
مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔درحقیقت یہ ایک سچائی ہے جسے موجودہ دور میں بخوبی دیکھا جا رہا ہے۔ آج پوراعالم اسلام دشوار ترین دور سے گزر رہا ہے۔ مگر بصیرت افروز نگاہیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ جلد ہی اسلام، اپنی اخلاقی برتری، عدل و انصاف، معیشت و معاشرت اور تمدن کے اعلیٰ پیمانے کے ساتھ، پوری آب و تاب لیے، انسانیت کی خیر و فلاح کے لیے منظر عام پر آنے والا ہے۔ ممکن ہے اہلِ علم اسی پس منظر میں کہیں اسلامی نظامِ حیات کے قیام میں سرگرم ہوں تو کہیں اسلامی نظامِ حیات و طرزِ حکومت کے خلاف منظم کوششیں ہو رہی ہوں۔ کیونکہ اہلِ علم تو دونوں ہی طرف ہیں۔ وہ بھی جو مثبت فکر و عمل کے ساتھ، امن و امان کے قیام میں سرگرم ہیں اور وہ بھی جو منفی پروپیگنڈا سے اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی منظم سعی و جہد کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ منفی پروپیگنڈا، معتدل مزاج افراد کو متاثر کرتا ہے یا اس کے برعکس ہوتا ہے؟ گرچہ پروپیگنڈے میں بے شمار وسائل بھی کار فرما ہیں اس کے باوجود مثبت رویے اور اخلاق حسنہ سے مزین افراد، زماں و مکاں کی قیود سے باہر فی زمانہ کامیابی سے ہمکنار ہوتے آئے ہیں۔ وہیں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ منظم، منصوبہ بند اور تسلسل کے ساتھ انجام دی جانے والی سرگرمیاں، جن میں اعلیٰ اخلاق و مکمل اخلاص بھی موجود ہو، کسی قیمت ناکام نہیں ہوتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا محدود ذہن اور کمزور آنکھیں نتائج کو نہ محسوس کریں اور نہ دیکھ پائیں۔ اس کے باوجود ہر معمولی کوشش، نتیجے کے اعتبار سے اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دوسری طرف جن اثرات کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے خواہش مند ہیں، ان کو بقول شخصے، اپنی اس ایک روزہ یا کچھ زائد زندگی میں دیکھ پائیں یا نہ دیکھ پائیں۔ اس کے باوجود ہمیں یقین ِکامل ہونا چاہیے کہ ہماری ہر مثبت سعی و جہد اپنے بہترین نتائج اخذ کرتی جارہی ہے۔ پھر اس یقین کامل کے ساتھ جو عمل بھی اخلاقِ حسنہ و اخلاصِ اعلیٰ کے نمونے پیش کرتے ہوئے انجام دیا جائے گا اُس کے نتیجہ میں نہ صرف فرد بلکہ وہ اجتماعیت بھی بارآور ہوگی جسے ایسے افراد میسر ہوں۔ شاید یہی معاملہ مصر میں اخوان المسلمون اور اس کے کارکنا ن کے ساتھ ہے۔کہ جس کے عملی مظاہر ے وہ فی زمانہ پیش کرتے آئے ہیں۔ آئیے اس تحریک سے متعارف ہوں۔
عرب دنیا میں امام حسن البناؒ (۱۹۰۶۔۱۹۴۹ء) نے اپنی ۲۲؍سالہ عمر میں سال ۱۹۲۸ء میں مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔یہ تحریک بہت جلد مصر کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی۔اخوان نے زندگی کے ہرشعبے میں اپنا کام منظم کیا۔مصری حکمرانوں کو اخوان کی مقبولیت سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے ۱۹۴۹ء میں امام حسن البنا کو شہید کر دیا۔بعد میں شاہ فاروق کا تختہ الٹا گیا اور ملک میں فوجی حکومت آئی تو اخوان پر ایک نئے ابتلا کا دور شروع ہوگیا۔جنر ل محمد نجیب کو بے دخل کرکے ،کرنل ناصر برسراقتدار آیااور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا۔صدر جمال عبدالناصر نے جھوٹے الزامات کے تحت اخوان پر پابندی لگادی اور اس کی ساری قیادت جیلوں مین ڈال دی گئی۔ عبدالقادر عودہؒ (۱۹۰۶۔۱۹۵۴ء) اور ان کے پانچ ساتھی ۱۹۵۴ء میں پھانسی پر چڑھادیے گئے۔اسی طرح مشہور مفسرومفکر سید قطبؒ (۱۹۰۶۔۱۹۶۶ء) کو سن ۱۹۶۶ء میں اِسی حکومت نے سولی پر چڑھا دیا۔ اخوان کے سربراہ کو مرشد عام کہا جاتا ہے۔اخوان کے دوسرے مرشد عام حسن الہضیبی (۱۸۹۱۔۱۹۷۳ء) تھے، جو بہت بڑے عالم دین تھے۔تیسرے مرشد عام ،عمر تلسمانیؒ (۱۹۰۴۔۱۹۸۶ء) رہے جو پیشے سے وکیل تھے۔چوتھے محمد حامد ابوالنصرؒ (متوفی ۱۹۹۶ء) تھے۔ پانچویں مرشد عام مصطفی مشہودؒ (۱۹۲۱۔۲۰۰۲ء) منتخب ہوئے۔ وہ بہت بڑے داعی اور مفکر تھے۔ چھٹے مامون الہضیبیؒ (۱۹۲۱۔۲۰۰۴ء) تھے جو پارلیمان کے رکن اور معروف ترین وکیل تھے۔ ساتویں مرشد عام محمد مہدی عاکف حفظ اللہ (مولود۱۹۲۸ء) تھے۔ جو دورِ طالب علمی اخوان کے ساتھ رہے ، بار بار جیلوں میں جاتے رہے اور ثابت قدمی دکھائی۔ ۲۰۱۰ء میں آٹھویں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع (مولود۱۹۴۳ء) منتخب ہوئے۔ وہ اس وقت جیل میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت و مدد فرمائے۔
۲۰۱۱ء میں عرب بہار تیونس سے اٹھی اور زیادہ تر عرب ممالک میں پھیل گئی۔اسی کے نتیجہ میں مصر میں حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ ۲۰۱۲ء میں جمہوری انتخابات میں اخوان المسلمون کو شاندار کامیابی ملی۔ پارلیمان میں وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئے۔ اور عام ووٹو ںسے منتخب ہونے والے صدر مملکت ڈاکٹر محمد مرسی کو دنیا نے قبول کیا۔ یہ قبولیت ظاہری تھی یا باطنی؟، یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔ اس کے باوجود سازشیں جڑ پکڑنے لگیں۔ ایک ہی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ منتخبہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پھر کیا تھا چُن چُن کر قیادت اور کارکنان کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل سے اب تک اسلامی احیا اور سیاسی بیداری میں مصروف عمل رہنے والی یہ تحریک دراصل مصر کی ایک مذہبی اور سیاسی تحریک ہے ۔تحریک کا مقصد خالص دین اور مذہبی روایات کو زندہ کرنا اور ان کے مطابق مسلم معاشرہ اور حکومت کی تجدید کرنا تھا،لیکن آج یہ سیاسی،تنظیمی،معاشی،معاشرتی اور تجارتی جدوجہد کے ہر میدان میں موجود ہے۔ابھی چند دن قبل مصری فوجی حکومت نے معزول صدر محمد مرسی کو جیل توڑنے کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔عالم اسلام کے معزز ترین علماء میں سے ایک علامہ یوسف القرضاوی کا نام بھی مذموم عدالتی فیصلے میں شامل ہے،جبکہ وہ عرصۂ دراز سے جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔نیزسزا پانے والوں میں اخوان کے دیگر ایک سو چار حامی بھی شامل ہیں۔اس بہیمانہ فیصلے کی مذمت ساری دنیا کے انصاف پسندوں نے کی ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی اس فیصلے کی شدید مذمت کی۔ دوسری جانب ایمنسٹی انٹر نیشنل کے بعد امریکا نے بھی مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ہم کو مصری عدالت کی جانب سے اجتماعی سزائے موت کے فیصلے سے گہری تشویش ہے۔ یہ سزا معزول صدر مرسی اور ان کے سو سے زائد حامیوں اور اخوان المسلمون کے عہدیداروں کو دی گئی ہے۔ گرچہ یہ اجتماعی ٹرائیل اور سزائیں عالمی قوانین اور ذمہ داریوں کے خلاف ہیں، اس کے باوجود گہری تشویش کے اظہار کے ماسوا کوئی عملی اقدام کہیں سے ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔یہ وہ حالات، پس منظر اور تاریخی سچائی ہے جو مصر میں ایک طویل عرصہ سے اسلام پسندوں کے ساتھ روا رکھی جارہی ہے۔ لیکن وہ صبر و تحمل اور پختہ عزم کے ساتھ انسانیت کی خیر و فلاح کے لیے قربانیوں پر قربانیاں دیے جارہے ہیں۔ اس صورت میں ہماری بس یہی دعا ہے کہ اللہ عزو جل جو ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے،اخوان اور اس کے کارکنان کودنیا و آخرت میں سر بلند ی عطافرمائے۔ ساتھ ہی وہ افراد اور گروہ جو قیامِ عدل وانصاف اور امن و آشتی میں مصروف ہیں، انہیں بھی حوصلہ بخشے کہ وہ اپنی سعی و جہد میں ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ مسائل میں مبتلا لوگوں کی مدداور پیغام امن سے بہتر اس روئے زمین پر کوئی عمل ممکن ہی نہیں ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں آج اگر کوئی صدا کہیں سے آرہی ہے تو وہ یہی کہ صدر مرسی ، ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں، کیونکہ مصر میں انصاف کے بغیر قید خانہ حضرت یوسف ؑ کے لیے تھا جبکہ:”انہوں نے کہا، اے میرے پروردگار! مجھے قید منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں”(سورۃ یوسف:۳۳)۔مصر میں قید خانہ سید قطبؒ کے لیے تھا۔جبکہ انہوں نے کہا :”ایک رہنما کے لیے یہ مناسب نہیں کہ رعایتیں حاصل کرے۔تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، میں نے شہادت کی خاطر پندرہ سال جدوجہد کی ہے”۔وہیں پھانسی سے چند لمحوں قبل انہوں نے کہا:” یہ انگلی جو نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، اس نے اس جابر کے اقتدار کی توثیق میں خط لکھنے سے انکار کر دیا ہے”۔مصر میں انصاف کے بغیر قید خانہ زینب الغزالی ؒ کے لیے تھا۔جبکہ انہوں نے کہا تھا:عبدالناصر کو قتل کرنا اخوان المسلمون کے مقاصد میں نہیں ہے۔بلکہ ہم تو صرف توحید،اللہ کی عبادت،قرآن اور سنت ِ رسول اللہ کو نافذ کرنا چاہتے ہیں!
***
Leave a Reply