یہ ستمبر ۲۰۰۶ء کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلا دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال ہونے کو آئے ہیں،کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ ای میل بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ بھی ایک داستان ہے۔یہ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کی بات ہے۔ جون ۲۰۰۶ء میں مطیع الرحمن کی قبر کشائی کر کے اس کی میت مشرف نے بنگلادیش کے حوالے کی۔ یہ وہی مطیع الرحمن ہے جس نے غداری کی اور راشد منہاس کا جہاز ہائی جیک کرکے بھارت لے جانے کی کوشش میں مارا گیا۔ راشد منہاس کو نشان حیدر دیا گیا۔ بنگلادیش حکومت ۳۵ سال کوشش کرتی رہی کہ اس کی لاش کراچی کے قبرستان سے نکال کر ڈھاکا لے جائی جائے، لیکن پاکستان نے بنگلادیش کی یہ درخواست قبول نہیں کی۔ مشرف حکومت نے ایک دن خاموشی سے یہ فیصلہ کر لیا جس غدار کی وجہ سے راشد منہاس شہید ہوئے اس غدار کی میت بنگلا دیش کے حوالے کر دی جائے۔ بنگلادیش سے ایک ٹیم کراچی پہنچی، مطیع الرحمن کی قبر کشائی ہوئی، اس کی لاش بنگلادیش کے پرچم میں لپیٹ کر ڈھاکا پہنچا دی گئی۔ڈھاکا میں اسے غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ میرپور کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔
بنگلا دیش نے سرکاری طور پر بتایا کہ مطیع الرحمن کی خدمات صرف یہ نہیں کہ پاک فضائیہ کا ایک جہاز اس نے اغوا کرنے کی کوشش کی بلکہ دوران سروس جب وہ کراچی سے چھٹیوں پر مشرقی پاکستان گیا تو رائے پور کے علاقے رام نگر میں اس نے ایک کیمپ قائم کیا جہاں وہ مکتی باہنی کے مسلح نوجوانوں کی تربیت بھی کرتا رہا۔ یہ کام نواز شریف یا بے نظیر کے دورِ حکومت میں ہوا ہوتا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا، لیکن چونکہ آمروں کو یہ ایک اضافی فائدہ میسر رہا ہے کہ وہ ملک توڑیں یا آئین، ان کی حب الوطنی ہر حال میں سلامت رہتی ہے اور اس پر کوئی آنچ نہیں آتی اس لیے مشرف دور میں جب یہ کام ہوا تو نہ کوئی آواز اٹھی نہ شور مچا، نہ کسی نے احتجاج کیا۔ پرویز مشرف نے نہ صرف مکتی باہنی کے اس غدار کی میت بنگلادیش کے حوالے کی بلکہ اس سے قبل جب انہوں نے بنگلادیش کا دورہ کیا تو مکتی باہنی کے قاتلوں کے لیے قائم کردہ یادگار پر بھی حاضری دے آئے اور معذرت بھی فرما آئے۔
یہ خبر پڑھی تو دکھ ہوا اور میں نے بنگلا دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل بھیجی اور چند سوالات پوچھے:
۱۔ چند سال قبل پر ویز مشرف مکتی باہنی کے غداروں کی یادگار پر تو تشریف لے گئے کیا انہیں اس بات کی بھی توفیق ہوئی کہ ۵ دسمبر ۱۹۷۱ء کو دیناج پور میں ہلی کے مقام پر شہید ہونے والے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر پر بھی حاضری دیں؟
۲۔ میجر اکرم راجشاہی ڈویژن کے ضلع بوگرہ میں کہیں دفن ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ میجر اکرم شہید کی قبر کس حال میں ہے؟ کیا ان کے یومِ شہادت پر سفارت خانے کی طرف سے ان کی قبر پر چند پھول رکھے جاتے ہیں یا جناب سفیر محترم کو بھی علم نہیں کہ قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟
۳۔ مجھے ان کی قبر کی کچھ تصاویر چاہئیں، کیا میں توقع رکھوں کہ سفارت خانہ مجھے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر کی چند تصاویر بھیج سکے؟
۴۔ میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ کیا میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر وہاں ابھی موجود ہے یا مکتی باہنی نے بنگلادیش کے قیام کے بعد اس کے نشان مٹا دیے ہیں؟
۵۔ بنگلا دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش لے جا سکتا ہے تو کیا آپ میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے؟
وہ دن اور آج کا دن سفارت خانے نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔آج بنگلادیش میں ’البدر‘ کے شہداء کو ایک ایک کر کے دی جانے والی پھانسیوں نے ان سوالات کا درد ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
بنگلادیش اپنے غداروں اور قاتلوں کو عزت دے رہا ہے اور ہم اپنے مظلوم اور بہادر سپاہیوں کو بھول گئے۔ وہ مکتی باہنی کے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کی میت ۳۵ سال بعد بھی لے جاتا ہے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفناتا ہے اور ہم اپنے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر نہ احتجاج کر سکتے ہیں نہ بنگلا دیش سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ یہ پاکستان کا شہید تھا، اس کی میت پاکستان کے حوالے کر دی جائے ہم اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ مکتی باہنی کے مطیع الرحمن سے البدر کے مطیع الرحمان تک، نام ایک ہے، مگر کہانیاں جُدا جُدا۔ یہ کہانیاں بتاتی ہیں قومیں جب اپنی اساس سے بے نیاز ہو جائیں تو خزاں کے پتوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔ہم جیسے طالب علموں کو تو کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہمارے میجر اکرم شہید کی قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔شہید کو واپس لانا اور پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کرنا تو دور کی بات ہے، ہمیں تو کوئی خبر نہیں جہاں شہید دفن ہوئے وہ مقام کس حال میں ہے۔
بنگلادیش نے مکتی باہنی کو یاد رکھا، ان کے لیے وظائف مقرر کیے، ان کی یادگار بنائی، ان کے جرائم کی پردہ پوشی کی، باقاعدہ ایک قانون بنا دیا کہ مکتی باہنی نے جو بھی کیا اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی اور اس کے اراکین کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو گی۔لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم اپنے شہداء کو بھول گئے۔ ہمیں اپنی’البدر‘یاد رہی، نہ خاکی وردی میں جان سے گزر جانے والے شہداء یاد رہے۔ آج آپ کو حکمرانوں اور ان کے طفیلیوں کے نام پر بہت کچھ ملتا ہے۔ آدھے ادارے بھٹو سے منسوب ہو گئے اور آدھے شریفوں سے لیکن البدر کے شہداء کے نام پر نہ کوئی یاد گار ہے، نہ کسی سڑک یا چوراہے کو ان سے منسوب کرنے کی کسی نے ضرورت محسوس کی۔ دنیا میں آج تک یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری ہے کہ پاکستان نے بہت ظلم کیے لیکن ہم آج تک دنیا کے سامنے حقائق نہیں رکھ سکے کہ مکتی باہنی نے کیا کیا؟
ہمارے نصاب میں نہ بھارت کے کردار کا ذکر ہے نہ مکتی باہنی کی درندگی کا، نہ ہی ہم نے نصاب میں بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی کہ البدر کیا تھی۔ حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے نجی سکول قائم کیے تو نصاب میں ترکی کے سلطان مراد پر تو سبق شامل کر لیے جو بغیر نکاح کے حرم آباد رکھتا تھا اور بعض مورخین کے نزدیک ہم جنس پرست بھی تھا لیکن انہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ملا عبد القادر سے لے کر مطیع الرحمن نظامی تک کسی ایک شہید کا تذکرہ نصاب میں شامل کر دیتے کہ یہ بوڑھے آج پچاس سال بعد بھی پاکستان کے نام پر ہنستے ہوئے قربان ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کیجیے۔ نئی نسل کو بتائیے کیا ہوا تھا اور سچ کیا تھا؟ اسے اندھیرے میں رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دشمن کے پروپیگنڈے کے سامنے شعوری طور پر پسپا ہونے لگتی ہے اور یہ حادثہ لمحہ لمحہ ہو رہا ہے۔فکر کی دنیا میں اس ملامتی تصوف کو پھیلنے سے روکنا ہے تو قوم کو اعتماد دینا ہو گا۔پورے قد سے کھڑے ہو کر بات کرنا سیکھیے۔
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۱۹؍دسمبر ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply