ایران اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے!

جب ۲۰۰۳ء میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کاروںنے ملک کے خفیہ جوہری پروگرام کا پتا لگایا اس وقت سے ایران محمد البرادعی کے لئے بہت زیادہ پریشانی کا باعث رہاہے۔ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کا تیسری بار انتخاب جیتنے کے بعد البرادعی نے اپنے پہلے انٹرویو میں ایران کے متعلق نیوز ویک کے Christopher Dickey کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ یہ گفتگو جوہری بم اور اس نکتے پر مرکوز تھی کہ کس طرح صدرکے لئے محمود احمدی نژاد جیسے سخت گیر شخص کا انتخاب توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔

ڈکی: کیا آپ کو اس حوالے سے کوئی اشارے ملے ہیں کہ جس سے پتہ چلتا ہو کہ احمدی نژاد جوہری مسئلے کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟

البرادعی: ہمارے ایرانی ساتھی ہمیں یہ باورکراتے رہے ہیں کہ یہ مسئلہ معمول کے مطابق چلے گا اور مجھے امیدہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

ڈکی: کیا اس صورتحال میں ایران پر یقین کیا جاسکتاہے؟’

البرادعی: ایران کے لئے ضروری ہے کہ وہ معروضی ضمانتیں فراہم کرے کہ ان کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ یورپی ممالک اور امریکیوںکے خیال میں معروضی ضمانت کا واحد مطلب یہ ہے کہ ایران Fuel Cycle کو ختم کردے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے کہ نہیں! معروضی ضمانت فراہم کرنے کے دوسرے طریقے بھی ہوسکتے ہیں۔

ڈکی: آپ کی اپنی دستاویزات سے ظاہر ہوتاہے کہ ایرانی دھوکہ دہی کے طریقے سے کام لے رہے ہیں۔

البرادعی: سالوںسے ایران کی پردہ پوشی کی پالیسی کے سبب ایران پر اعتماد میں کمی پیدا ہوئی ۔ یقینا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ پردہ پوشی پر اس لئے مجبور ہوئے کہ انہیں پابندیوں کا خوف تھا اور اسی وجہ سے انہوںنے اپنا پروگرام زیر زمین رکھا۔ لیکن ضرورت ہے کہ ایران اپنے اس طریقے سے باہر آئے۔ صرف کاغذی کارروائی کی حد تک نہیں، بلکہ پوری طرح سے اسے معاملے کو شفاف رکھنے کے لئے‘ پوری طرح سے اپنے آپ کو فعال رکھنے کے لئے اور اعتمادبحال کرنے کی خاطر۔ یورپ اورامریکہ کی تشویش بھی اب بالکل واصح ہے۔ جوہری مسئلے سے آغاز کرتے ہوئے وہ علاقائی سلامتی اور حقوق انسانی کی جانب آنا چاہتے ہیں۔ایرانیوں کو یہ احساس ہے کہ خطے میںانہیں تنہا کیا جارہاہے، ان سے ترک تعلق کی روش اپنائی جارہی ہے۔ لہٰذا گفتگو کی اصل روح یہ ہے۔ جوہری مسئلہ تو بہت سارے مسائل میں سے ایک ہے۔ لیکن اگر آپ ذرا گہرئای میں جائیں گے تو بہت سارے دوسرے مسائل نظر آئیں گے۔ میرے نزدیک جوہری مسئلے کا حل پورے پیکج کا ایک جز ہے۔

ڈکی: آپ کے خیال میں ایران ان سب باتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

البرادعی: بالکل واضح ہے کہ ایران زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی کا خواہاںہے۔ صرف جوہری ٹیکنالوجی پر اکتفا نہیں چاہتا۔ یہ تمام جدید ٹیکنالوجی کا حصول چاہتاہے۔ مثلاً ایئربس، بوئنگ، وہ اپنی ٹیکنالوجی کو جدید بنانا چاہتا ہے۔ میراخیال ہے کہ ایرانی سمجھتے ہیں کہ جوہری ٹیکنالوجی انہیں اس کا اہل بنائے گا کہ وہ بڑی طاقتوںکے کلب کا رکن ہوجائیں اور یہ کہ اس حوالے سے یہ بہترین انشورنس پالیسی ہے۔ اگریہ سب کچھ اسے حاصل ہوجاتا ہے تو یہ ایک بار پھر اپنے ہمسائیوں کو ایک پیغام دینے میں کامیاب ہوگا۔ ایران پورے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کھلاڑی کا کردار ادا کرنا چاہتاہے۔ جو کہ اس وقت تشکیل نو کے دور سے گزر رہا ہے۔ میں ایران کی طرف سے کچھ بولنانہیں چاہتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بالآخر اپنا تعلق امریکہ کے ساتھ بھی استوار کرنا چاہے گا۔ یورپی ممالک کے ساتھ ایران کے مذاکرات امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لئے پل ثابت ہوں گے۔ یہ صرف جوہری مسئلہ نہیں ہے بلکہ مشرقی وسطیٰ کے کل مستقبل کا سوال ہے۔ یہ علاقائی اور عالمی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک قدرے مشکل مسئلہ ہے۔ اور ایک وقت طلب مسئلہ ہے اور اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ صبر سے کام لیں۔ جب تک وہ گفتگو کررہے ہیں مجھے اطمینان ہے۔ جب تک یورینیم کی افزودگی معطل ہے، جب تک وہ گفتگو میں پیش رفت کررہے ہیں، اسے یونہی چلنے دیں۔

ڈکی: گفتگو ناکام ہونے کا کہاں تک خطرہ ہے؟

البرادعی: مجھے اب بھی امیدہے کہ آخر وقت تک کسی بھی صورت میں کوئی بھی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں تصادم ایک کمزور مفروضہ ہے۔

(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ میگزین ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۱۲ جولائی ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*