
مشرقی اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کے علوم میں غیر معمولی مہارت کے حامل معروف برطانوی نژاد امریکی اسکالر برنارڈ لیوئس نے اپنے ایک مضمون میں ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور پھر یہ اصطلاح دنیا بھر میں اس حوالے سے سوچنے، لکھنے اور بولنے والوں کے حواس پر چھاگئی۔ برنارڈ لیوئس نے زندگی بھر مغرب اور اسلام کی مخاصمت کے حوالے سے لکھا۔ ۱۹۳۳ء میں انہوں نے ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے زیر عنوان کتاب لکھی۔ زیر نظر مضمون اِس کتاب کے متعدد اقتباسات اور برنارڈ لیوئس کے انٹرویوز سے لیے گئے نکات پر مشتمل ہے۔ برنارڈ لیوئس ۱۹۱۶ء میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال ۲۰۱۸ء میں ہوا۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے اپنے ایک خط میں مذہب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا ’’ہم حکومتوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اتحاد میں برکت ہے اور اگر آپس میں تفرقہ پھیلاؤگے تو تباہ ہو جاؤگے مگر جب مذہب کی بات آجائے تو اس کے برعکس کہنا پڑتا ہے یعنی جتنے منقسم رہو گے اتنی ہی ترقی کروگے!‘‘
اپنے اس جملے میں جیفرسن نے کلاسیکی اختصار کے ساتھ جو بیان کیا ہے اسے عام طور پر امریکی خیال تصور کیا جاتا ہے یعنی کلیسا اور ریاست کی علیحدگی۔ جیفرسن کا پیش کردہ خیال ظاہر ہے بالکل نیا تو نہیں تھا۔ اس سے قبل یہ خیال ہمیں جان لاک، اسپنوزا اور دیگر بہت سے یورپی اہل دانش کی تحریروں میں ملتا ہے۔ یہ البتہ سچ ہے کہ اس مقولے یا نظریے کو سب سے پہلے قانون کے ذریعے طاقت امریکا میں فراہم کی گئی۔ دو صدیوں کے تفاعل کے بعد اب یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکا ہے۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی کا تصور محض تین سو سال پرانا ہے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی خود عیسائیت۔ عیسائیوں کے صحائف میں واضح طور پر آپ کو یہ ملے گا کہ ’’سیزر کے ذمے جو کام ہیں وہ اسے کرنے دو، اور خدا کو اس کے حصے کے کام‘‘۔
اس کی تشریح میں تو اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ دونوں ادارے ایک دوسرے سے جدا اور متوازی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا دائرۂ فکر و عمل ہے، اپنی راہیں اور قوانین ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کے مخصوص انداز بھی۔ ایک کا تعلق اعتقادات و عبادات کی دنیا سے ہے جسے مذہب کہتے ہیں جبکہ دوسرے کا تعلق معاشرے اور اس سے انسان کے ربط سے ہے جسے سیاست کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ دونوں ادارے اپنا علیحدہ وجود رکھتے ہیں لہٰذا انہیں کسی وقت ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے میں ضم بھی کیا جاسکتا ہے یا پھر ان کی علیحدہ شناخت برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ماتحت بھی ہوسکتے ہیں تاکہ بہتر تفاعل ممکن ہو تاہم اس طرح بعض اوقات دونوں کے درمیان حدود اور اختیارات کا تنازع پیدا ہوتا ہے۔
مذہب اور سیاست کے درمیان پیدا ہونے والے اس تنازع کا جو حل عیسائیت نے پیش کیا ہے، یعنی یہ کہ دونوں کو علیحدہ رکھا جائے اور ان کی حدود متعین کردی جائیں، بظاہر مؤثر نظر آتا ہے تاہم یہ حل عالمگیر، اصولی اور حتمی ہرگز نہیں۔ دنیا میں ہمیں مذہبی روایت کی حامل ایسی دیگر تہذیبیں بھی ملتی ہیں جن میں ان دونوں اداروں کے تعلق کو ایک مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی جانب سے پیش کردہ حل یقینا مغرب سے بالکل جدا ہے۔ اعلیٰ و ارفع ہونے کے باوجود ان مذاہب کی جانب سے پیش کردہ حل ان کی مخصوص جغرافیائی حدود، ماحول، ثقافت یا پھر مخصوص گروہ تک ہی محدود رہا اور کبھی عالمگیر نہ بن سکا۔ ہمیں صرف ایک ایسی تاریخی و مذہبی روایت نظر آتی ہے جسے اپنے عالمگیر پھیلاؤ، سکت اور آفاقی امنگ کی بدولت عیسائیت کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ ہے اسلام۔
