ممتاز قادری کیس: قانونی پہلو

جسٹس (ر) میاں نذیر اختر ایک عشرے سے زیادہ تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔ اس سے پہلے پچیس سال تک وکالت سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ سولہ سال تک قانون کے استاد کے طور پر یونیورسٹی لا کالج میں پڑھاتے رہے۔ ملک کے بڑے نامور وکلاء اور جج حضرات ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر دو سال پنجاب بیت المال کے امین رہنے کے علاوہ تین سال تک اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے ہیں۔ ممتاز قادری کیس میں پہلے دن سے بطور وکیل منسلک ہیں۔ ممتاز قادری کیس کے حوالے سے ان سے کی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔


س: جسٹس صاحب! ممتاز قادری کیس کے حوالے سے عمومی تاثر یہ بنا ہے کہ یہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ اعلیٰ عدالت میں ایک عشرے سے زیادہ عرصہ تک رہنے اور طویل مدت قانون کی تعلیم دینے کے باوجود آپ بھی اس کیس میں پیش ہوئے، جبکہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف نے بھی وکیلِ صفائی بننا قبول کرلیا، کیوں؟

ج: میری رائے اس تاثر کے خلاف ہے، جو میڈیا کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ میری رائے میں اگر ملک میں واقعی قانون کی بالادستی ہوتی تو ممتاز قادری آج جیل میں ہوتا، نہ اسے عدالتوں سے سزا ملتی۔ بلکہ وہ بَری ہو چکا ہوتا۔ قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ پاکستانی قانون میں اسلامی قانون بدرجہا اولیٰ شامل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بات کو درست طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔ عدالت میں جب ہم سے یہ سوال کیا گیا تو میں نے عرض کیا تھا کہ تمام جرائم کی بنیاد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوتا ہے۔ ہر جرم کی بنیاد یہی بنتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر طرح کے جرائم میں ملوث ملزمان کو کم سے کم سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا انہیں بَری کر دیا جاتا ہے۔ کسی کیس میں اس اندازِ فکر کی بنیاد پر فیصلہ کم ہی ہوتا ہے کہ یہ قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے۔ عدالتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جہاں سے بھی ملزم کو ریلیف مل سکتا ہو، اسے دیا جائے۔ لیکن اس خاص مقدمے میں یہ معاملہ بالکل اُلٹ نظر آیا۔ اگر بطور ایک قانون دان میری رائے آپ جاننا چاہیں تو میں یہ کہوں گا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا قانونی اور شرعی جواز موجود تھا۔

س: وہ کیسے؟

ج: قتل کے حوالے سے موجودہ دفعہ کو اسلامی قانونِ قصاص و دیت کی صورت میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ دفعہ تعزیراتِ پاکستان کے باب سولہ میں موجود ہے۔ اس میں دفعہ ۳۳۸ ایف ت پ، میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس باب کے تحت تمام مقدمات میں قانون کے اِطلاق اور اس کی تعبیر کے حوالے سے عدالتیں لازمی طور پر اسلامی قانون سے رہنمائی حاصل کریں گی۔ یعنی قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق پاکستانی عدالتیں فیصلے کریں گی۔

س: آپ کے خیال میں اس مقدمے میں ایسا نہیں کیا گیا اور ملکی قانون کو نظرانداز کیا گیا؟

ج: جی ہاں! عدالت نے عملاً اس دفعہ کو نظرانداز کیا ہے۔ اسی طرح دفعہ ۷۹ ت پ کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ دفعہ ۷۹ کے تحت ایسا کوئی فعل جرم کے زمرے میں نہیں آتا، جو کوئی واقعاتی غلطی کرنے والا دیانتداری سے سمجھتا ہو کہ وہ قانوناً ایسا کرنے کا حق رکھتا تھا۔ اس لیے میں ایک قانون دان کے طور پر سمجھتا ہوں کہ قانونِ ناموسِ رسالت پر حملہ آور ہونے والے کو قتل کرنے کا قانون حق دیتا ہے۔ اس ناتے ممتاز قادری نے اپنی قانونی ذمہ داری انجام دی ہے۔ اگر عدالت ان دونوں دفعات کی روح کے مطابق فیصلہ کرتی تو ممتاز قادری کو مجرم قرار نہ دیتی۔ خطا فی القصد دفعہ۷۹ کی روح کے مطابق ہے۔

