ایک اخوانی، لیبیا کی نئی سیاسی جماعت کے سربراہ منتخب

لیبیا کی اسلام پسند و آزادی پسند نئی سیاسی جماعت نے تین دن کے اجتماع کے بعد ایک اخوانی محمد ساوان (Sawan) کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔

محمد ساوان سابق آمر معمر قذافی کے دور میں سیاسی قیدی رہے، قذافی نے ہر قسم کی سیاسی جماعت کے قیام پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ یہ ملک سے غداری ہے۔ نئی قائم ہونے والی جسٹس اینڈ کنسٹرکشن (Justice and Construction) پارٹی کی سربراہی کے لیے انہوں نے موجود افراد میں سے اکیاون (۵۱) فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ساوان نے کہا کہ ’’اس وقت میرے جذبات عجیب ہو رہے ہیں، سیاسی جماعت بنانے کے جرم میں قذافی نے مجھے قید رکھا، میں ان لوگوں کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے یہاں مجھ پر اعتماد کیا‘‘۔

دارالحکومت میں یہ اجتماع بھرپور تھا، سب چاہتے تھے کہ نئی جماعت بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس میں ہاتھ اٹھا کر کئی معاملات پر رائے لی گئی، جس میں پارٹی کا نام بھی شامل ہے۔ پارٹی کے منشور اور پروگرام پر اب بھی بحث جاری ہے۔ مگر اخوان المسلمون، اسلام پسند اور آزادی پسند متحد ہیں۔ بقول محمد ساوان ’’ہم اسلامی دائرہ میں ایک قومی جماعت تشکیل دینا چاہتے ہیں، جس میں سب لوگوں کے خیالات کو جگہ دی جاسکے اور سب کا احترام کیا جائے۔

اس وقت لیبیا میں کوئی قانون لاگو نہیں ہے جو کسی قسم کی سیاسی جماعت کے قیام میں رکاوٹ ڈالے۔ آج کل بہت سی جماعتیں اور اتحاد تیزی سے بن رہے ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں کئی دہائیوں سے آمر قذافی کا سخت قانون نافذ تھا جو پچھلے برس کی تحریک میں جاں بحق ہوگئے تھے، ایسا مرحلہ آنا ہی تھا کہ ضروری اقدامات کیے جاتے تاکہ سیاست کی نشوونما ہو۔

اس اجتماع کا انتظام کرنے والے نظار کاوان (Nizar Kawan) نے کہاکہ ’’ہماری جماعت جمہوری اصولوں کی بنیاد پر کاربند ہے‘‘ اپنی رائے کے اظہار پر کچھ لوگ آبدیدہ ہوگئے۔ برطانیہ میں رہنے والے خلیل سوالیم نے کہاکہ ’’ہم اپنے سربراہ کو منتخب کر کے لیبیا میں نئے دَور میں داخل ہو رہے ہیں‘‘۔

عرب انقلاب کے آغاز سے اس خطے میں ہونے والے انتخابات میں اسلام پسندوں کو فائدہ پہنچا۔ لیبیا کے مشرق و مغرب میں مصر اور تیونس اس کی مثال ہیں، شمالی افریقا کے اس ملک میں، جہاں کی شناخت پہلے ہی مسلمان اور اعتدال پسندی ہے، جون میں پارلیمانی انتخابات ایک دستور ساز مجلس کے لیے ہو رہے ہیں۔ ماجدہ فلاح نے خواتین کے ایک خوش مگر چھوٹے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سب اسلام پسند ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں کی قیادت کریں‘‘۔

پارٹی سربراہ محمد ساوان نے امید ظاہر کی کہ خواتین جسٹس پارٹی میں نمایاں کام انجام دیں گی، کیونکہ خواتین پہلے ہی سول سوسائٹی میں متحرک ہیں۔ سو سے زائد خواتین کے گروپ نے اس سہ روزہ اجتماع کو ممکن بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین انتخابات کے معاملات چلا سکتی ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔

’’ترہونہ‘‘ کی ایک خواتین تنظیم کی ابلہ زینب نے کہا کہ ’’اس ابھرتی ہوئی جماعت میں شامل جانی پہچانی شخصیات کی وجہ سے میں اس سے متاثر ہوئی، خاص کر اس کے منتخب سربراہ سے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا یہ اظہار کہ ملک کے طول و عرض میں عورتوں کے وہی حقوق و فرائض ہیں جو مردوں کے ہیں، متاثر کن ہے۔

نئی قائم ہونے والی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ اسلام ہی قانون کا ماخذ یا منبع ہونا چاہیے۔ ’’ترہونہ‘‘ ہی کے اسامہ محمد نے کہا کہ ’’پارٹی کھڑی ہی اس بنیاد پر ہے کہ اس نے اسلامی قانون اور شورائیت کو اہمیت دی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’لیبیا کے سب لوگ مسلمان ہیں، اور اختلاف کی صورت میں شریعت ہی فیصلہ کن قوت ہے‘‘۔ (ترجمہ: قاضی مظہرالدین طارق)

(“Muslim Brotherhood Man to Lead New Libyan Party”… Daily “Dawn”. March 3rd, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*