مصر کی معیشت تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ واشنگٹن میں اس حوالے سے تھوڑی بہت ہلچل پائی جاتی ہے۔ بہت سے سیاست دان چاہتے ہیں کہ اس نازک مرحلے میں مصر پر دباؤ بڑھایا جائے یعنی معاشی امداد میں کٹوتی کی دھمکی دے کر اپنی بات منوائی جائے۔ مصر کو امریکا سے ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد امداد ملتی ہے۔ واشنگٹن میں صدر محمد مرسی کی جمہوریت کے لیے کمٹمنٹ پر شکوک پائے جاتے ہیں اور اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند قانون سازوں نے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ مصر کی امداد میں کٹوتی کردی جائے۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مصر کے لیے ۲۵ کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کا اعلان کرکے ہلچل مچادی۔ جواز یہ بتایا گیا کہ مصر کو فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔
مگر خیر، امریکا کیا دے گا جو قطر دے رہا ہے۔ قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کے مالک قطر نے (جس کی آبادی بیس لاکھ سے کچھ ہی زیادہ ہے) مصر کے لیے پانچ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے اور پانچ برسوں میں ۱۸؍ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ۱۰؍ اپریل کو ایک اور حوصلہ افزا اعلان ہوا۔ قطری حکومت نے مصری حکومت سے تین ارب ڈالر کے سرکاری بونڈز خریدنے پر رضامندی ظاہر کی۔ قطر نے موسم گرما میں اضافی گیس فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا تاکہ توانائی کا بحران شدت اختیار نہ کرے۔ اس اعلان سے صدر مرسی کو مزید سیاسی راحت محسوس ہو گی۔
قطر کی جانب سے مالی امداد اور سرمایہ کاری کے اعلانات سے مصر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مشہور مصری بلاگر اور سیاسی مبصر باسم صابری کا کہنا ہے کہ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے سیاہ رات کے بعد صبح کا اجالا پھیل جائے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ میں گلف اینڈ انرجی پالیسی پروگرام کے ڈائریکٹر سائمن ہنڈرسن کہتے ہیں: ’’امریکا کے مقابلے میں قطر بہت مختلف ہے۔ قطر معاملات کو تیزی سے سمجھتا ہے اور اسی کے مطابق کام کرتا ہے۔ امریکا بہت سے فیصلوں کے معاملے میں تاخیر کردیتا ہے۔ امریکی نظام ہے ہی کچھ ایسا۔ یہ ایک بڑا ڈِز ایڈوانٹیج ہے۔ قطری بہت تیزی سے خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں۔ وہ بہت کچھ دے رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جواب میں وہ کیا چاہتے ہیں‘‘۔
قطری دولت دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ انگلینڈ اور فرانس میں بھی قطری سرمایہ کاری بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ مگر دو برسوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ قطر نے مختلف ممالک میں عوامی بیداری کی لہر کو مدد فراہم کی ہے۔ لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف اور شام میں بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف عوامی بیداری کی لہر کو قطری حکومت نے خوب معاونت فراہم کی ہے۔ مصر میں بھی یہی ہوا۔ تیونس میں بھی قطر نے حکومت کی مدد بروقت کی ہے۔ قطر کے امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے گزشتہ اکتوبر میں حماس کے زیر انتظام غزہ کی پٹی کا دورہ کیا۔ ۲۰۰۷ء سے اب تک وہ اس علاقے کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہِ مملکت تھے۔
قطر پر بیرون ملک اسلام نواز عناصر کو مدد فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً اخوان المسلمون کو بھی قطر کی طرف سے مدد ملتی رہی ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی کو بھی اس کا ایک بنیادی سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر مائک ہینڈرسن کہتے ہیں کہ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قطر کے حکمران اپنے ہاں اسلام نواز عناصر کو متحرک نہیں دیکھنا چاہتے۔ مصر کو اس قدر مالی امداد فراہم کرنے کا بنیادی مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ خطے میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک کو اپنے کیمپ میں رکھا جائے اور خطے کے اہم فیصلوں میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پوزیشن برقرار رکھی جائے۔ قطر عرب دنیا کی سیاست میں اپنی منفرد حیثیت کسی حالت میں کھونا نہیں چاہتا۔ اس معاملے میں وہ مصر کی صورتِ حال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ کل تک قطر خطے کی سیاست میں چھوٹا کھلاڑی تھا۔ اب اگر وہ مرکزی کھلاڑی نہ بھی بن سکا تو مرکزی کھلاڑیوں کی صف میں ضرور کھڑا ہونا چاہتا ہے۔
برطانیہ کے رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے دوہا میں تعینات محقق مائیکل اسٹیفنز کہتے ہیں: ’’بہت ممکن ہے کہ مصر میں جمہوری طور پر منتخب صدر کے تقرر کے بعد قطر کے امیر کو وہاں سرمایہ کاری کرنا آسان لگا ہو مگر اب صورتِ حال تھوڑی سی بدل چکی ہے اور قطر کے امیر کو اپنے ہی ملک میں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مصر کو اچھی خاصی امداد دی جاچکی ہے مگر اب تک اس کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ قطر میں رائے عامہ یہ ہے کہ مصر کو زیادہ امداد دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے نصیب میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ہو جانے دیا جائے۔ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مصر کی غیر معمولی امداد سے بھی اس کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی اور قطر کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچے گا‘‘۔
مصر میں بہت سے لوگ صدر مرسی کی حکومت کے مخالف ہیں اور قطری امداد کو بھی زیادہ استحسان کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے ماہر پال سلیون کہتے ہیں: ’’مصر اور دیگر علاقائی ممالک کے معاملے میں قطر جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا اور سعودی عرب کو بھی ناراض کرسکتا ہے۔ یہ دونوں ایک طویل مدت سے خطے میں اپنے اثرات مستحکم کرنے کے لیے سرگرم ہیں اور یہ بھی اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ قطر کا کھیل آخر ہے کیا‘‘۔
(“Muslim Brotherhood? Qatar Doles Out Serious Cash to Egypt”…
“Newsweek Pakistan”. April 28th, 2013)
Leave a Reply