س: برصغیر کی تاریخ میں ایسی کیس کی ایک مثال غازی عَلم دین کی بھی تو ہے۔ آپ ان دونوں مقدمات میں کیا مماثلت اور فرق دیکھتے ہیں؟

ج: غازی علم دین شہید کے حوالے سے کیس کا فیصلہ برطانوی قانون کے تحت غیر مسلم ججوں نے دیا تھا۔ جبکہ ممتاز قادری کیس کا فیصلہ پاکستان میں رائج اسلامی قانون کے تحت مسلمان ججوں نے کرنا تھا۔ توقع تھی کہ ہمارے محترم جج صاحبان ملک میں نافذ العمل اسلامی قوانین اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ کریں گے۔ کیونکہ اسلام میں شاتمِ رسول کو ختم کر دینا جائز ہے۔ میں نے عدالت کے سامنے اس مفہوم کی کم و بیش پندرہ احادیث پیش کیں۔ ان میں سے پہلی یہ تھی کہ ’’جو کوئی تعزیر میں حد کی مثل سزا دے، وہ ظالموں میں سے ہے‘‘۔ جج صاحبان نے جب یہ حدیث سنی تو مجھے کہا ’’آپ ہمیں ظالم قرار دے رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا کہ یہ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں۔ میں ان میں تبدیلی نہیں کرسکتا ہوں۔ لیکن بعد ازاں جب عدالت نے فیصلہ لکھا تو اس حدیث یا کسی دوسری پیش کردہ حدیث کا فیصلے میں ذکر تک نہیں کیا۔

س: یعنی احادیث کو اس مقدمے میں دو مرتبہ نظرانداز کیا گیا؟

ج: جی ہاں! عملی طور پر ایسا ہی کیا گیا۔ جب قرآن و سنت کے حوالے عدالت کے سامنے پیش کیے گئے تو کہا گیا کہ یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے۔ یہ بات فیصلے کے پیرا نمبر دو میں لکھی گئی ہے۔ میری رائے میں یہ نقطۂ نظر قانوناً درست نہیں ہے۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل میں وہ معاملات لے جائے جاتے ہیں جن میں سے کسی موجودہ قانون کو اس بنا پر چیلنج کیا گیا ہو کہ وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ جن قوانین کو پہلے سے اسلامی سانچے میں ڈھالا جاچکا ہے، ان کے اطلاق اور تعبیر و تشریح کا حق ملک کی ہر متعلقہ عدالت کو حاصل ہے۔ یہ حق ٹرائل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک، ہر عدالت کا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہی کیس سپریم کورٹ کے کسی دوسرے بنچ کے سامنے لایا گیا تو اس سے مختلف اور درست فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔

س: پاکستان میں قتل کے مقدمات ہر روز زیرِ سماعت ہوتے ہیں۔ آپ کے خیال میں قتل کے مقدمات میں عام طور پر جو عدالتی اپروچ بروئے کار ہوتی ہے، کیا وہ اس مقدمے میں نہیں تھی؟

ج: ایک قانونی اور عدالتی اصطلاح ہے ’’فیورٹ چائلڈ‘‘۔ میں اس کا ترجمہ طفل پسندیدہ کے طور پر کرتا ہوں۔ اس کی روح یہ ہے کہ جرم سے نفرت تو جائز ہے، جرم کرنے والے سے نفرت مناسب نہیں۔ اسی وجہ سے کسی بھی مقدمے کو ملزم سے نفرت، تعصب یا بغض کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھایا جاتا۔ اگر کہیں ایسا کیا جائے تو اس پر شور ہوتا ہے، تنقید کی جاتی ہے کہ یہ عدالتی طریقے سے ہٹی ہوئی حرکت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عدالت میں ملزم کو یہ تسلّی دی جاتی ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس سارے عمل کو مبنی برانصاف اور انسان دوستی پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہ بھی عام عدالتی روایت ہے کہ جب کسی مقدمے میں موجود حقیقت کے دو مفاہیم نکلتے ہوں تو جو تعبیر یا مفہوم ملزم کے حق میں جاتا ہو، اسی کو اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ممتاز قادری کے مقدمے میں پاکستان کی ۶۵ سالہ عدالتی تاریخ اور روایت کے برعکس انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت کو ہر وہ بات زیادہ اپیل کرتی تھی جو استغاثے کے حق میں جاتی ہو۔ قانونی اور عدالتی مشاہدے یا تجربے میں اس طرح کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں آئی۔ عدالت نے اس کیس میں استغاثہ کو اپنے ’’فیورٹ چائلڈ‘‘ کے طور پر رکھا۔ اگر میرے اس نکتہ نظر پر کسی کو شبہ ہو تو وہ عدالتی فیصلے اور اس کیس کی پروسیڈنگ کے ریکارڈ پر نظر ڈال لے۔ ممتاز قادری کے خلاف سامنے آنے والا فیصلہ صاف طور پر ’’پروپراسیکیوشن‘‘ فیصلہ ہے۔ اس طرح کے فیصلے کی پہلے شاید کوئی نظیر نہیں ہو۔

