چین کی جدید ترقی اور خوشحالی کی ایک منفی تصویر دارالحکومت، بیجنگ کے جنوب مشرق میں واقع چین کا صوبہ، چانگشی ہے۔ بدعنوانی، آلودگی، کوئلے اور معدنیات کی کانوں میں آئے روز ہونے والے جان لیوا دھماکے اس کی پہچان ہیں۔ تاہم یہ صوبہ چین کی قدیم اور بھرپور تاریخ کا بھی عکاس ہے۔ یہاں متعدد عجائب گھر زیر تعمیر ہیں، جن کے نقشے مشہور ماہر تعمیر، سرنورمن فوسٹر کے ساتھ دنیا بھر کے معروف ترین ماہرینِ تعمیرات نے بنائے ہیں۔ یہ عجائب گھر ۲۰۱۳ء تک عوامی نمائش کے لیے مکمل ہوں گے۔ سرفوسٹر کا ڈیزائن کردہ ’’ڈیٹونگ آرٹ میوزیم‘‘ ڈیٹونگ شہر کے ۵۰۰ ملین ڈالر کے ثقافتی ترقیاتی منصوبے کا محور اور چین میں عجائب گھروں کی تعمیر کے جنون کی واضح مثال ہے۔ چین ہمیشہ سے ایسے منفرد کام سرانجام دیتا ہے جس کے مقابلے میں دیگر ممالک کی ان ہی سے مماثل چیزیں خاصی پست قامت نظر آتی ہیں۔ چین میں ۲۰۱۱ء میں اوسطاً ہر روز ایک نیا عجائب گھر کھولا گیا، اور اس طرح یہاں ۲۰۱۱ء سے اب تک عجائب گھروں کی تعداد ۳۴۱۵ ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ ۲۰۱۵ء تک عجائب گھروں کی تعداد کو ۳۵۰۰ تک لے جانے کا ہدف باآسانی پورا ہو جائے گا۔ اتنی تعداد میں عجائب گھروں کی تعمیر دراصل ایک پنج سالہ قومی منصوبے کا حصہ ہے۔ جی ہاں، آپ حیران نہ ہوں، کیونکہ کمیونسٹ حکومت کی مرکزی منصوبہ بندی میں عجائب گھروں کی تعمیر بھی شامل ہوتی ہے اور اب پیشہ ورانہ دوڑ اور شان و شوکت کے اظہار کی خواہش نے جیسے اس جنون میں روح پھونک رکھی ہے۔
چین کی منزو یونیورسٹی میں بشریات اور عجائب گھروں کے مطالعے کے پروفیسر پین شویونگ کے مطابق مقامی افسران اپنے تجزیوں میںشہری ترقی پر غور و فکر کرتے ہیں، تاہم بعض مہنگے ترین منصوبوں کی شہری اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ چین کے سب سے غریب صوبوں میں سے ایک ننگشیا کے دارالحکومت یان چولان میں زیر تعمیر ’یلور یور آرٹ سینٹر‘ پر تقریباً ۲۸۰ ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئے گی اور اس کی تعمیر ۲۰۱۳ء سے شروع ہوگی۔ یہ ایک عظیم رئیل اسٹیٹ ترقیاتی منصوبے کا حصہ ہے، جیسا کہ پین شویونگ کا کہنا ہے کہ عجائب گھروں کی تعمیر سے ان کے قرب و جوار میں زمین کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مگر کچھ منصوبے (حیران کن طور پر) انتہائی لاجواب ہیں۔
شنگھائی میں یانگ شائورینگ نے اپنے گھر میں خواتین کے تین انچ کے جوتوں کے ہزاروں جوڑے نمائش کے لیے رکھے ہیں، جنہیں ’بائونڈ فیٹ‘ خواتین کے لیے تیار کیاگیا ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں، جو امارت و حسن کے اظہار کے لیے مخصوص طریقوں سے اپنے پیر مڑوا کر نہایت چھوٹے کروا لیتی ہیں، مگر دورِ جدید میں اس عمل پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
’چائنا میوزیمز‘ کی معاون ایڈیٹر اور تجربہ کار گائیڈ میریم کلیفورڈ مہم جوئی کے متلاشیوں کو ژیان ڈونگ صوبے کے ایک گائوں ’فیونیریری ہورسز میوزیم آف دا ایسٹرن ژو‘ کے دورے کی دعوت دیتی ہیں، جہاں تقریبا ۶۰۰ گھوڑوں کی قربانی اس لیے دی گئی تھی کہ وہ ’قی شاہی سلسلے‘ کے ایک بادشاہ کے ساتھ وہ بھی سفر آخرت پر روانہ ہو سکیں (ان گھوڑوں کو غالباً نشہ دے کر زندہ دفن کر دیا گیا تھا) یہ بھی حقیقت ہے کہ چند سیاسی وجوہ کی بنا پر عجائب گھر ماضی قریب کی تاریخ کے اصل حقائق سے پردہ اٹھانے میں کچھ خاص کردار ادا نہیں کر رہے اور ان کی ایک واضح مثال بیجنگ میں تیان من اسکوائر کے قریب واقع ’’نیشنل میوزیم آف چائنا‘‘ ہے، جہاں آنے والوں کو مائودور میں لوگوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا اور نہ ہی یہاں تیان من اسکوائر میں ۱۹۸۹ء میں پیش آنے والے خوں ریز سانحے کا کوئی تذکرہ ہے کہ جب سیکڑوں نوجوانوں کو ٹینکوں تلے کچل کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
(مضمون نگار ’’دی اکنامسٹ‘‘ چین میں نامہ نگار ہیں)
(بحوالہ: ’’کیسا ہو گا ۲۰۱۳ئـ)
Leave a Reply