
مصر کی عبوری فوجی حکومت نے عوام کے منتخب نمائندوں سے ٹکرانے کی ابتدا کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی تشکیل میں اُن کی رائے حتمی نہیں ہوگی بلکہ ہوگا وہی جو فوج چاہے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا نظم و نسق عبوری طور پر سنبھالنے والی سپریم کونسل آف دی آرمڈ فورسز اور حالیہ انتخابی مراحل میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی اخوان المسلمون ایک بار پھر تصادم کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ بات اب واضح ہوچلی ہے کہ مارچ میں ختم ہونے والے انتخابات کے بعد منتخب ایوان میں اخوان المسلمون واضح اکثریت کے ساتھ بیٹھی ہوگی۔
حالیہ انتخابات میں عوام نے بھرپور حصہ لیا ہے تاکہ حقیقی نمائندہ حکومت معرض وجود میں آئے اور حسنی مبارک کے بعد کے زمانے کا آئین تشکیل دے۔ ابتدائی انتخابی نتائج میں اسلام پسندوں کی بھرپور کامیابی دیکھتے ہوئے مصر کی فوج نے اقتدار پر اپنی گرفت مستحکم رکھنے کے لیے بظاہر طاقت کے مظاہرے کی ٹھان لی ہے۔ وہ اس امر کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ مارچ کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں اس کے مفادات کو مکمل تحفظ حاصل ہو اور وہ سیاسی اور معاشی میدان میں اپنا کردار عمدگی سے ادا کرتی رہے۔
سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کے رکن میجر جنرل مختار الملا نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’مارچ میں حتمی انتخابی نتائج کے بعد سامنے آنے والی جماعت پورے ملک کی نمائندہ نہیں ہوگی اس لیے آئین کی منظوری کے سلسلے میں اسے عبوری کونسل اور دانش وروں، سویلین لیڈروں اور میڈیا کی شخصیات پر مشتمل مشاورتی کونسل کی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔‘‘ عبوری حکومت اور مشاورتی کونسل فوج کے ماتحت ہیں۔
میجر جنرل مختار الملا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’یہ جمہوریت کا پہلا مرحلہ ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جب فوجی افسران اور جوان بیرکوں میں واپس جائیں تو منتخب ایوان میں دفاعی بجٹ پر کوئی بحث نہ ہو اور کوئی مواخذہ بھی نہ کیا جائے۔ مستقبل کی مصری حکومت جو چاہے کرسکتی ہے۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت پورے ملک کی واحد ترجمان نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہوں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ پارلیمنٹ پورے مصر کی نمائندہ نہیں۔‘‘
مصر کے عبوری وزیراعظم کمال گنزوری نے کابینہ تشکیل دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں فوج نے صدارتی اختیارات سونپ دیے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت فوج اور عدلیہ کے احتساب کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ کمال گنزوری کی کابینہ کو فوج مخالف مظاہرین نے مسترد کردیا ہے جو ایک بار پھر دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمع ہونے لگے ہیں۔
عبوری فوجی حکومت کو حسنی دور کا تسلسل قرار دینے والے انقلابیوں اور فورسز کے درمیان خوں ریز جھڑپوں کے بعد فوج کو بین الاقوامی میڈیا کے سامنے جاکر یہ دعویٰ کرنا پڑا ہے کہ مصر میں اقتدار کی منتقلی کا عمل خطرے میں نہیں۔ میجر جنرل مختار الملا کا کہنا ہے کہ ’’آئین سازی کا عمل اپریل میں شروع ہوگا اور جون میں صدارتی انتخاب سے قبل آئین کے مسودے کو ریفرینڈم کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔ جون میں صدر کے انتخاب کے بعد سب کچھ سویلینز کے ہاتھ میں ہوگا۔ ہم سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ جون کے بعد فوج وہی کرے گی جو اس کا کام ہے یعنی ملک کی حفاظت۔‘‘ میجر جنرل مختار الملا نے تسلیم کیا کہ اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی بھی گروپ (اسلام پسندوں کی طرف اشارہ ہے) ملک کے معاملات پر زیادہ حاوی نہ ہو مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس خدشے کو بھی بے بنیاد قرار دیا کہ اخوان المسلمون یا دیگر منتخب گروپوں کی طرف سے کوئی شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے جو آئین سازی کے عمل میں فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہوں گے۔
میجر جنرل مختار الملا کا کہنا تھا کہ ’’مصر پر فرانسیسیوں، انگریزوں اور عثمانیوں کا بھی قبضہ رہا مگر وہ مصری معاشرے کے بنیادی خواص کو تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے والی کوئی بھی جماعت اگر معاشرے کے خواص کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا‘‘۔
مصر کی عبوری حکمراں فوجی کونسل میڈیا سے زیادہ رابطہ نہیں رکھتی۔ بہتر انداز سے بحث کرنے کے تمام دعووں کے باوجود میجر جنرل مختار الملا صحافیوں سے ملاقات میں انقلابیوں اور فورسز کے درمیان تصادم کے حوالے سے سوالات پر صحافیوں سے کئی بار اُلجھے۔ اس تصادم میں چالیس سے زائد ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں۔ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
مختار الملا نے تسلیم کیا کہ اس وقت مصر کی مسلح افواج سلامتی سے متعلق امور پر پوری طرح متصرف ہیں تاہم ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ڈاکٹروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ مظاہرین کو ربڑ کی گولیوں کے بجائے اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ تحریر اسکوائر میں حال ہی میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے بارے میں میڈیا میں بے بنیاد باتیں بیان کی جارہی ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ اگر مظاہرین حملہ کریں تو وزارت داخلہ کو کیا کرنا چاہیے۔ طاقت کا جواب طاقت ہی سے دیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی میجر جنرل مختار الملا نے یہ بھی کہا کہ فوج کو اسلحہ استعمال کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم اس نے یہ استعمال نہیں کیا۔
میجر جنرل مختار الملا نے بلاگر مائیکل نبیل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جسے فوج کی شان میں گستاخی کرنے کی پاداش میں سال رواں کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ جیل میں بھوک ہڑتال پر ہے اور اب تک اس پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی پانچ مرتبہ ملتوی کی جاچکی ہے۔
مختار الملا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اب تک کسی کو فیس بک، ٹوئٹر اور کسی اور ویب سائٹ پر کوئی بات پوسٹ کرنے کی پاداش میں انصاف کے کٹہرے تک نہیں لایا گیا۔ جب میڈیا والوں نے اس دعوے کو چیلنج کیا تو انہوں نے مزید کچھ کہنے سے انکار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ میڈیا جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ عبوری حکومت نے قاہرہ میں ٹی وی مراکز کے سامنے مظاہرہ کرنے والے اعلا عبدالفتاح سمیت بہت سے بلاگرز کو حراست میں لے رکھا ہے۔ مختار الملا کا کہنا تھا کہ میڈیا نے اعلا عبدالفتاح کے خلاف الزامات کو نظر انداز کرکے صرف اس حقیقت کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے کہ وہ ایک بلاگر اور انسانی حقوق کا کارکن ہے۔ مختار الملا کا کہنا تھا کہ ’’مائیکل نبیل اور اعلا عبدالفتاح مصری ہیں۔ ہم مصریوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ مگر ہم ساڑھے آٹھ کروڑ مصریوں کی بات کر رہے ہیں‘‘۔
(بشکریہ: ’’گارجین‘‘ لندن۔ ۷ دسمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply