اخوان المسلمون وقت کے انتظار میں!

اخوان المسلمون ۵ سال قبل مصری پارلیمنٹ میں ۲۰ فیصد نشستیں حاصل کر کے طاقتور حزب اختلاف کے روپ میں سامنے آئی تھی۔ کسی سیاسی جماعت کے لیے ایسے وقت میں، جب کہ اس پر سیاست میں حصہ لینے پر مکمل پابندی عائد ہو اور یہ کہ گزشتہ ۱۰ برسوں میں ’’جمہوریہ مصر‘‘ میں ہونے والے انتخابات آزادانہ اور شفافیت سے کوسوں دور رہے ہوں، ایک متاثر کن کارنامہ ہوتا ہے۔ مصر کے صدر حسنی مبارک کی جانب سے عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کے عمل سے الگ کرنے کے اقدام پر تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ نومبر کے عام انتخابات میں ووٹوں کا تناسب بہت زیادہ ہو گا۔ اس کے باوجود حزب اختلاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور اخوان المسلمون نے اس کی پیروی کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپنی ۸۸ نشستیں کھو دیں۔

اخوان المسلمون بظاہر قاہرہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنے ووٹ چھوڑنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ قاہرہ میں ایک امریکی جامعہ کے مشرق وسطیٰ کی تاریخ کے پروفیسر خالد فہمی کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون نے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ۲۰۱۲ء میں حسنی مبارک کی کامیابی کے امکانات تو کم کر دیے ہیں تاہم اس انتخاب میں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ خالد فہمی یہ سمجھتے ہیں کہ اخوان انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے اپنے سماجی رابطوں کے پھیلائو اور وزارتِ مذہبی امور تک رسائی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔

مصر کی ڈیموکریٹک فرنٹ پارٹی کے سینئر رکن محمد نوصیر کہتے ہیں کہ ’’اخوان المسلمون اپنی بنیاد قائم کر رہی ہے‘‘۔ جارج ڈبلیو بش کی ریاست کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری J.Scott کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون ابھی اتنی مضبوط نہیں کہ حسنی مبارک یا ان کے بیٹے کمال مبارک کو شکست دے سکے۔ اسی لیے یہ اس وقت کا انتظار کر رہی ہے جب چیلنجز سے نبردآزما ہو سکے، شاید ۱۰ یا ۱۵ سال۔ اخوان شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ مصر تو ان کا اپنا ہی ملک ہے اور ان کی یہ سوچ درست بھی ہو سکتی ہے۔

(بشکریہ: ’’نیوزویک‘‘ پاکستان۔ ۴؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*