اسلام دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک ہے۔ اسلام کے مؤرخ کی حیثیت سے میں اس کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اسلام نے دنیا میں کروڑوں خواتین و حضرات کو ذہنی اور روحانی سکون فراہم کیا ہے۔ اس کی بدولت بے جان جسم زندگی کی حرارت سے آشنا ہوئے اور خستہ حالوں کو عزت ملی۔ اسلام نے مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھائی چارے کے ساتھ رہنا سکھایا اور دیگر عقائد رکھنے والے افراد کو برداشت کرنے کی تعلیم بھی دی۔ اس کی بدولت ایک ایسا معاشرہ استوار ہوا جہاں مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے ایک ساتھ رہتے تھے۔ اس ماحول نے تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جس نے اپنی مساعی اور نتائج سے دنیا کو مالا مال کردیا۔ دیگر مذاہب کی طرح، ایک فطری امر کے طور پر، اسلام کے ماننے والوں پر بھی ایک ایسا وقت آیا جب چند گروہوں میں نفرت اور تشدد کے جذبات نے جڑ پکڑلی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس نفرت اور تشدد کا بلا واسطہ ہدف ہم ہیں۔
یہ معاملہ مبالغہ آرائی سے گریز کا متقاضی ہے۔ تمام مسلم خطوں میں مغرب کو رد کرنے کا فیصلہ اجماعی نہیں اور نہ ہی تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے مسلم ممالک میں مغرب کے خلاف سب سے زیادہ عداوت پائی جاتی ہے۔ ایسے مسلمان بڑی تعداد میں ہیں جن سے ہم ثقافتی، اخلاقی، سماجی و سیاسی عقائد اور خواہشات کا اشتراک رکھتے ہیں اور کئی مسلم ممالک میں مغربی تہذیب واضح طور پر موجود ہے۔ امریکی پالیسیوں کو پوری مسلم دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، جیسی مزاحمت کا سامنا اسے جنوب مشرقی ایشیا یا پھر وسطی امریکا میں کرنا پڑا ہے۔
بعض اوقات جارحیت کا یہ اظہار مخصوص مفادات، افعال اور پالیسیوں کے علاوہ کلی طور پر مغربی تہذیب کی تردید کا ذریعہ بن جاتا ہے یعنی یہ نفرت مغربی تہذیب کے تمام پہلوؤں سے ہوتی ہے۔ مغرب کو بدی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جو لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں یا اسے قبول کرتے ہیں لوگ انہیں ’’خدا کا دشمن‘‘ قرار دیتے ہیں۔
یہ خیال کہ خدا بھی دشمن رکھتا ہے اور ان دشمنوں کی نشاندہی اور خاتمے کے لیے اسے انسانی مدد کی ضرورت پڑتی ہے، مشکل سے ہضم ہوتا ہے۔ ’’خدا کے دشمنوں‘‘کا تصور عیسائیوں کے عہدِ قدیم میں ملتا ہے یعنی عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں میں یہ اصطلاحیں ملتی ہیں۔ قرآن میں بھی خدا کے دشمنوں کا ذکر شاید کسی اور تناظر میں ہے۔
اسی خیال سے مماثل نظریات ان مذاہب میں بھی ملتے ہیں جو ثنویت (dualism) کے قائل ہیں جیسا کہ قدیم ایران میں رائج زرتشت ازم یعنی آتش پرستی۔ ایرانی ’’تکوینِ کائنات‘‘ (Cosmogony) کے مطابق کائناتی قوتوں کا سرچشمہ دو ہستیاں ہیں … یزداں اور اہرمن۔ یہ دونوں قوتیں اپنا جداگانہ وجود رکھتی ہیں۔ کائنات پر متصرف ہونے اور اِسے چلانے کے معاملے میں یزداں کے مقابل اہرمن ہے۔ یزداں خیر کا خدا ہے اور اہرمن شر کا۔ خیر اور شر کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے۔ دوسری طرف یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے تصورِ ابلیس یا بدی کے مطابق وہ خود خدا کی تخلیق ہے اور اسے انسانوں کو بہکانے کے لیے مہلت دی گئی ہے اور اس کے فریب سے بچنا انسانی کردار کی بلندی کی ضامن ہے۔
اگر ہم اسلام کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ قرآن انتہائی سختی سے وحدانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ کسی ایسی ہستی یا قوت کا تصور بھی پیش نہیں کرتا جو پوری کائنات میں خدا کے مقابل ہو۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق نیکی اور بدی کا میدان جنگ انسان کا دل ہے۔ انسانی دل میں ہمہ وقت جذبات ، ترغیبات اور خدا کے احکامات کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ اسلامی تفہیمات میں اس جدوجہد کو بھی خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دراصل یہ سب کچھ انسان کے امتحان کے لیے ہے۔ خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ نیکی اور بدی کی اس کشاکش و کشمکش میں انسان کس سمت بڑھتا ہے۔ بہرحال اتنی واضح تعلیمات کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے یہودیت اور عیسایت اور اب اسلام کی تعلیمات میں بھی، عملی سطح پر، قدیم ایرانی تصورات شامل ہوچکے ہیں۔
جب اسلام نے غلبہ اختیار کیا تو نیکی اور بدی کے اس تصور کو سیاسی اور عسکری جہت و تقویت بھی مل گئی۔ محمدؐ دیگر بانیان مذاہب کی مانند صرف ایک نبی یا معلم نہیں تھے بلکہ وہ ایک ریاست اور ایک مسلم معاشرے کے سربراہ اور سپہ سالار بھی تھے۔ اسلامی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد اب جنگیں ریاستی سرپرستی میں لڑی جانے لگی تھیں اور مسلمانوں نے جتنی بھی جنگوں میں حصہ لیا وہ سب کی سب ’’فی سبیل اللہ‘‘ یعنی اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف تھیں۔ مسلمانوں کا تصور حاکمیت یہ ہے کہ حکومت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور سربراہ حکومت دراصل وہ ذمہ داری نبھا رہا ہوتا ہے جو اس پر ان قوانین کی رو سے عائد کی گئی ہے۔ اسی لیے تمام جنگیں اسی نظریے کی بنیاد پر اور اسی کی سربلندی کے لیے لڑی گئیں۔
دنیا کے تمام معاشرے انسانی گروہوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ کہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم پائی جاتی ہے اور کہیں زبان کی بنیاد پر۔ کہیں مقامی و غیر مقامی کا سوال اٹھتا ہے۔ اسلام کے کلاسیکی نظریے کے مطابق تمام دنیا کو دو واضح گروہوں میں منقسم کیا گیا۔ ایک ہے دارالاسلام یعنی وہ پورا خطہ جہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور دوم دارالکفر یعنی خارج از اسلام خطہ۔ اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دارالکفر کو بھی دارالاسلام میں تبدیل کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کرے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ دارالاسلام کی تعریف یا حدود سے باہر ہے اور جہاں اسلام موجود ہے وہاں بھی یہ اپنے اصل خد و خال کھوچکا ہے۔ اس کے قوانین بُری طرح مسخ کردیے گئے ہیں۔ اسلام کی تبلیغ اور اس کا پھیلانا چونکہ ہر مسلمان پر فرض ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کا آغاز گھر ہی سے کیا جائے یعنی دارالاسلام کو درست کیا جائے۔
دیگر تمام تہذیبوں کی طرح اسلام بھی اپنے دور عروج میں علوم و فنون، روشن خیالی، صداقت و امانت اور صنعت و حرفت کا مرکز تھا۔ اس کے اطراف غیر مسلم وحشی اقوام آباد تھیں۔ اسلامی تہذیب کے جنوب اور مشرق میں جو اقوام آباد تھیں وہ یا تو مشرک تھے یا پھر بت پرست۔ ان تہذیبوں کا اسلام سے کوئی مقابلہ نہ تھا اور نہ ہی اسلام کو ان سے کوئی خطرہ لاحق تھا۔ شمال اور مغرب میں ایک ایسی تہذیب اس وقت موجود تھی جسے مسلمان اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے حالانکہ اس وقت بھی وہ اسلام کے مقابلے میں جغرافیائی طور پر کافی محدود ہوچکی تھی تاہم اسلام کی طرح وہ بھی الہامی پیغام رکھنے کے دعوے دار تھے۔ یہ تہذیب یورپ میں عیسائی بادشاہت کے روپ میں موجود تھی۔
اسلام اور یورپ کے درمیان اس رقابت کو ۱۴ صدیاں بیت چکی ہیں۔ اس عداوت و کشمکش کی ابتدا ساتویں صدی عیسویں میں اسلام کے آغاز سے ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ ان چودہ سو برسوں میں حملوں، جوابی حملوں، جہاد، صلیبی جنگوں اور فتوحات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ پہلے ہزار برس اسلام کی پیش قدمی کے ہیں جس کے دوران عیسائیت پسپا اور مغلوب نظر آتی ہے۔ اسلام نے عیسائیوں کے زیر تسلط بہت سا علاقہ (شام، لبنان اور جنوبی افریقا) فتح کرلیا تھا۔ پھر یورپ پر بھی یلغار کی گئی اور کچھ عرصہ سسلی، اسپین، پرتگال اور فرانس کے کچھ علاقوں پر بھی حکمرانی کی۔ صلیبیوں کی جانب سے مسلمانوں سے زیر تسلط عیسائی علاقوں کو بازیاب کرانے کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں۔
گزشتہ تین صدیوں کے دوران ایشیا اور افریقا میں یورپی نو آبادیوں کے قیام اور یورپی تسلط کے بڑھنے پر مسلمان دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ بالخصوص ۱۶۸۳ء میں ترک مسلمانوں کی طرف سے ویانا کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد سے تو مسلمانوں نے گویا ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس عرصے میں یورپ سے نکلنے والی عیسائی تہذیب یا اس سے متاثر دیگر تہذیبوں نے گویا دنیا کو زیر نگیں کرلیا ہے اور اسلامی خطے بھی اس میں شامل ہیں۔
ہاں، البتہ اب پھر کچھ عرصے سے اسلامی اقدار اور عظمت کے احیا اور یورپی حاکمیت کے خلاف پوری دنیا میں اور بالخصوص جہاں جہاں مسلم اکثریت میں ہیں، بغاوت کی سی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔ مسلمانوں کو پے در پے کئی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک وقت تھا جب دنیا پر ان کی حکمرانی تھی جو رفتہ رفتہ روس اورمغربی طاقتوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ممالک میں بھی مغربی تہذیب کی یلغار کا سامنا ہے۔ نئی تہذیب نئے قوانین اور نئی طرزِ حکومت ساتھ لائی۔ جن مسلم ممالک پر غیر ملکی قابض رہے اُن کی غیر مسلم آبادیوں میں بھی آزادی کا احساس ابھرا۔ نئی تہذیب کے اثرات کے باعث عمومی سطح پر مسلمانوں کو درپیش ایک اور بہت بڑی مشکل یہ تھی کہ خواتین اور نوجوان آزاد خیال ہوگئے۔ یہ سب کچھ عام مسلمانوں کے لیے یکسر ناقابل برداشت تھا جس کے باعث وہ اس اجنبی اور ناقابل فہم طاقت سے، جس نے ان کی حاکمیت کا خاتمہ کیا اور ان کے معاشرتی نظام کو پلٹ کر رکھ دیا اور گھر کا تقدس پامال کیا، نفرت کرنے لگے۔
امریکا کی دریافت اور تخلیق میں دیگر اقوام نے بھی حصہ لیا۔ امریکا اپنے سماجی، سیاسی اور معاشرتی ارتقا کے عمل میں یورپ سے بے پناہ مختلف نظر آتا تھا تاہم عمومی سطح پر اُسے یورپی شناخت ہی ملی۔ باقی دنیا امریکا اور یورپ کو ایک یا پھر ایک دوسرے کا عکس سمجھتی ہے۔ یورپ نے امریکا کو صرف زبان ہی نہیں دی بلکہ اسے رہن سہن کے آداب بھی سکھائے اور مذہبی تعلیمات سے بھی بہرہ مند کیا۔ جب امریکا میں آباد کاری شروع ہوئی تو وہاں سکونت اختیار کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق یورپ ہی سے تھا۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے مسلم علاقوں سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے نئی دنیا کی جانب ہجرت کی لیکن ان میں زیادہ تعداد عیسائیوں یا پھر ان علاقوں میں بسنے والے یہودیوں کی تھی۔ مسلمانوں کی قلیل تعداد ہی امریکا منتقل ہوئی۔ یورپ سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی نقل مکانی نے امریکا کے یورپی تشخص کو باضابطہ شکل دے دی۔
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں اسلامی ادیبات میں امریکا کا ذکر شاذ ہی ملتا ہے۔ جب امریکا نیا نیا دریافت ہوا تھا تب تو شاید مسلمانوں میں تجسس موجود تھا۔ اس کا اندازہ ہمیں کولمبس کے امریکی نقشے سے ملتا ہے، جو ترکی میں ترجمہ کیا گیا تھا اور آج بھی استنبول کے ایک عجائب گھر میں موجود ہے۔ اس کے بعد سولھویں صدی میں ترک زبان ہی میں کتاب ’’مغربی ہندوستان کی دریافت‘‘ لکھی گئی جو ایک ترکی جغرافیہ دان نے تحریر کی تھی۔ یہ ترکی میں شائع ہونے والی اولین کتب میں سے تھی۔ اس کے بعد دلچسپی ختم ہوتی چلی گئی اور ہمیں ترکی، عربی اور کسی بھی دوسری مسلم زبان میں امریکا کا کچھ خاص تذکرہ نہیں ملتا۔ اس کے بعد اٹھارویں صدی میں ہمیں ’’امریکی خانہ جنگی‘‘ کا احوال ملتا ہے جو یقیناً عربی زبان میں تحریر کیا گیا پہلا براہ راست مشاہدہ تھا کیونکہ مراکش کا سفیر امریکا میں موجود تھا۔ بعدازاں مراکش کے سلطان نے امریکا سے امن اور دوستی کا ایک معاہدہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہمیں امریکا اور دیگر مسلم ممالک کے روابط کا ذکر تواتر سے ملتا ہے۔ ان میں کچھ دوستانہ، کچھ جارحانہ اور کچھ تجارتی معاملات شامل ہیں۔
امریکی خانہ جنگی کے نتیجے میں ابھرنے والی نئی ریاست کا مکمل ادراک اس دور میں کسی مسلم حکومت نے نہیں کیا یا پھر ان انقلابات کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، یعنی خود مسلم ریاستوں میں کبھی تاجر، کبھی سفیر اور کبھی استاد یا مبلغ کی حیثیت سے امریکیوں کی آمد عدم توجہ کے باعث مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل رہی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور جاپان بری طرح تباہ ہوچکے تھے اور عالمی منڈی میں امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ اس دور میں امریکی مصنوعات دور افتادہ علاقوں تک پہنچ رہی تھیں۔ ساری دنیا کی طرح مسلم دنیا میں بھی امریکی مصنوعات کا استعمال بڑھنے لگا جس سے نہ صرف ان کی طرز زندگی میں غیر محسوس تبدیلی آنے لگی بلکہ عمومی مذاق بھی تبدیل ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں امریکی مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹیلی وژن ٹیکنالوجی اور سنیما نے تو گویا امریکی تہذیب کو پَر لگادیے۔ اب نت نئے فیشن کے ملبوسات، بڑی اور چمکدار گاڑیاں اوراس سے بڑھ کر خود امریکی طرزِ زندگی دنیا بھر میں پھیلتی جارہی تھی۔ کچھ لوگوں نے امریکا کو آزادی و انصاف کے مترادف قرار دیا جبکہ کچھ لوگوں کے لیے امریکا دولت، طاقت اور کامیابی کا مترادف تھا۔
اسی دوران مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی امریکا کا رخ کرنے لگی۔ پہلے پہل تعلیم کے حصول کی خاطر، پھر معلم کی حیثیت سے اور آخر کار وہاں سکونت اختیار کرنے کی غرض سے۔
دوسری جنگ عظیم نے تو گویا پرانی دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔ گو امریکا اس جنگ میں آخر میں شریک ہوا تاہم سب سے زیادہ فائدے میں وہی رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے تیل کی دولت دریافت ہوچکی تھی اور اس پر تغلب و تسلط کے لیے امریکا اور برطانیہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی بساط پر مہرے لڑارہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بری طرح تباہ ہوا۔ لندن جیسا شہر بھی اچھا خاصا تاراج ہوچکا تھا۔ صنعتی نظام متاثر ہوا۔ بعد از جنگ از سر نو تعمیر و ترقی اس کی ترجیحات میں سرِفہرست تھی۔ اس کے مقابلے میں امریکی صنعتوں نے دن دگنی رات چوگنی کے مصداق ترقی کی۔ یہی سبب تھا کہ اسے مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ نئی بدلتی دنیا میں امریکی تہذیب، جسے عام طور پر غلط فہمی کی بنیاد پر یورپی یا مغربی تہذیب کہہ دیا جاتا ہے، پوری طرح دنیا پر چھارہی تھی … بالخصوص تیسری دنیا پر۔
مسلم ممالک بھی اس تہذیبی یلغار سے بچ نہیں پائے تھے۔ ان کی قدیم روایات اور خاندانی و سماجی ڈھانچا بھی تبدیل ہو رہا تھا۔ سیاسی میدان میں بھی نئے خیالات جنم لے رہے تھے۔ دنیا سے خلافت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور جمہوری طرزِ حکومت پروان چڑھ رہی تھی۔ امریکا لبرل جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار بن کر ابھر رہا تھا۔
مسلمانوں میں امریکا کے خلاف اس قدر اشتعال پنپنے کی وجوہ سمجھ میں آتی ہیں تاہم ہم عمومی تجزیوں سے ہٹ کر ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مغربی حکومتوں نے تیسری دنیا کے مسلم ممالک اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے مسلم نوجوانوں میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر کسی بھی حوالے سے غصہ بھڑکانے اور اُسے بروئے کار لانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے بعد مغرب نے اُس حکمت عملی کو یکسر ترک کردیا جس نے ان نوجوانوں کو آتش خُو بنا رکھا تھا۔ مغرب یہ بھول گیا کہ پالیسیوں کو اس طرح یکسر ترک کردینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ اس کے مابعد اثرات تادیر قائم رہتے ہیں۔ حالیہ تاریخ سے اس کی مثال یوں لیں کہ فرانسیسیوں نے الجزائر، برطانویوں نے مصر سے انخلا کے وقت مستقبل کے حوالے سے کوئی باضابطہ منصوبہ (روڈ میپ) تیار نہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انخلا کے بعد ان علاقوں میں مغرب اور اُس کے اتحادیوں کے لیے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔
یورپ سے بالعموم اور امریکا سے بالخصوص نفرت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یہ دونوں اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ محض اسرائیل کی حمایت اتنی شدید نفرت کی بنیاد نہیں بن سکتی، یہ بالائے فہم ہے۔ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل اور امریکا میں ایک فاصلہ موجود تھا کیونکہ اسرائیل تو خالصتاً برطانوی حمایت کے نتیجے میں وجودمیں آیا تھا۔ امریکا کے مقابلے میں روس نے جس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد روس میں آباد تھی جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد نقل مکانی کرگئی۔ روس نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ اپنے زیر اثر چیکوسلواکیہ کے ذریعے اس کی بھرپور مدد بھی کی۔ اسرائیل کو اس کے قیام کے ابتدائی دنوں میں بھرپور مدد فراہم کرکے روس نے عہدِ طفولیت ہی میں مرنے سے بچالیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا میں روس کے خلاف بھی اتنی شدید نفرت کا اظہار نہیں ملتا۔ امریکا نے ۱۹۵۶ء میں عسکری اور سیاسی مداخلت کرتے ہوئے مصر سے اسرائیلی، برطانوی اور فرانسیسی افواج کا تسلط ختم کرایا تھا مگر پھر بھی اس کے لیے پسندیدگی، تشکر اور محبت کے جذبات پیدا نہ ہوسکے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے کے اواخر سے ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اختتام تک بیشتر مسلم ممالک (بشمول عراق، شام اور مصر) روس سے اسلحہ خریدتے تھے۔ یہ مسلم ممالک اقوام متحدہ میں روسی بلاک کا حصہ بھی تھے۔
امریکا سے نفرت کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ امریکی ایوانِ صدر نے استبدادی قوتوں کی حمایت کی ہے۔ امریکا نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ ان حکمرانوں کی حمایت کی جو عوام میں بے حد غیر مقبول تھے یا پھر غیر جمہوری راستوں سے مسندِ اقتدار تک پہنچے تھے۔ عوام سمجھتے تھے کہ اگر امریکی حمایت نہ ہو تو شاید یہ آمر ایک دن بھی اقتدار کی کرسی پر نہ بیٹھ سکیں کیونکہ ان خطوں میں اصلاح پسند ایسے حکمرانوں کو رجعت پسند، بد اطوار، بدعنوان اور جابر سمجھتے ہیں جو تبدیلی سے خائف ہیں اور مغربی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔
مغرب پر بالعموم عائد کیے جانے والے الزامات میں جنسی تفریق، نسل پرستی، سامراجیت ، مردانہ حاکمیت، غلامی بحیثیت کاروبار، آمریت اور استحصال نمایاں ہیں۔ یقیناً یہ تمام الزامات ایسے ہیں جن کی بنیاد پر مغرب کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ خیر، یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان تمام بُرائیوں اور خرابیوں کا مجموعہ محض یورپ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بعض جرائم تو ایسے ہیں جن کے حوالے سے یورپ بہت پیچھے نظر آتا ہے۔
یہ درست ہے کہ مغرب میں عمومی طور پر اور مسیحیت کے زیر اثر بادشاہت کے دور میں خواتین سے کبھی اچھا سلوک روا نہیں رکھا گیا، تاہم یہ صورتِ حال ان معاشروں سے بہتر نظر آتی ہے جہاں ایک سے زائد بیویاں اور لونڈیاں (باندیاں) رکھنے کا رواج تھا۔ یہ رواج مغرب کے سوا دیگر تما م خطوں اور معاشروں میں عام تھا۔
آج غلامی کو ممنوع قرار دیا جاچکا ہے اور اس حوالے سے سخت قوانین بھی بنادیے گئے ہیں مگر خیر، غلامی کا دور ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔ اُس دور میں غلامی معاشرتی عمل کے طور پر رائج تھی اور اِسے سماجی ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کے وجوب اور تحفظ کے لیے قوانین بھی وضع کیے گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ مغرب نے افریقا اور دیگر خطوں سے لاتعداد افراد کو لاکر اپنی منڈیوں میں غلام کی حیثیت سے فروخت کیا۔ اِسے ایک باضابطہ کاروبار کی شکل دی گئی۔ مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سب سے پہلے مغرب ہی نے غلامی کا خاتمہ بھی کیا۔ فطری علوم و فنون کے نتیجے میں شعور و آگہی کے فروغ نے اہلِ یورپ کو تحریک دی کہ غلامی کی صرف مذمت نہ کریں بلکہ اِسے سرے سے ختم کردیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ استعماریت کے پھیلاؤ کا سرخیل یورپ رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ جب کوئی تہذیب یا قوت اپنی حدوں سے تجاوز کرتی ہوئی دور دراز کے خطوں تک پہنچی اور وہاں قدم جمائے؟ کیا کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ اپنے استعماری پھیلاؤ کے عرصے میں یورپ سے ایسی اخلاقی لغزشیں سرزد ہوئیں جو اس سے قبل عربوں کی فتوحات، ترکوں کی خلافت یا پھر منگولوں کی یلغار کے دوران سرزد نہیں ہوئی تھیں اور وہ سب کے سب ان تمام خطاؤں اور اغلاط سے مبرّا و ماورا تھے؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فتوحات کے دور میں ہر استعماری طاقت اس طرح کی تاریخی کوتاہیوں اور لغزشوں کی مرتکب ہوتی ہے۔
نسل پرستی، استعماریت اور اسی قبیل کی دیگر خامیاں دراصل انسانی نسل کی خامیاں ہیں اور مغرب بھی چونکہ انسانی نسل کا نمائندہ ہے لہٰذا وہ بھی ان خامیوں کو دہراتا رہا ہے۔ ایک بات کا سہرا البتہ مغرب کو جاتا ہے جو اُسے دیگر تہذیبوں سے ممتاز کرتا ہے … یہ کہ مغرب نے ان تاریخی امراض کی محض تشخیص نہیں کی بلکہ انسانیت کو ان سے نجات دلانے کے اقدامات بھی کیے۔
جب یورپی استعمار دنیا بھر میں پھیل رہا تھا تب چونکہ اس کا مذہب مسیحیت تھا اس لیے استعماریت کی مذمت کے دوران تاریخ کے کسی موڑ پر اُسے مذہب سے بھی جوڑ دیا گیا۔ استعماری قوتیں طاقت کے ذریعے محکوم اقوام کے معاشرتی مقام کا تعین کرتی ہیں۔ اُسے چونکہ مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا اس لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا کہ کوئی ’’کافر‘‘ استعماری قوت سچے عقائد رکھنے والی قوم پر حکمرانی کرے۔ سچے عقائد کے حامل افراد کی کفار پر حکومت تو جائز اور فطری ہے کیونکہ اس طرح خدا کے قوانین کی بالا دستی اور حرمت برقرار رہتی ہے اور کفار کے راہِ راست پر آنے کے امکانات بھی توانا رہتے ہیں مگر کفار کی حاکمیت مذہب کی صریح توہین سمجھی جاتی ہے۔ ان وجوہ کی بنیاد پر بھارت کے زیر تصرف کشمیر، افریقا اور سنکیانگ میں پھیلی ہوئی بدامنی ہماری سمجھ میں آتی ہے۔
آیے، آخر میں لادینیت یعنی سیکولر ازم کا جائزہ لیں۔ لادینیت کا آغاز ہمیں مسیحیت کے ابتدائی ادوار میں بھی مل سکتا ہے، جب مذہب اور ریاست کو الگ الگ حیثیت دی گئی۔ بعد میں مسیحیت کے اندرونی خلفشار اور تفرقہ بندی کے باعث دونوں ادارے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ مسلمانوں میں مذہبی فرقے ہیں مگر مسیحیوں اور کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان عقائد و نظریات کی جنگ میں بہنے والی خون کی ندی سے مسلمانوں میں مسلکی اختلافات پر ہونے والا سر پُھٹول کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ یورپی تاریخ میں سولہویں اور سترہویں صدی کیتھولکس اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان جنگ و جدل سے بھری ہوئی ہے۔ حالات اتنے بگڑے کہ تنگ آکر مسیحیت کو عیسائیت کو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا اعلان کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو اس طرح کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی کہ جب وہ مذہب اور ریاست کو الگ کرنے کا اعلان کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں ’’ریاستی لادینیت‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلام میں تکثریت (pluralism) کا تصور بھی دیگر مذاہب سے مختلف ہے۔ اسلام میں کبھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے اپنے عقائد کی تبلیغ کی مکمل آزادی نہیں دی گئی، سوائے ان مذاہب کے ماننے والوں کے جو الہامی ہونے کے دعوے دار تھے۔ رواداری اور برداشت کا یہ عملی مظاہرہ مسیحیت کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا تاوقتِ کہ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک سیکیولر ازم نے جڑیں مضبوط کرنا شروع نہیں کیں۔
شروع میں تو مسلم دنیا کی جانب سے مغرب کی کاوشوں کو سراہا گیا اور اس کی پیروی کی کوشش بھی کی گئی۔ اسلامی دنیا میں پھیلی غربت، جہالت اور کمزوری شاید ایسی وجوہ تھیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے ترقی کرتے مغرب کی پیروی کرنے کی کوشش کی۔ مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان بڑھتے فاصلے کا احساس سب سے پہلے میدان جنگ میں ہوا، اور پھر فطری علوم و فنون میں بھی عیاں ہوگیا۔ مسلم مصنفین نے مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی، اس سے حاصل ہونے والی دولت اور طاقت، مصنوعات اور طرزِ حکمرانی کا ذکر کیا اور مصلحین نے مغرب کی ان کاوشوں کو اپنانے اور انہیں اپنے اپنے خطے میں رائج کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی تاکہ وہ مغرب کی ہمسری کرتے ہوئے اپنا اجتماعی وقار بحال کرسکیں۔ تبدیلی کا یہ عمل بہت سُست رفتار ہوتا ہے۔ مغرب کو بھی بدلنے میں صدیاں لگی تھیں۔ بہت کچھ قربان کرنا پڑا تھا۔ مسلمان شاید اب تک یہ بات قبول یا ہضم نہیں کرپائے ہیں کہ کل تک وہ جن لوگوں پر حکمرانی کیا کرتے تھے یا جن علاقوں پر ان کے گھوڑے دوڑتے تھے آج وہ لوگ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
مسلم دانشوروں سے ایک بنیادی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے داخلی طور پر تبدیلی لانے کے لیے کوئی عملی اور ٹھوس کام نہیں کیا۔ انہیں ایسا بہت کچھ کرنا چاہیے تھا، جس کی جڑیں ان کی اپنی تہذیب اور تعلیمات میں ہوں۔ مغربی ترقی کی ہمسری کرنے کی دوڑ میں یا کم از کم اپنے آپ کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے جو طریقے اور نظریات اپنائے گئے مسلم دنیا کے عوام کے لیے اجنبی تھے۔ ان نئے خیالات اور نظریات کی جڑیں خالصاً مغربی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی معاشی نظام کو اپنانے کی صورت میں بھی مسلم ممالک بڑی معاشی قوت نہ بن سکے۔ مسلم ممالک میں مغربی سیاسی اداروں کا قیام بھی زیادہ مفید نہ رہا۔ ان ممالک میں ہمیں جابجا جابر اور آمرانہ حکومتیں اور بادشاہتیں نظر آتی ہیں۔ میدان جنگ میں مسلمانوں کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ہتھیار تو بے شک انہوں نے یورپ اور امریکا سے خرید لیے لیکن وہ ٹیکنالوجی اور جدید جنگی حکمتِ عملی نہ اپناسکے۔ پھر ہوا یوں کہ معاملات کی تہہ تک پہنچ کر انہیں سمجھنے کے بجائے مسلم دنیا سے آواز ابھرنے لگی کہ ’’رجعت الاولیٰ‘‘ یعنی ابتدا کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ مغرب نے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عسکری اداروں کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ہے انہیں بنانے، سنوارنے، تراشنے میں انہیں کئی صدیاں لگی ہیں۔ بیشتر مسائل اس حقیقت کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
(ترجمہ: تنزیل الرحمن)
بہت قابل غور