س: اس مقدمے میں گواہوں کی تعداد کیا رہی اور انہیں پیش کرنے کا معاملہ کیسا رہا؟

ج: ایک مسلمہ ضرورت ہوتی ہے کہ استغاثہ اپنے مقدمہ کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرے۔ استغاثہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ گواہوں خصوصاً عینی شاہدین کو پیش کرے۔ لیکن اس مقدمے میں عجیب بات ہوئی کہ ایک طرف ایلیٹ فورس کے ۲۹ گواہوں کو پیش نہیں کیا گیا اور دوسری طرف سلمان تاثیر کے دوست وقاص شیخ جو اُن کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے ہوٹل گئے تھے اور آخری وقت تک ساتھ رہے، کو بھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود فیصلہ ممتاز قادری کے خلاف آگیا ہے۔ واضح رہے کہ وقاص شیخ کو استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے ابتدائی نقشے میں سلمان تاثیر کو گولی لگتے وقت صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر پوائنٹ نمبر تین پر دکھایا گیا تھا۔

س: اس قدر اہم گواہ، سلمان تاثیر کا انتہائی قریبی دوست اور موقع کا عینی شاہد بھی گواہ کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکا۔ مگر کیوں؟

ج: میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اسے اس لیے استغاثے نے پیش کرنے سے گریز کیا کہ اسے پیش کیا گیا تو وہ سلمان تاثیر کے اس آخری مکالمے کے بارے میں سب کچھ اُگلنے پر مجبور ہو سکتا ہے، جو سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کے درمیان ہوا اور جس میں سلمان تاثیر نے تحفظ ناموسِ رسالت قانون کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی تھی۔ شاید استغاثہ کو خطرہ تھا کہ وقاص شیخ کی گواہی ممتاز قادری کے حق میں چلی جائے گی۔

س: استغاثہ اگر عدالت میں گواہ پیش نہ کرسکے تو کیا اس کا فائدہ ملزم کو نہیں ہوتا؟

ج: اس بات کا نہ صرف ملزم کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس کی بریت کا ٹھوس جواز بن جاتا ہے۔ ممتاز قادری کے کیس میں اگرچہ استغاثہ نے تیس گواہوں کو پیش نہیں کیا، پھر بھی عدالت نے اس پر استغاثہ کے خلاف کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے بڑی خوشی سے یہ کہہ دیا کہ ملزم انہیں اپنے دفاع کے طور پر پیش کر دیتا۔ یعنی عدالت نے ہر بوجھ ملزم پر ڈالا اور استغاثہ کو اپنا کیس ثابت کرنے کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔

س: گواہوں کو پیش نہ کرنے کی وجہ کیا بتائی گئی؟

ج: ۲۹ گواہوں کی گواہی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ترک کر دیا اور وقاص شیخ کے بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ ان کا نام گواہوں سے کیوں خارج کیا گیا۔

س: اشتعال اور غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کے مقدمات کو عمومی طور پر عدالتوں میں کیسے ڈیل کیا جاتا ہے؟

ج: عمومی طور پر غیرت اور اشتعال کی بنیاد پر ہونے والے جرائم میں ملزمان کو انتہائی سزا نہیں دی جاتی۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو دو مقدماتِ قتل کی مثال دیتا ہوں۔ ایک عورت نے اپنے داماد کو کسی بات پر سرزنش کی تو داماد نے اسے اپنی توہین سمجھا اور اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے وہ بازار گیا اور چھری لاکر اپنی ساس کو قتل کر دیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے اشتعال میں آکر قتل کرنے کا مجرم مان کر پھانسی کے بجائے عمرقید کی سزا دی۔ ایک اور مقدمۂ قتل جس میں ایک صاحب نے ایک شخص کو صرف اس بنیاد پر قتل کر دیا کہ مقتول نے پشتو زبان میں کچھ ایسا کہا جسے وہ سمجھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن اسے محسوس ہوا کہ اس نے اسے برا بھلا کہا ہے۔ عدالت نے اس قاتل کو بھی سزائے موت نہیں دی، کہ ہوسکتا ہے کہ مقتول نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی جس سے اسے اشتعال آیا، لہٰذا عدالت نے قاتل کو سزائے قید سنائی۔

س: بطور وکیل آپ نے عدالت کو بتایا نہیں تھا کہ آپ کا موکل ناموسِ رسالت قانون کے بارے میں سلمان تاثیر کے موقف سے مشتعل ہوا تھا؟

ج: جی، بتایا تھا۔ ہمارا تو پورا کیس ہی یہ تھا۔ عدالت کو بھی خوب علم تھا۔ یہ بھی عدالت کے سامنے عرض کیا گیا کہ رسول اکرمﷺ کی شان میں توہین کسی مسلمان کو سب سے زیادہ مشتعل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک مسلمان کے لیے غیرت کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ جبکہ عام طور پر اشتعال اور غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کے واقعات میں عدالتیں سزائے موت نہیں دیتی ہیں۔

س: تو پھر کیا وجہ بنی کہ ذاتی توہین اور نجی غیرت کے معاملے میں انتہائی اقدام کی سزا کم، جبکہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کی توہین پر سزائے موت سنادی گئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ عدالت میں سابقہ روایات کی مثالیں پیش نہیں کرسکے؟

ج: یہ بات نہیں ہے۔ ہم نے اسلامی قانون کی مثالیں اور عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے اور یہ ثابت کیا کہ اسلامی قانون ہی ملک کا قانون ہے، جسے آئین نے تحفظ دے رکھا ہے۔ نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کا حوالہ بھی دیا، جس کے تحت اسلامی قانون ہی ملک کا حقیقی اور مؤثر قانون ہے اور دیگر تمام ملکی قوانین اس کے تابع ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیگر قوانین اور عدالتی فیصلوں کے بھی ہر ممکن حوالے پیش کیے۔ لیکن عدالت نے ہر پہلو سے بلاجواز طور پر استغاثہ کے حق میں بات کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے ممتاز قادری کو غیرت اور اشتعال کے حوالے سے ریلیف نہ دینے کا جواز یہ بنایا کہ مقتول کا توہینِ رسالت سے متعلق قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہنا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عدالت کے سامنے ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ اور ’’ایکسپریس‘‘ کو مارک ’’اے‘‘ اور ’’بی‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن عدالت نے کہہ دیا کہ یہ صرف بیانات ہیں۔ یہ کافی نہیں، اور یہ کہ اخبار نویسوں کو عدالت نہیں لایا گیا۔ ہم نے عدالت کے سامنے کئی عدالتی فیصلوں کے حوالے پیش کیے۔ ولی خان کیس، بے نظیر کیس اور نواز شریف کیس سمیت کئی کیسز میں عدالتی فیصلوں کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں عدالتیں یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ جس بیان یا خبر کی متعلقہ شخص تردید نہ کرے، تو ان اخباری بیانات کو درست سمجھا جائے گا۔ لیکن عدالت نے ان فیصلوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ سیاسی نوعیت کے کیس تھے۔ حالانکہ اصول یہ ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ سیاسی لوگوں اور عوام کے لیے علیحدہ لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کی جانب سے اس بنیادی اصول کی بھی فیصلے میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔

س: اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے؟ جن کی آپ نے مثالیں دی تھیں۔

