اس عہد کا بڑا مسئلہ کیا ہے؟ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’’گھٹ گئے انسان، بڑھ گئے سائے‘‘۔ انسان کی انسانیت روبہ زوال ہے۔ معاملہ ہر جگہ ایک جیسا ہے۔ امریکی سیاست میں آج اگر کوئی جارج واشگٹن، تھامس جیفرسن، ابراہام لنکن اور لیڈی روزویلٹ کو ڈھونڈنے نکلے تو اسے مایوسی ہوگی۔ وہاں بھی انسانیت کا قد اتنا کوتاہ ہو گیا ہے کہ کئی بانس باندھ کر بھی اونچا کیا جائے تو بمشکل جارج ڈبلیو بش جیسا کوئی بونا دکھائی دیتا ہے۔ اب تو بانس بھی کام نہیں دیتے۔ بش ہی کی پارٹی نے جس آدمی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ جی ہاں ڈونلڈ ٹرمپ جس نے ہوس پرستی، عیاشی، تعصب، نفرت کو بڑی ڈھٹائی سے اپنی شناخت بنایا ہے۔ عظیم انسان تو درکنار محض اس سطح کے لوگ بھی اب خال خال ملتے ہیں جن کو آدمی سمجھ کے کوئی ان کے پاس جا بیٹھے۔
انسان کو بڑا کیا چیز بناتی ہے؟ دولت؟ جی نہیں۔ دولت تو ٹرمپ کے پاس بہت ہے، لیکن مقاصد کی بلندی اور انسانیت کے جوہر سے وہ خالی ہے۔ مقاصد ہی سے انسان کی شخصیت سازی ہوتی ہے۔ مقاصد پست اور گھٹیا ہوں تو انسان کی انسانیت بھی اسی نسبت سے گر جاتی ہے۔ مقاصد میں پاکیزگی اور علویت نہ ہو تو عقلیں کوتاہ اور زبانیں لمبی ہو جاتی ہیں۔ چھوٹے لوگ بڑے نصب العین لے کر کبھی نہیں اٹھتے ہیں۔ ان کی تگ و دو چھوٹے مقاصد کے لیے ہوتی ہیں۔ ان کی ساری کائنات اپنی ذات اور اپنی خواہشات ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات کے اسیر اور اپنی اغراض کے بندے بن کر رہتے ہیں۔ عمران خان کو ہر حال میں وزیراعظم بننے کی خواہش نے بلندی سے گرا کر چھوٹا بنا دیا ہے۔
میں نے بارہا ۱۹ ویں صدی کے دوسرے عشرے سے بیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک کے عرصے پر نظر ڈالی۔ دورِ زوال اور عہدِ غلامی تھا، مگر اس عرصے میں پیدا ہونے والی شخصیات دیکھیں۔ سید جمال الدین افغانی، مفتی عبدہ، علامہ رشید رضا، قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی سے لے کر سید ابوالاعلیٰ مودودی، حسن البنا، شاہ عبدالعزیز بن سعود اور روح اللہ خمینی تک کتنی ہی ایسی شخصیات اسی عرصے کی پیداوار ہیں۔ انہوں نے اپنے افکار اور جدوجہد سے تاریخ کا دھارا موڑا۔ایک دور کو متاثر کیا اور آسمانِ عظمت پر جگمگائیں۔ ان کی دنیوی امیدیں قلیل تھیں اور ان کے مقاصد جلیل تھے۔ یہ امت اس کے بعد مقاصد کے اعتبار سے جب بلندی سے پھسلی تو اس کے نصیب میں جمال عبدالناصر، حافظ الاسد، صدام حسین، کرنل قذافی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگ لکھے گئے اور یہاں پاکستان میں ہم اس سے بھی نیچے آئے تو آصف علی زرداری، اسفندیارولی، محمود خان اچکزئی، شریف برادران، چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی، ڈاکٹر طاہر القادری، پرویز مشرف، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، شیخ رشید اور عمران خان جیسے لوگ ہمارے رہبر بن گئے۔
تحریکِ خلافت سے تحریکِ پاکستان تک صرف برصغیر کے مسلمانوں کو جو فکری و نظریاتی اور سیاسی قیادت ملی علم و مطالعہ، اخلاص اور بے لوثی، تہذیب و شائستگی، شوقِ تعمیر اور جوشِ ترقی، گرہ کشائی اور تدبیر کاری جیسی اعلیٰ صفات اس کا طرۂ امتیاز تھیں۔ ان کے دل قوم و ملت کے درد سے سرشار تھے۔ ان میں بیک وقت دانش و فکر کی روشنی بھی تھی اور سیاسی قیادت کا جوہر بھی۔ وہ منبر و محراب اور قلم و قرطاس اور میدانِ عمل میں بیک وقت اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اکثر کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کا سابقہ لگا ملتا ہے لیکن وہ نرے مولوی نہیں تھے۔ اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید اعلیٰ تعلیم سے مزین تھے۔ انہوں نے سیاست کو وقار بخشا اور صحافت کو چار چاند لگائے۔ شاعری کو ان سے وزن ملا، ادب نے ان سے توقیر پائی اور دانش و فکر ان کے دم سے بااعتبار ہوئی۔
وہ بڑی جرأت کے ساتھ جبر استبداد کی مسلط قوتوں سے ٹکرائے تھے۔ حق گوئی و بے باکی ان اللہ کے شیروں کا وصفِ خاص تھا۔ اس وصف کے لیے دامن کا حرص و ہوس سے پاک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ سیاست ان کے نزدیک کچھ پانے اور مال بنانے کا نہیں بلکہ اپنا بہت کچھ گنوانے کا نام تھا۔ انہوں نے تو اپنا بہت کچھ بنا بنایا بھی سیاست میں آکر قومی مقاصد پر نچھاور کردیا تھا۔ علی برادران، مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی جیسے رہنماؤں نے قوم کی خاطر اپنا آرام و آسائش تج کیا، اپنی صحت بگاڑی، جیلیں کاٹیں، اپنے اخبار بند کرائے، جرمانے بھرے، گھر بار لٹائے، تنگیاں دیکھیں، عسرتوں سے گزرے، وطن سے بے وطن ہوئے۔ مولانا محمد علی جوہر کا حال یہ تھا کہ ملتِ اسلامیہ کے کسی حصے پر بھی کوئی افتاد پڑتی تو مضطرب اور بے قرار ہو جاتے تھے۔ فطرت میں جرأت و بے باکی ایسی تھی کہ گول میز کانفرنس میں گئے تو فرنگی استعمار کو اس کے گھر میں للکارا کہ مجھے غلام ملک میں دفن ہونا گوارا نہیں ہے۔ مجھے یا تو آزادی دینی ہوگی یا مجھے ہندوستان سے باہر قبر کی جگہ۔ اور اسی سفر میں بیمار ہوئے، بلکہ بیماری کی حالت میں واپسی کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا۔ راستے میں طبیعت بگڑی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ مسجد اقصیٰ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آج بھی شاید کوئی ڈھونڈے تو وہاں کسی کو عربی عبارت والی لوحِ مزار مل جائے گی، جس کا ترجمہ ہے ’یہاں السیّد محمد علی جوہر الہندی مدفون ہیں‘۔
آج ہماری سیاست میں بھائیوں کی کئی جوڑیاں ہیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی جوڑی ہو یا تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں بیٹھے ہوئے اسد عمر اور زبیر عمر کی۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطاالرحمن بھی دو بھائی ہیں۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی اگرچہ کزن ہیں لیکن بھائی ہی مشہور ہیں اور چوہدری برادران ہی کہلاتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ ان کے ساتھ جب علی برادران مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی… کا خیال آتا ہے تو بے ساختہ زبان پر ’چہ نسبت خال رابہ عالم پاک‘ کے الفاظ آجاتے ہیں۔ علی برادران کی طرف دھیان جائے تو ان کی عظیم ماں کا وہ قول سامنے آجاتا ہے جسے تاریخ نے سنہری حروف میں زیبِ اوراق بنایا ہوا ہے۔ ’’بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔ یعنی مقاصد کی بلندی انہیں آغوشِ مادر میں مل گئی تھی۔ آج ہمارے سارے سیاستدانوں کو کسی امتحان گاہ میں بٹھا کر سیاست و صحافت کی آبرو ان شخصیات کے بارے میں پوچھیں، شاید دوچار بھی ان کے بارے میں جاننے والے نہیں نکلیں گے۔
