
عبدالقادر مُلّا کی پھانسی کے ہنگام میرے کچھ محترم مہربان اور عزیز دوست، جو حقوقِ انسانی کا مشغلہ کرتے ہیں، لاپتا ہو گئے ہیں۔سوچتا ہوں احباب اپنی کچھ خبر دیں گے یا مجھے ماما قدیر اور آمنہ مسعود جنجوعہ سے درخواست کرنا پڑے گی کہ اپنی تلاشِ گمشدہ کی فہرست میں ہماری اِن معتبر شخصیات کو بھی شامل کر لیں؟جناب آئی اے رحمان، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبداللہ، محترمہ حنا جیلانی، محترمہ فرزانہ باری، جناب اعتزاز احسن، جناب اطہر من اللہ! ہمیں آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے، آپ ہمیں اپنی سلامتی سے مطلع کریں گے یا ہم یہ سمجھ کر چپ رہیں کہ آپ کو بھی کوئی ’خفیہ ہاتھ‘ لے اڑا؟
سیکولر احباب کا تعصب،غیظ و غضب اور فکری بد دیانتی دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کیا واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔صبح شام یہ حضرات حقوقِ انسانی کی مالا جپتے ہیں، قیمتی ملبوسات زیب تن کر کے اور مہنگا میک اپ تہ در تہ تھوپ لینے کے بعد جب انہیں فراغت کے اوقات بتانا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ حقوقِ انسانی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔وقت بھی گزر جاتا ہے اور بیرونِ ملک شناخت کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔شاید پیٹ کے مسا ئل بھی حل ہو جاتے ہوں کیونکہ اشرافیہ کے پیٹ کو صرف ڈالر راس آتے ہیں۔ یہ ننھے اور نازک معدے روپوں کی کثافت برداشت نہیں کر پاتے۔ان کے ہاں کتوں، بلیوں، لومڑوں اور گدھوں تک کے حقوق کا تصور موجود ہے، یہ ان کے غم میں رو رو کے جان ہلکان کر لیں گے۔ لیکن جب بات کسی مسلمان گروہ کی آئے تو یہ گونگے، بہرے اور اندھے بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاں ظلم کا اپنا ایک تصور ہے۔ یہ صرف اس ظلم کی مذمت کرتے ہیں، جو ان کی تعریف پر پورا اترے۔ ان کے نزدیک ظلم صرف وہ ہے، جو مسلمان کریں اور مظلوم صرف وہ ہے، جو مسلمانوں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنے۔ایسے ہی جیسے مذہبی انتہا پسندوں کے نزدیک ظلم صرف وہ ہے، جو امریکا کرے۔اب دونوں گروہ انتہاؤں پر جا کھڑے ہوئے ہیں۔دونوں کے اپنے اپنے ظالم ہیں اور اپنے اپنے مظلوم۔ ایک گروہ مختاراں مائی پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہتا ہے کہ اس کی لغت میں دی گئی تعریف کے مطابق یہ ظلم نہیں اور دوسرے گروہ کو آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ عافیہ صدیقی کے حق میں آواز اٹھا لے، کیونکہ اس کا ایمان ہے: ’’امریکا جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے‘‘۔اب سیکولر احباب کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ جماعت اسلامی کے کسی آدمی پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں۔ چنانچہ ہر طرف سکوتِ مرگ طاری ہے۔یہ احباب اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتائیں گے کہ قصاص کا قانون ٹھیک نہیں ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ سزائے موت ختم کی جائے، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ غیرانسانی سزا ہے، لیکن جب یہ سزا کسی ایسے آدمی کو دی جائے جس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہو تو ان کے سینے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے، انہیں سارے تصورات بھول جاتے ہیں اور یہ بوتل میں گردن دے کر کہتے ہیں: ’’سانوں کی‘‘۔ یہی سزا اگر بنگلہ دیش کے بجائے افغانستان میں طالبان نے دی ہوتی، عبدالقادر مُلّا کی جگہ ٹام ہیری اور ڈک ہوتا یا کوئی ایسا مسلمان جو ان احباب کے بقول ’’نان پریکٹسنگ مسلم‘‘ ہوتا تو پھر آپ ان کا اُچھلنا کودنا دیکھ دیکھ حیران ہوتے۔ یہ تو توہینِ رسالت جیسے گھناؤنے جرم میں بھی ریاست کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ سزائے موت کا نفاذ کرے لیکن جب بات عبدالقادر مُلّا کی ہو تو انہیں اپنے تصورات یاد نہیں آتے۔اس سے بڑا بغض، اس سے شرمناک تعصب اور اس سے غلیظ خبثِ باطن اور کیا ہو سکتا ہے؟
بہت سے لوگ عبد القادر مُلّا کی پھانسی پر باقاعدہ بغلیں بجا رہے ہیں اور بنگلہ دیشی اخبارات کے حوالے دے دے کر جرم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایسا کام کرنے کے لیے آدمی میں دو میں سے کوئی ایک خوبی ہونا بہت ضروری ہے۔ اول: وہ بہت سادہ ہو یا اتنا جاہل ہو کہ اسے نظام تعزیر کے بنیادی اصولوں ہی کا علم نہ ہو۔دوم: وہ فکری طور پر اتنا بددیانت ہو کہ جانتے بوجھتے سچ سے منہ پھیر لے اور محض اپنی نفرتوں کا اسیر ہو کر رہ جائے۔
جماعت اسلامی اور جمعیت کا میں بھی ناقد رہا ہوں اور شدید ترین ناقد۔لیکن میں کیا سچ کو صرف اس لیے سچ نہ کہوں کہ جماعت اسلامی سے مجھے اختلاف ہے اور پھانسی پر جھولنے والا جماعت اسلامی کا تھا۔ قانون سے میں خوب واقف ہوں کہ اس سے میرا ایک عشرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔عبدالقادر مُلّا پر عائد الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے عصمت دری کی۔سوال یہ ہے کہ کیا ۴۵سال کے بعد ایسا جرم قانونی طور پر ثابت کرنا ممکن بھی ہے؟کیا شواہد موجود ہیں؟شہادتوں کا معیار کیا ہے؟گواہی دینے والا کون ہے؟فرانزک رپورٹ بنی؟ڈھیروں سوالات موجود ہیں جن کی روشنی میں یہ سزا چھٹانک بھر اہمیت نہیں رکھتی۔قتل کا الزام بھی، عملاً، ممکن نہیں کہ چار عشرے گزر جانے کے بعد ثابت کیا جا سکے۔یہ صرف انتقام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نورمبرگ ٹرائل کا حوالہ دیا ہے۔نورمبرگ ٹرائل دنیا کا بدترین ٹرائل تھا۔ خود امریکی اٹارنی جنرل رابرٹ ایچ جیکسن نے کہا تھا: ’’یہ ٹرائل، انصاف نہیں تھا، ایک جنگی اقدام تھا، یہ عدالت نہیں بیٹھی تھی بلکہ جج حالت جنگ میں تھے، وہ انصاف نہیں دے رہے تھے بلکہ دشمن سے جنگ کر رہے تھے‘‘۔ (بحوالہ،Le sionisme contre Israel، صفحہ ۱۴۶)۔ برطانوی مؤرخ ڈیوڈ آرونگ لکھتے ہیں: ’’ساری دنیا نورمبرگ ٹرائل پر شرمندہ ہے۔امریکی سپریم کورٹ کے صدر جیکسن کی ذاتی ڈائری ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ نورمبرگ ٹرائل کے بوجھ سے ان کا سر شرم کے مارے جھکا ہوا ہے‘‘۔امریکی سپریم کورٹ کے ایک اور جج وینر سٹرم اس نورمبرگ ٹرائل کا حصہ تھے۔ انہوں نے ججوں کے مظالم دیکھے تو استعفیٰ دے کرواپس چلے گئے۔ (بحوالہ: دی فاؤنڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی، صفحہ ۴۵)۔ نورمبرگ ٹرائل میں یہ بنیادی نقطہ تھا کہ ملزم کے خلاف پراسیکیوشن کی ہر گواہی درست تصور کی جائے گی اور جو اُس گواہی کو جھوٹا کہے گا، اسے سزا دی جائے گی۔ باقاعدہ نیا طریقِ کار بنایا گیا تھا۔ آرٹیکل ۲۴(بی) خصوصی طور پر پڑھنے کی چیز ہے۔اب اگر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ خود کہہ رہی ہے کہ اس نے یہ سزا نورمبرگ ٹرائل کی طرز پر عدالتی کارروائی کر کے دی ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انصاف کا قتلِ عام کس دیدہ دلیری سے ہوا ہے۔ جس روز عبدالقادر مُلّا کو پھانسی دی گئی، اس رات ہمارے بعض ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم کے نیوز بلیٹنزکی بڑی خبروں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’’ہرتیک روشن اور سوزین خان میں علیحدگی ہو گئی‘‘۔ جرمن مصنف راڈرک نے درست کہا تھا: ’’کچھ لوگ اپنی حرکتوں سے اپنا شجرہ نسب بیان کرتے ہیں‘‘۔ ابھی دیکھ لیجیے چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کے ساتھ ہی بعض حضرات نے انہیں سینگوں پر لے لیا ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘کراچی۔ ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply