذہبی آزادی کا ذکر موجود ہے۔ یعنی یہ کہ اروڑ کے باشندے قتل نہ کیے جائیں اور بُد (معبد) سے تعرض نہ کیا جائے۔ اس موقع پر محمد بن قاسم نے فرمایا کہ بُد (بت خانہ یا معبد) ویسا ہی تو ہے جیسے یہود و نصاریٰ کے کنیسے اور مجوس کے آتشکدے۔ ان معاہدوں کے علاوہ بھی پورے سندھ میں تمام غیرمسلم رعایا مذہبی طور پر بالکل آزاد تھی۔ ابوریحان البیرونی نے ان کی مذہبی رواداری کے متعلق لکھا ہے کہ بجز ان لوگوں کے، جنہوں نے خوشی سے مذہب تبدیل کیا، سب کو ان کے مذہب پر چھوڑ دیا گیا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی ہندو مسلمان ہو کر مرتد ہو جاتا تو بھی اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اس بارے میں کتاب البدؤ التاریخ میں مرقوم ہے:
’’ان میں سے جو مسلمانوں کا قیدی ہو کر مسلمان ہوتا، پھر مرتد ہو جاتا، تو مسلمان اسے قتل نہیں کرتے، جبکہ (ہندو) اسے خوب پاک و صاف کرتے ہیں۔ یعنی اس کے سر اور بدن کے تمام بال مونڈ دیتے ہیں۔ پھر گائے کا پیشاب، گوبر، دودھ اور گھی اکٹھا کر کے کئی روز تک اسے پلایا جاتا ہے۔ پھر اسے گائے کے پاس لے جاتے ہیں، جسے وہ سجدہ کرتا ہے۔‘‘
آپ کی مذہبی رواداری کے بارے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں:
ترجمہ: محمد بن قاسم نے آبادی پر اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی دبائو نہیں ڈالا اور انہیں وہ تمام سہولیات مہیا کی گئیں، جس کے ایک اسلامی ریاست میں بطور ذمی وہ حق دار تھے۔ ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی اور انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اپنے مقامی مذہبی اداروں کا انتظام اپنے مذہبی قوانین کے مطابق چلائیں۔
حرفِ آخر
محمد بن قاسم کے ذاتی کردار اور اس کے نظامِ حکمرانی کی اپنوں اور غیروں، سب نے تعریف کی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر تارا چند، محمد بن قاسم کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مسلمان فاتح نے مفتوحوں کے ساتھ عقلمندی اور فیاضی کا سلوک کیا۔ مالگزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا اور قدیمی ملازموں کو برقرار رکھا۔ ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندروں میں پرستش کی اجازت دی اور ان پر فقط ایک خفیف سا محصول عائد کیا، جو آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتا تھا۔ زمینداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ برہمنوں اور مندروں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں۔‘‘
عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم ۹۲ھ میں سندھ پہنچا اور صرف ساڑھے تین برس کی مدت میں ملتان سے کَچھ تک اور دوسری طرف مالوہ کی سرحد تک قبضہ کر کے نہایت عدل و انصاف کی حکومت قائم کر دی۔
ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان لکھتے ہیں:
ترجمہ: وہ فوجی قیادت کے لیے نہایت موزوں تھا اور اپنے حسنِ انتظام میں بھی کمال رکھتا تھا۔ اس کے اندر خودانحصاری، مردانگی، کشادہ دلی اور تحمل و برداشت کی اہلیت و صلاحیت بھی موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سازگار حالات اور بیرونی زمین پر فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا اور وہاں کا انتظام کار بحسن و خوبی چلایا۔
الغرض محمد بن قاسم اپنی نوعمری کے باوجود ایک فرض شناس، منصف مزاج اور نظم و ضبط کا پابند انسان تھا۔ اس نے سندھ میں سرکش قوتوں کا خاتمہ کرنے کے بعد ایسا عمدہ نظم و نسق قائم کیا جو اسلام کے عدل و انصاف اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کا آئینہ دار تھا۔ انہوں نے سندھ کی مقامی آبادی کے ساتھ نرمی اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ حسبِ ضرورت کہیں سختی سے بھی کام لیا گیا لیکن عام طور پر وہ مذہبی رواداری اور فلاحِ عامہ کے جذبے سے سرشار تھا۔
(بشکریہ: ’’مجلہ تاریخ و ثقافتِ پاکستان‘‘۔ شمارہ: اپریل۔ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply