الاخوان المسلمون کے بعض نمایاں قائدین کے ساتھ قاہرہ میں گفت و شنید کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ مصر کے موجودہ انقلاب میں اخوان کا حقیقی کردار کیا رہا ہے اور آئندہ مرحلے کے لیے ان کا خاص نقطۂ نظر کیا ہوگا؟ اس گفتگو میں ’’ڈاکٹر عصام العریان‘‘ اخوان کے گائڈنس آفس کے ذمہ دار ’’انجینئر سعدالحسینی‘‘ اور ’’ڈاکٹر محمد البلتاجی‘‘ جو ایک نمایاں قائد اور مصری انقلاب کونسل کے ممتاز رکن ہیں۔ ان کے علاوہ قاہرہ یونیورسٹی میں سیاسیات کی لیکچرار ہبہ رئوف نے بھی حصہ لیا۔
الاخوان المسلمون کے نمایاں قائدین پُرزور انداز میں کہتے ہیں: آئندہ مرحلہ ’’مال غنیمت‘‘ کی تقسیم کے لیے نہیں ہے بلکہ ملک کی ترقی میں بھرپور حصہ لینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔
ڈاکٹر عصام العریان:
٭ آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ مصر میں انقلاب پر انقلاب کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں اور انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، تو کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ ایسی صورتحال نہ واقع ہو؟
☼ میرے خیال میں اس طرح کے اندیشوں سے بچنے کی سب سے بڑی ضمانت ہمارے یہاں موجود ’’جمہوری نظام‘‘ ہے۔ میرا یقین ہے کہ اخوان نے صدارتی انتخاب میں امیدوار نہ کھڑا کرنے اور پارلیمنٹ میں اکثریت کے حصول کے لیے تگ و دو نہ کرنے کے جو دو بڑے اہم فیصلے کیے ہیں یہ انتہائی مناسب اور بہت بروقت ہیں۔ اور یہ بجائے خود اس بات کی ضمانت ہے کہ اب کوئی موجودہ اقدام کو سبوتاژ کرنے کی سعی لاحاصل نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ایک ایسا جمہوری نظام قائم ہو جس میں ہر سیاسی قوت کو بلکہ ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور ہر ایک اپنے وطن کی فلاح و بہبود کے دائرے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرے نہ کہ حکمرانی کے مزے لوٹنے کے لیے۔
٭ جب آپ لوگ منصبِ صدارت میں رغبت نہیں رکھتے اور نہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی خواہش ہے تو سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے تعلق سے آپ لوگوں کا جو خاص نقطہ نظر ہے اس کا نفاذ کیسے ممکن ہوگا؟
☼ مصری قوم کے ہر طبقے نے مل کر انقلاب کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ صرف اخوان نے تنہا انقلاب نہیں برپا کیا ہے۔ بلاشبہ ہم اور ہمارے ساتھ پوری قوم اور فوج سب کی ضرورت ہے کہ ابھی مزید جدوجہد کریں اور ہر سطح سے اپنی صلاحیتوں کا نذرانہ پیش کریں۔ چونکہ ہم سب پر مشترک ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لیے ناگزیر ہے کہ ہر ایک کو مواقع ملیں۔ اس میں شک نہیں کہ اخوان نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور موجودہ انقلاب کو کامیاب بنانے میں بھی بھرپور جدوجہد کی ہے، ظلم کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور غنڈوں اور جبر و ستم کرنے والوں کے مقابلے میں مظاہرین کی ہرممکن حمایت کی۔ جمہوری نظام کا قیام کثیر جہتی مقابلہ اور اکثریت کے احترام پر موقوف ہے۔ لیکن اگر ہم اکثریت کی صورت میں مصر کے سیاسی افق پر ابھریں گے تو لازماً اس کے نتیجے میں بڑی بے چینی اور اندیشے جنم لیں گے۔ اس لیے ہماری خواہش ہے کہ سب لوگ شریک ہوں۔ کیونکہ آنے والا مرحلہ مال غنیمت لوٹنے کا مرحلہ نہیں ہے۔
٭ ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ سینکڑوں ارب کا اندرونی اور بیرونی قرضہ ہے، ایسی صورتحال میں آپ کا معاشی موقف کیا ہوگا؟
☼ اس سلسلے میں ہمارا ایک خاص مؤقف ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ گزشتہ دور ظلم کے مقابلے میں اب مصر کی معاشی حالت یکسر مختلف ہوگی۔ جب ملک سے لوٹے ہوئے اموال ملک کے عام بجٹ کی طرف واپس ہوں گے تو صورتحال بالکل بدل جائے گی اور ہمارے خیال میں یہ اموال مصری اقتصادیات میں نئی روح پھونکنے کے لیے کافی ہیں… ہم مصر کی اقتصادی پالیسی تن تنہا نہیں وضع کرنا چاہتے۔ اس کے لیے ماہرین اور مخصصین کی ضرورت ہوگی اور انہیں ایسا موقف اختیار کرنا ہوگا جو کم ازکم عبوری مرحلے کے لیے سازگار ہو، یہ بڑا اہم معاملہ ہے اس سلسلے میں متعین پالیسی وضع کرنے کے لیے ماہرین کو ابھی سے گفت و شنید شروع کر دینی چاہیے۔ پھر وہ پارلیمنٹ میں پاس ہوگی اور اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اقتصادیات کا پہیہ اس طرح نہ چلایا جائے جیسے گزشتہ تباہ شدہ عہد میں چل رہا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ گزشتہ عہد کی طرح پھر اقتصادی نظام بااثر لوگوں کی حصہ داری، حیلہ سازی، چوری، شخصی مفاد، افراتفری اور عدم سنجیدگی پر مبنی ہو۔
٭ تاریخ کا ایک ایسا دور گزرا ہے جب مصر کی حیثیت امت مسلمہ کے دھڑکتے دل کی تھی مگر بعد کے ادوار میں عربی اور اسلامی دونوں سطح پر مصر کی یہ حیثیت کمزور پڑ گئی۔ کیا اخوان مصر کے قائدانہ کردار کو دوبارہ حاصل کرنے کے آرزومند ہیں۔ درآں حالیکہ انقلاب کامیاب ہو گیا ہے اور حکومت میں اخوان کی شرکت متوقع ہے؟
☼ بقول محمد حسنین ہیکل، ’’کردار بنایا نہیں جاتا ہے‘‘ اور نہ کسی کے بس میں ہے کہ اپنے لیے کوئی کردار بنائے۔ دور تو خود اپنے بھرنے والے کو آواز دیتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عنقریب مصر دوبارہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ وہ کردار جو اس نے کھو دیا ہے اور کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔ ماضی میں بہت سے لوگوں نے اس کردار کو بھرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جس کو اندر اور باہر کے سبھی لوگ تاریخی کہہ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ انقلاب ہر اعتبار سے تاریخی ہے۔ عوامی انقلاب جو آتش فشاں کی طرح پھوٹ پڑا جس کی منصوبہ بندی نہ کسی نے اندرونِ ملک کی تھی اور نہ خارجی دنیا سے اس انقلاب کو کسی کا تعاون حاصل رہا ہے۔ اس واقعہ نے ایک نئے مصر کو کھڑا کر دیا اور اب نتیجتاً مصر خود بین الاقوامی سطح پر اپنی شاندار حیثیت بحال کرلے گا۔
انجینئر سعدالحسینی
٭ آپ کی رائے میں کیا انقلاب نے اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں؟
☼ اس میں شک نہیں کہ شروع میں معاملات بڑے دشوار گزار تھے۔ لیکن حقائق کی بنیاد پر جب ہم حاصل شدہ اہداف کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں سب سے نمایاں ہدف جائز قومی مطالبات کے بروئے کار آنے تک سب کا ثابت قدم رہنے کا عزم ہے اور اس کے نتیجے میں قوم کو جو زبردست معنوی مدد حاصل ہوئی، اس نے نظام فاسد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس معنوی صورتحال نے مصری قوم کے نفوس میں ایک ایسی زبردست اور شاندار تبدیلی پیدا کر دی کہ لوگ پوری جرأت کے ساتھ برملا کہہ رہے ہیں: ’’اگر وہ لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے‘‘۔ اب ہر آدمی کو نظام فاسد کو بدلنے کا طریقہ معلوم ہو گیا ہے اور ہرایک نے خوف کے سارے بندھن توڑ ڈالے ہیں اور اب سب کی زبان پر یہ نعرہ ہے: ’’سر اٹھا کر کہو تم مصری ہو، رشوت نہ قبول کرو، اس بات کو ہر گز گوارا نہ کرو کہ کوئی تمہارے قومی وقار سے کھلواڑ کرے، سنجیدگی اور امانت داری سے کام کرو‘‘۔
٭ کیا آپ کے پاس مصر کی سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کے پروگرام کا کوئی واضح خاکہ ہے؟
☼ میں ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۰ء تک پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں، اس لیے پوری امانت داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پاس ہر میدان کے لیے ایک مکمل خاکہ ہے اور ۲۰۱۰ء کے اواخر تک سابقہ پارلیمنٹ میں ہمارا جو پروگرام تھا اس کا خلاصہ ہے: ’’سارے مسائل کا حل اسلام ہے‘‘ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ انصاف، ترقی اور قیادت کی آزادی ہو۔ اس لیے ہمارے نزدیک اسلام کا نفاذ ہی سارے مسائل کا حل ہے اور مذکورہ بالا عنوانات میں سے ہر عنوان کے تحت ایک شاندار باب ہے اور اس میں خیرِ عظیم ہے۔ اس میں ۸۸ پارلیمنٹرین کے تجربات کا نچوڑ ہے اور یہ کوئی معمولی اور آسان بات نہیں ہے۔ اسی لیے میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ ہمارے پاس ہر میدان کے لیے ایک نہایت واضح خاکہ ہے۔ ہم کسی بھی موضوع پر دوسروں کے ساتھ گفت و شنید کے لیے تیار ہیں… اور اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ دوسروں سے دور ہو کر ہم ملک کا نظام نہیں چلا سکتے اور خاص طور سے موجودہ وقت میں اس ترکے کے زیر سایہ جو ذمہ داریوں سے بوجھل ہے تو یہ کہنے میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اس لیے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے ہم سب کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے اور الحمدللہ ہمارا ملک ہر طرح کی قوتوں اور صلاحیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس لیے ملک کے لیے امانت، قابلیت اور اخلاص کی کمی نہیں ہوگی۔ ان مخلصین اور امانت داروں سے ہماری گزارش ہے کہ ہمارے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی اس زبردست ذمہ داری کو اٹھائیں۔
ڈاکٹر محمد البلتاجی
٭ انقلاب نے مصری قوم کے اندر کون سی قدریں پیدا کی ہیں؟
☼ اس پرامن انقلاب نے فساد و استبداد، سیکورٹی والوں کی طرف سے کی جانے والی جبر و زیادتی، پولیس کے اقتدار اور عدالتوں کی بے بسی کے دور کا خاتمہ کردیا۔ یہ دور گزشتہ تیس برسوں سے ملک پر اپنا منحوس سایہ ڈالے ہوئے تھا۔ بالآخر بڑا انقلاب آیا جس نے پوری قوم کو ایک ہدف پر جمع کر دیا اور سب لوگ ایک ہی طریقے پر متحد ہو گئے۔ پوری قوم ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوگئی، سب کو وطن کے مستقبل کی تلاش تھی۔ میرے خیال میں ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو ماقبل اور مابعد کے درمیان ایک فیصلہ کن تاریخ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ابھی تک ہم نے جو بنیادی ہدف پورا کیا ہے وہ ’’حسنی مبارک‘‘ کے نظام حکومت کا خاتمہ ہے۔ اس ظالم نے اپنے اثر و رسوخ اور ملک کی دولت اور دیگر وسائل و ذرائع کا اپنی ذات کے لیے اندھا دھند استعمال کیا سیکورٹی کی طاقت کو شرفا کے تعاقب میں استعمال کیا اور ملک کے تمام اداروں کو اپنی پارٹی کا تابعدار بنا دیا… ہم نے صدر کی اقتدار سے بے دخلی کا بنیادی ہدف حاصل کر لیا، اب عبوری طور پر اقتدار مسلح افواج کی جنرل کمان کے حوالے ہے۔ فوج کی جنرل کمان نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ موجودہ عبوری نظم قومی حکومت کا متبادل ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سویلین جمہوری حکومت کو اقتدار سونپنے کا ایک طریقِ کار ہے۔ چنانچہ دستور میں ترمیم کا کام جاری ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اسے مکمل کر لیا جائے گا۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (مجلس عوام اور مجلس شوریٰ) کی تحلیل کا کام بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔
٭ شیخ القرضاوی نے ’’رفح‘‘ کی گزرگاہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا نئی حکومت عنقریب ایسا کرے گی؟
☼ حقیقت یہ ہے کہ ’’رفح‘‘ کی گزرگاہ ۲۴ جنوری تک جزوی طور پر ناگہانی اور انسانی حالات کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن اب جبکہ انقلاب کے ساتھ نئی استثنائی صورتحال پیدا ہوئی ہے تو وقت کے تقاضے کے ساتھ اس کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے عام ایمرجنسی حالات کو جو ملک میں موجود تھے تو ختم کر دیا ہے اور اب معاملات کو اپنی اصل پر لوٹانے کے لیے کم ازکم اتنا تو کرنا ہی ہوگا کہ ’’رفح‘‘ کی گزرگاہ کو ۲۴ جنوری سے پہلے والی پوزیشن بحال کرتے ہوئے انسانی ہنگامی حالات کے لیے دوبارہ کھول دیا جائے۔ (واضح رہے کہ رفح بارڈر کھولنے کا اعلان کر دیا گیا ہے) اور قوم کے اہداف میں سے جو چیز اس کے ایجنڈے میں شامل ہے وہ وطنِ عزیز کی حقیقی آزادی ہے، میرے خیال میں مصر کو اپنی قومی سلامتی اور بلند تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اس منطقے میں جس حقیقی پوزیشن کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ’’رفح‘‘ کی گزرگاہ کی بندش اور فلسطینی قوم کی ’’غزہ‘‘ میں ناکہ بندی تادیر باقی نہیں رہ سکتی ہے۔
٭ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ انقلاب مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو کوئی نئی شکل دے گا۔ خاص طور پر کیمپ ڈیوڈ معاہدے یا اسرائیل کو گیس سپلائی جیسے دوسرے معاہدوں کے تعلق سے کیا کوئی نئی صورتحال سامنے آئے گی؟
☼ ہماری نگاہ میں یہ دو الگ الگ معاملے ہیں، اول: ہم نے انقلاب کے پہلے دن ہی سے تمام شرکائِ انقلاب کو اس بات کی تاکید کی تھی کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں اور ضوابط کا ہر صورت میں پاس و لحاظ کرنا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی دو چیزیں پیش نظر رہیں گی: ان سارے حقوق و واجبات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ان معاہدوں کو محیط ہیں۔ اس لیے کہ سابقہ نظام نے تو محض اپنی بقا کی ضمانت کی بنیاد پر قومی امنگوں کو پامال کرتے ہوئے وہ معاہدے امریکا اور اسرائیل سے کیے تھے۔ دوم یہ کہ قوم کو اس بات کا پورا حق ہے کہ اپنے قانون و دستور کی روشنی میں اپنے مصالح و مفاد کا نئے سرے سے جائزہ لے اور تمام سابقہ معاہدوں کا پھر سے مطالعہ کرے تاکہ پوری قوم ان معاہدوں کے مثبت و منفی پہلوئوں سے اچھی طرح واقف ہو جائے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ نیا نظام سابقہ معاہدوں اور عہدو پیمان کو یکسر کالعدم کر دے گا۔ یہاں ہمارے پیش نظر صرف اسرائیل کے ساتھ کیا ہوا ’’امن معاہدہ‘‘ نہیں ہے بلکہ ہم ایک عمومی پالیسی کا ذکر کر رہے ہیں۔
٭ کیا گزشتہ نظام کے زوال کے ساتھ کوئی سمجھوتا ہوگا؟
☼ مصری قوم کے اندر ایسا کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا ہے کہ وہ کسی سے انتقام لے یا ملک میں فساد کے ذمہ داروں کے ساتھ معرکہ آرائی کرے حالانکہ ان لوگوں نے قوم کو اس کے حق سے بالکل محروم کر دیا تھا۔ البتہ یہ ضرور ہوگا کہ فساد کے ذمہ دار اشخاص کی مکمل صفائی کر دی جائے تاکہ آئندہ اقتدار کی پرامن منتقلی کی ضمانت فراہم کی جاسکے۔ ہم اس کے ساتھ پیچھے نہیں لوٹنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر ہبہ رؤف
٭ انقلاب کی کامیابی میں خواتین کا کیا کردار رہا ہے؟
☼ انقلاب کے دنوں میں خواتین کی حاضری بہت واضح تھی۔ بہت سی بے پردہ دوشیزائوں نے پوری قوت سے انقلاب میں حصہ لیا اور رضاکارانہ طور پر مختلف طرح کے کاموں میں سرگرم عمل رہیں۔ ان کے علاوہ عام سطح کی دوشیزائوں نے بھی جو وقتی طور پر انقلاب سے متاثر ہوئیں اس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ اس میں سے کچھ گشتی شفاخانوں میں لگ گئیں اور کچھ مظاہرین کی خدمت کرنے لگیں۔ اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں سے متعلق نوجوان لڑکیوں نے بھی حصہ لیا۔ اسی طرح الاخوان المسلمون کی خواتین اور دوشزائیں برابر ’’میدان تحریر‘‘ میں مقیم رہیں۔ ان کی شرکت اتنی واضح اور قابلِ لحاظ تھی کہ ہر آدمی کھلی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا تھا اور الاخوان المسلمون سے وابستگی کی وجہ سے وہ بہت اچھی طرح منظم تھیں۔
٭ میدانِ تحریر کے دھرنے میں اخوان کی عورتوں کے کردار کو ذرائع ابلاغ نے نظرانداز کیا ہے اور ساری توجہ بے پردہ دوشیزائوں پر مرکوز کی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گی؟
☼ اخوان سے متعلق خواتین پوری قوت کے ساتھ ’’میدان تحریر‘‘ میں موجود تھیں۔ مزید برآں وہ عام دوشیزائیں تھیں جن کے چہرے سے معصومیت او رسادگی جھلک رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے بعض دو ہفتے میدان میں مقیم رہیں۔ یہ بے چاری اپنے ان بھائیوں اور والدین کے ساتھ آئی تھیں جو ایک دن کے دھرنے کے لیے میدان میں آئے تھے۔ اس کے بعد وہ چلے گئے لیکن وہ لڑکیاں ان کے ساتھ واپس نہیں گئیں اور حالات کی تبدیلی دیکھ کر انہوں نے ’’میدان تحریر‘‘ میں موجود رہنے کا فیصلہ کیا اور باقاعدہ دو ہفتے رہیں۔ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھا۔
٭ افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ اخوان انقلاب کو اغوا کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
☼ اگر اس انقلاب کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ یہ ایک طویل سلسلے کا ایک جزو ہے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ اخوان یقینی طور پر اس تاریخی احتجاجی جلوس میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الاخوان المسلمون کے لوگ اس انقلاب کا ایک فعال بنیادی اور مرکزی عنصر رہے ہیں۔
اور کسی کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ اخوان پر الزام لگائے کہ وہ انقلاب پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں یا ان نوجوانوں کو اپنے قابو میں لینا چاہتے ہیں جنہوں نے ۲۵ جنوری کو نکلنے کی دعوت دی تھی۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اگر اخوان کے لوگ ان نوجوانوں کے شانہ بشانہ پوری قوت سے نہ کھڑے ہوئے ہوتے تو اس انقلاب کے لیے کامیابی مقدر نہ ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب لوگ جانتے ہیں۔ (یہاں تک کہ حسنی مبارک نے بھی جاتے جاتے اخوان کا نام لیا تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ سب اخوان کی کارستانی ہے۔ مترجم)
٭ اس انقلاب کی کوئی ایک قیادت کیوں نہ رہی۔
☼ اگر اس انقلاب کی کوئی قیادت ہوتی تو یہ کامیاب نہ ہوتا۔ قیادت یا تو گرفتار کر لی جاتی یامار دی جاتی اور اس طرح یہ انقلاب اپنی منزل مقصود کو نہ پہنچتا۔ اسی لیے اس انقلاب نے لامتناہی عوامی قوت پر اعتماد کیا۔ انقلاب کے حقیقی چیمپین عام لوگ تھے جنہیں کوئی نہیں جانتا۔ جو لوگ ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس کے اوپر چڑھ گئے اور جنہوں نے سینٹرل سیکوریٹی فورسز کی گاڑیوں سے فوجیوں کو نکالا اور گاڑیوں کو جلا ڈالا یہ سب کے سب عام لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور خود انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا اقدام کر ڈالیں گے۔ اس لیے میرے خیال میں اس انقلاب کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ کسی قیادت کا سامنے نہ آنا ہے۔ اگر ہم قدیم تنظیمی عقل سے سوچتے تو انقلاب کو یکدم سے پیس کر رکھ دیا جاتا یا پوری تنظیم کو گرفتار کر لیا جاتا۔ اس طرح یہ موضوع ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔
ترجمہ و تلخیص: عبدالحلیم فلاحی
(بشکریہ: روزنامہ ’’المجتمع‘‘ کویت)
Leave a Reply