ج: ایسا ہوا ہے۔ ایک اور بات عرض کرتا ہوں۔ اسی مقدمے میں اخبارات کو استغاثہ کے حق میں استعمال کیا گیا۔ عدالت کی طرف سے ریمارکس دیے گئے کہ سلمان تاثیر نے ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قانون کو کالا قانون کہا تھا اور اس تنقید کا حق موجود ہے۔ جب عدالت کی توجہ اس جانب دلائی گئی کہ یہ قانون ضیاء الحق کی ذہنی اختراع نہیں تھا، بلکہ یہ قانون قرآن و سنت سے لیا گیا تھا، اس لیے اسے تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ نیز یہ بھی دیکھا جانا چاہیے تھا کہ سلمان تاثیر کی طرف سے اس قانون پر تنقید نہیں بلکہ اس کی مذمت کی جارہی تھی۔ لیکن قابلِ احترام عدالت کے ججوں نے اس پر توجہ نہ کی اور عدالت کے سامنے پیش کردہ احادیث کو بھی فیصلہ لکھتے وقت نظرانداز کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پوچھا گیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں اس طرح کے معاملات کو کیسے ڈیل کیا جاتا تھا؟ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی توہینِ رسالت کرنے والوں کا انجام برا ہوتا رہا۔ بحرین کے ایک گستاخ پادری کی طرف سے توہینِ شانِ رسالت کرنے پر نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں اس کے قتل کا معاملہ حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے پیش ہوا تو آپؓ نے اس قتل کو درست قرار دیا۔ اس حوالے سے عدالت کے سامنے کئی تاریخی حوالے بھی پیش کیے گئے۔

س: لیکن عدالت نے وجہ عناد ثابت ہونے پر ہی سزا دی ہے۔

ج: وجہ عناد ثابت کیسے ہو گئی؟ وجہ عناد تو سلمان تاثیر کے بیٹے نے ایف آئی آر میں درج کرائی تھی کہ اس کے والد کو مخصوص خیالات کی وجہ سے مارا گیا اور ملزم نے مذہبی گروہوں کے ایما، انگیخت، معاونت اور سازش سے بہیمانہ طور پر قتل کیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس حوالے سے صرف دو علماء کو شاملِ تفتیش کیا گیا۔ ان میں سے ایک علامہ امتیاز تھے اور دوسرے علامہ محمد حنیف قریشی۔ ان دونوں کا جو بیان تفتیشی افسر نے عدالت میں ’’پی ڈبلیو۔۱۴‘‘ کے طور پر پیش کیا، اس کے مطابق ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر کیا ہے۔ یعنی یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔ لیکن اس کے باوجود قابلِ احترام عدالت کے ججوں نے لکھ دیا کہ وجہ عناد ثابت ہو گئی ہے۔ صرف یہی نہیں، سپریم کورٹ کے سامنے میں نے موقف پیش کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیرا گراف ۲۸ اور ۲۹ میں حضورِ اکرمؐ کے فیصلوں کو سنتِ نبویؐ نہیں مانا۔ یہ نکتۂ نظر سراسر غیرشرعی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ان پیراجات کو حذف کر دیں گے۔ لیکن اسے بعد ازاں وعدے کے مطابق حذف بھی نہیں کیا گیا۔ صرف یہی نہیں، عدالت نے تو اس کیس میں ہمارا مؤقف سننے کے لیے مناسب وقت بھی نہیں دیا۔ حد یہ ہوئی کہ کہا گیا کہ اپنا بیان تحریری طور پر دے دیں، بعد میں پڑھ لیں گے۔ لیکن بیان جمع کرانے کے بعد سماعت کے اختتام کو صرف بیس منٹ گزرے تھے کہ عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ سنا دیا اور تین پیپر بکس کمرۂ عدالت میں پڑے رہ گئے۔ یوں ہمارے دلائل کو سُنے اور پڑھے بغیر مختصر فیصلہ دے دیا گیا۔ اس مختصر فیصلے میں تفصیلی فیصلے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ حکومتی پراسیکیوٹر کا معاملہ یہ تھا کہ ایک روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب اسے بولنا تھا تو اس کی حالت دیدنی ہو گئی، اس سے بات نہیں ہو پارہی تھی۔ اس پر عدالت کے فاضل جج صاحبان نے پوچھا، کیا ہوا ہے آج آپ کو؟ تو پراسیکیوٹر کا جواب تھا کہ ڈر رہا ہوں کہیں کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکل جائے جو نبیؐ کی شفاعت سے محرومی کا سبب بن جائے۔

س: آپ کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ممتاز قادری کی بریت سے ملک میں مار دھاڑ کا راستہ کھل جائے گا؟

ج: یہ بات عدالت میں ایک سے زائد بار کہی گئی۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ریاستِ مدینہ کے قیام سے لے کر چودہ سو چھتیس ہجری تک ایسے گستاخوں اور ملعونوں کے قتل کے کُل چالیس واقعات ہوئے ہیں۔ جبکہ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ۸۰ کے قریب ملعونوں کو سزا دی گئی۔ ان عدالتی سزائوں میں لمبی فہرست اسپین کی ہے کہ وہاں دو سو چھتیس ہجری کے قریب ملعون پادریوں نے توہینِ رسالت کی ایک باقاعدہ مہم چلا رکھی تھی۔ اس لیے عدالتوں نے تریپن افراد کو سزائے موت دی۔ ان میں ملعون پادری بھی شامل تھے۔

س: برصغیر کی تاریخ اس حوالے سے کیا رہی؟

ج: یہ بھی اہم بات ہے کہ جس اکبر بادشاہ نے اپنا ’’دین‘‘ متعارف کرانے کی کوشش کی تھی، اس کے دور میں بھی قاضی القضا نے ایک ملعون کو توہینِ رسالت کرنے پر سزائے موت دی۔ یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ متھرا کے قاضی عبدالرحیم نے قاضی القضا کو ایک استغاثہ بھیجوایا۔ استغاثہ یہ تھا کہ اس علاقے میں مسلمانوں نے ایک مسجد کی تعمیر کے لیے تعمیراتی سامان اکٹھا کیا۔ اس تعمیراتی سامان کو ایک بدمعاش ہندو نے نہ صرف اٹھوالیا بلکہ اسی سامان سے ایک مندر کی تعمیر شروع کرا دی۔ متھرا کے قاضی نے لکھا جب میں نے اس ہندو کے خلاف عدالت میں کارروائی کرنا چاہی تو اس نے گواہوں کی موجودگی میں نبیٔ اکرمؐ کی شان میں توہین کی۔ استغاثہ موصول ہونے کے بعد قاضی القضا شیخ عبدالغنی نے اس ملزم کو طلب کیا، لیکن اس نے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ اکبر بادشاہ نے بیربل اور شیخ ابوالفضل کو بھجوایا اور وہ اسے لے آئے۔ شیخ ابوالفضل نے کچھ گواہوں سے جو سُنا تھا، وہ بیان کیا اور کہا کہ اسبات کی تحقیق ہو گئی ہے کہ اس نے توہینِ رسالت کی تھی۔ تاہم اسے سزا دینے کے حوالے سے علماء کے دو گروہ بن گئے۔ ایک نے اس ملعون ہندو کو واجب القتل قرار دیا جبکہ دوسرے گروہ نے سزائے قید پر زور دیا۔ قاضی القضا نے معاملہ بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو اکبر بادشاہ نے کہا کہ یہ شریعت کا معاملہ ہے۔ اس میں ہم سے کیا پوچھتے ہو؟ شاہی محل میں موجود بعض بیگمات نے بھی اس ہندو کی سفارش کی تھی۔ چنانچہ قاضی القضا کو دوبارہ بادشاہ سے رجوع کرنا پڑا۔ لیکن بادشاہ نے پھر وہی جواب دیا کہ جو مناسب سمجھو، خود فیصلہ کرو۔ اس کے بعد شیخ عبدالغنی نے اس ہندو کے قتل کا حکم سنا دیا اور اس کی گردن مار دی گئی۔ بعد ازاں مغلیہ دور میں ہی ایک اور واقعہ حقیقت رائے کو سزائے موت دینے کا پیش آیا۔ اس ملعون نے بھی شانِ رسالت اور سیدہ فاطمہ الزہرہ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اسے لاہور میں سزائے موت دی گئی۔ اس وقت لاہور کا گورنر زکریا خان تھا۔ سزائے موت دیتے ہوئے اس امر کی پروا نہ کی گئی کہ ہندو آبادی ناراض ہو گی، وجہ صرف نبیؐ سے محبت تھی، جسے حکومت نے بالاست مانا۔

س: آپ کے ساتھ وکلاء کی تو ایک ٹیم بھی شامل تھی؟

ج: میرے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف، چوہدری غلام مصطفی صاحب، محمد طاہر سلطان کھوکھر، عامر لطیف سبحانی، چوہدری خالد محمود، سید حبیب الحق، راجہ نوید عارف، ملک خالد اکمل اور چوہدری رمضان شامل تھے۔ ان سب دوستوں نے اپنے انداز میں خوب محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کیا۔

(بحوالہ: روزنامہ ’’اُمت‘‘ کراچی۔ ۱۶؍جنوری ۲۰۱۶ء)

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*