اور وہ محمد علی جناح! کیا چیز تھی جس نے ان کو منفرد و ممتاز بنا دیا تھا؟ اخلاص اور بے لوثی، اصول پسندی۔ سیاست کی تو، بے غرضی کے ساتھ۔ گہرے غور و فکر کے بعد جب ایک موقف قائم کرلیتے تھے تو پھر چٹان کی طرح اس پر جم جاتے تھے۔ نہ شعلہ بیانی اور نہ دھواں دھاری۔ نہ بے موقع و بے معنی الفاظ کا استعمال۔ دوٹوک اور واضح نقطہ نظر۔ مقابل میں ایک طرف نہرو، گاندھی اور پٹیل کی صورت میں چانکیائی ذہنیت تھی اور دوسری طرف گھاگ اور شاطر انگریز قوم۔ لیکن انہوں نے اپنی بصیرت سے ان سب کو مات دی۔ دلیل کی قوت اور موقف کی صداقت سے ہندوستان کے جغرافیائی ڈھانچے کے اندر سے پاکستان کے نام کا آزاد اور خودمختار ملک حاصل کرلیا تھا۔ سوچ سمجھ کر جو رائے قائم کرلیتے تھے اس پر ڈٹ جاتے تھے۔ نہ کوئی انہیں خرید سکا اور نہ جھکا اور دبا سکا۔ ان کو ہوسِ اقتدار اور حرص مال و زر کھینچ کر سیاست میں نہیں لائی تھی۔ سیاست ان کی نظر میں قومی خدمت تھی اور اس خدمت کو وہ عبادت سمجھتے تھے۔ ان کے سخت ترین مخالف بھی ان کی ساکھ (credibility) کا اعتراف کرتے تھے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔ قائداعظمؒ نے جس ملک کی تشکیل کا بیڑا اٹھایا تھا اس کا تصور اقبالؒ ہی نے دیا اور اقبالؒ ہی نے قائداعظمؒ کو مسلمانانِ پاک و ہند کی قیادت پر آمادہ کیا تھا۔
سیاست کو یہ جو آج ہم گھن لگا دیکھتے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قوم کی خدمت کا وسیلہ نہیں بلکہ جاہ و حشمت اور دولت و ثروت اور سماجی مراتب اور وقار کا ذریعہ بن گئی ہے۔ یہ منفعت کا سودا بنی تو سیاست دانوں میں خودغرضی، ابن الوقتی اور موقع پرستی پیدا ہوگئی۔ انہوں نے سیاست کو کاروبار اور پھر اس کاروبار کو موروثی چیز بنالیا تاکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی سیاست کی منفعتیں سمیٹتی رہیں۔ ہر سیاست دان خاندانی وراثت کی طرح اپنی سیاسی حیثیت بھی اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرتا ہے۔ سیاست میں مسابقت اب سیاسی منشور کی بنیاد پر نہیں بلکہ مقابلہ بدعنوانی میں ہو رہا ہے۔ مال بنانا کرپشن کی ایک صورت ہے۔ سیاست دانوں کی فطرت کے فساد کا ایک نتیجہ ہے۔
عمران خان شاید زرداری، شریف برادران، چوہدری برادران، اسفندیارولی اور مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں زیادہ پاک دامن ہوں لیکن ان کی وزیراعظم بننے کی طوفانی خواہش اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے چنے گئے راستے انہیں اسی سطح پر لے گئے ہیں، جس سطح کے لوگوں سے بزعمِ خود وہ قوم کو نجات دینے نکلے تھے۔ نفرت، بغض، عداوت اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر حد کو پار کر جانے والی ضد نے عمران خان کے دامن کو کئی اور طریقوں سے داغ دار کردیا ہے۔ خان صاحب نے جن کو اپنا حریف قرار دے کر ان کےپیچھے ’کرپٹ کرپٹ‘ کا ڈھول پیٹنا شروع کیا، ان کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے اپنے ان حریفوں سے بھی بڑے کرپٹ اور گندے لوگوں کو ساتھ ملا لیا ہے۔ ان میں اگر کبھی ایک ’رجلِ رشید‘ کی کوئی ایک صفت تھی بھی تو وہ اسے شیخ رشید جیسے لوگوں کی رفاقت و صحبت میں گنوا بیٹھے ہیں۔ وہ سارے جھوٹ جو عمران خان کے کیمپ میں بولے جاتے ہیں، سارا مبالغہ جس سے وہاں کام لیا جاتا ہے اور وہ ساری گالی گلوچ، تہمت بازی اور الزام تراشی جو ان کے جلسوں میں کی جاتی ہے اور وہ ساری کیچڑ جو وہاں سے اچھالی جاتی ہے وہ اپنی طرز کی ایک گھناؤنی اور مکروہ کرپشن بن گئی ہے۔ قوم نے سوچا تھا کہ شاید قحط الرجال کے موسمِ خزاں میں عمران خان کی صورت میں ایک پھول کِھل اٹھے وہ سوچ حسرت بن گئی اور معاملہ وہیں قحط الرجال پر ٹھہر گیا ہے۔
(بحوالہ: “munir-khalili.blogspot.com”۔ ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply