انقلاب جاری ہے اور ہم سب اس کو متحرک رکھنے کے لیے کوشاں ہیں کہ وہ اپنے ان مقاصد کو حاصل کر لے جن کو ہم سب نے طے کیا ہے اور ہم سب ان کی حفاظت کریں گے تاآنکہ مصریوں کی تمام آرزوئیں پوری ہوں۔ سیاسی پارٹیوں کی تشکیل اور آئندہ پارلیمانی انتخابات کے وقت کا اعلان ہونے سے جمہوری تبدیلی کے عمل کا عملاً آغاز ہو چکا ہے اور ان تبدیلیوں نے تمام سیاسی عناصر خاص طور سے الاخوان المسلمون کے سامنے کچھ سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا اخوان کو ایسی پارٹی میں تبدیل ہونا چاہیے، جو ان کی فکر، اقتدار کے مسئلے اور اس کی مرکزیت کی نوعیت سے متعلق ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ جامع و شامل تبدیلی پیدا کرنے کے لیے ابتدائی نقطہ حاکم اقتدارنہیں بلکہ عوام کے نفوس ہیں۔ امام حسن البنا شہیدؒ نے ’’ہم کہاں سے آغاز کریں‘‘ کے عنوان کے تحت کہا تھا: ’’ایک ساعی امت یا داعی گروہ جو امتوں کی تشکیل، عوام کی تربیت، آرزوئوں کی تکمیل اور اصولوں کی مدد کرنا چاہتا ہو، کو کئی امور میں بڑی نفسیاتی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے: جیسے طاقتور ارادہ جس میں کمزوری نہ پیدا ہو، مستحکم وفاداری جس میں تلّون و بدعہدی کا گزر نہ ہو، مضبوط قربانی، جس میں لالچ حائل ہو، اصول کی معرفت اس پر ایمان اور اس کی ایسی قدر کہ جو اس میں غلطی، انحراف، سودے بازی اور اس کے علاوہ کسی اور چیز سے دھوکا کھانے سے بچائے‘‘۔ یہ اس بات کا پیغام ہے جس کی ہم دعوت دیتے ہیں، اس لیے اخوان کی غرض و غایت واضح و متعین ہے۔ امام حسن البنا نے کہا تھا: ’’اخوان کا مقصد اسلام کی صحیح تعلیمات پر یقین رکھنے والی نئی نسل کی تشکیل پر موقوف ہے، جو امت کے تمام مظاہر حیات کو مکمل اسلامی رنگ میں رنگ دے۔ اور اس کے لیے ان کا وسیلہ اور دعوت کے انصار کی تعلیمات اور تربیت پر منحصر ہے تاکہ وہ ان کو اختیار کرنے، ان کی فکر رکھنے اور ان کے احکام کے آگے سر جھکانے میں دوسروں کے لیے نمونہ ہوں‘‘۔ (پیغام پانچویں کانفرنس) اور حکومت و اقتدار جو سیاسی پارٹیوں کا مقصد ہوتا ہے، اس کے بارے میں امام حسن البنا نے یہ موقف متعین کیا تھا: ’’اخوان اپنے لیے حکومت کے طالب نہیں ہیں، اگر اس بوجھ کو اٹھانے، اس امانت کو ادا کرنے اور اسلامی قرآنی منہج کے مطابق حکومت کرنے کے لیے امت میں کوئی موجود ہوا تو اخوان اس کے سپاہی اور معاون و مددگار ہوں گے اور اگر امت میں کوئی موجود نہ ہوا تو حکومت و اقتدار اور ان کے منہاج کو ہر اس حکومت سے چھیننے کے لیے کام کریں گے جو اللہ کے اوامر کی تنفیذ نہیں کرتی۔ امت کے نفوس کی موجودہ حالت میں اخوان حکومت کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے پیش قدمی کرنے سے زیادہ عقل مند و سمجھ دار ہیں‘‘۔ (پیغام پانچویں کانفرنس)
کئی سال سے میرا خیال ہے اور میں اخوان کی ورکشاپس میں کہتا رہا ہوں کہ جب صحیح جمہوری نظام میں حکومت و اقتدار ہاتھ دو ہاتھ رہ جائے، اس وقت ہم کو اپنی جماعت کو ایسی سیاسی پارٹی میں تبدیل کر دینا چاہیے جو حکومت و اقتدار کے لیے کوشش کرے اور اب جب کہ مصر جمہوری تبدیلی کی راہ پرگامزن ہے، اس معاملے پر نظرثانی کر کے مرحوم ڈاکٹر توفیق الشادی کی رائے کے قریب کی بات دہراتا ہوں جس کا انہوں نے ۱۹۹۵ء کی مجلس شوریٰ میں اظہار کیا تھا۔ شاید یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اخوان ایک جامع و شامل عام اسلامی جماعت کی حیثیت سے برقرار رہے، خواہ اس کی سیاسی پارٹی حکومت و اقتدار تک پہنچ جائے، تاکہ وہ اس پر نگراں بنی رہے اور اپنی عوامی و فکری طاقت سے اس کی کارکردگی کو کنٹرول کرے، اگر وہ اچھا کام کرے تو اس کی مدد کرے، انحراف کرے تو اس سے بازپرس کرے، برا کام کرے تو اس سے مواخذہ کرے اور اگر ناکام ہو تو اپنی عوامی طاقت سے اس کو معزول کردے۔
جب سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کے لیے صرف چند ہزار تاسیسی ارکان کو جمع کر کے متعلقہ ذمہ داروں کو صرف اس کی اطلاع کی ضرورت رہ گئی ہے تو پارٹی بنانا ہر فرد کے لیے آسان ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی پروگرام، عوامی حمایت اور مقابلہ آرائی و بقا کی صلاحیت ہو لیکن ایک عوامی ادارے کی حیثیت سے اخوان پر واجب ہے کہ وہ اپنے بعض ارکان کو اس بات کے لیے مقرر کرے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی بنا کر جماعتی مقابلہ آرائی کے میدان میں سیاسی کام کی رہنمائی کریں، چونکہ اس نے پہلے اپنے ارکان کو امیدوار بنا کر بتیس فیصد سیٹیں حاصل کی تھیں، نیز تقریباً چوتھائی صدی قبل اس نے سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے اب جب کہ اس کی تنفیذ کا موقع آیا ہے اس کے لیے اس میدان سے دور رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مگر یہ بات کہ اس کی ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیاں ہوں تو میرے لیے بخدا سیاست میں یہ عجیب و غریب بات ہے۔ ایک عوامی طاقت جو فیصلے لینے میں شریک ہونا چاہتی ہو یا اتحادی حکومتوں میں داخل ہونے یا تنہا حکومت کرنے کے لیے کوشاں ہو، اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنی مساعی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے مؤیدین کے ووٹ بکھیر دے۔ اس کے برعکس یہ بات صحیح ہے کہ اخوان اسلام اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لیے فکرمند طاقتوں کو اتحاد و تعاون اور وفاداری کے لیے بلائے۔
دوسرے یہ بات صحیح ہے کہ مصر میں چار بنیادی رجحانات: اسلامی، قومی، لبرل، بائیں بازو اور ان کے پہلو میں اقتصادی مفادات کی نمائندہ مضبوط پارٹیاں جو اچھی کارکردگی پر قادر ہوں اس طرح مصر میں پانچ چھ بڑی جماعتوں کی ضرورت ہے جو عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے آپس میں مل جل کر کام کریں یا اتحاد بنائیںیا مقابلہ آرائی کریں۔ غالباً آخر میں یہی صورت نکلے گی خواہ دسیوں پارٹیاں بن جائیں۔
اور جب انتخابات ۲۰۰۵ء کے آخری دو مرحلوں میں دھاندلی کے باوجود اخوان نے ۲۶ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے تو آئندہ اسی تناسب کے آس پاس ان کا حصہ ہوگا۔ اس لیے وہ تیس پینتیس فیصد سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر مذکورہ بالا سیاست کی روشنی میں کیا آئندہ انتخابات اسلامی وطنی متعدل ووٹ کا تقسیم ہونا ممکن ہے۔
اگر اخوان کی جدوجہد کے سو یونٹ ہوں تو میں ان کو اس طرح تقسیم کروں گا: ۷۵ فیصد کوشش معاشرتی، دعوتی، تربیتی، اجتماعی، ثقافتی اور فکری کام کے لیے اور ۲۵ فیصد کوشش پارٹی کے کام کے لیے اور الحریۃ والعدالۃ پارٹی کی تعمیر کے لیے۔ یہ فطری بات ہے کہ انتخابات کے زمانے میں اخوان پوری طاقت سے الحریۃ والعدالۃ پارٹی کی مدد کریں گے۔ اس لیے وہ اس کے پروپیگنڈے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوں گے، مگر اس کے علاوہ ان کی بنیادی فکر لوگوں اور عوام کے درمیان کام ہوگا۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ کویت۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خاں ندوی)
Leave a Reply