
مصر کے صدارتی انتخاب میں اخوان المسلمون کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے امیدوار محمد مرسی کی کامیابی کا امکان اب روشن ہوگیا ہے۔ یہ کامیابی صرف مصر میں نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی وسیع تر اثرات کی حامل ثابت ہوگی۔ جب بھی اخوان کا ذکر چھڑتا ہے، سبھی تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں۔ کئی سوال ذہنوں میں ابھرتے ہیں۔ کیا واقعی یہ لوگ جمہوریت پسند ہیں؟ یہ آخر چاہتے کیا ہیں؟ وقت آگیا ہے کہ تجزیہ کار اور تجزیہ نگار اس نوعیت کے سوالوں کو کسی بلند تر اتھارٹی کے سپرد کردیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے افراد کیا چاہتے ہیں اور بالخصوص حکومتی عہدوں پر ان کی تمنا کیا کرنے کی ہے؟
اگر ۱۶ ؍اور ۱۷ ؍جون کے رن آف الیکشن میں کوئی دھاندلی نہ ہوئی اور بیرونی قوتوں نے کوئی کھیل کھیلنے کی کوشش نہ کی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اخوان المسلمون کے امیدوار محمد مرسی معزول صدر حسنی مبارک کے آخری وزیر اعظم احمد شفیق کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مصر میں پارلیمنٹ اور ایوان صدر دونوں پر اخوان متصرف ہوگی۔ اقتدار کے ایوانوں سے فوج کو نکالنے اور اس کا اثر و رسوخ کم کرنے میں غیر معمولی کامیابی ملے گی۔ عدلیہ اب تک فوج کے زیر اثر رہی ہے، اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں اسے بھی قدرے آزادی مل سکتی ہے۔ مجموعی طور پر بہت سی نمایاں تبدیلیاں متوقع ہیں۔
اخوان المسلمون اندرونی سطح پر یعنی مصر کے معاملات درست کرنے کے حوالے سے کیا کرنا چاہتی ہے، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ سماجی خدمات اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے اخوان بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ مصر کی معاشی پالیسی بہت حد تک واشنگٹن کے ساتھ مل کر چلنے کا نام ہے، ساتویں صدی عیسوی کے اسلامی ماحول سے اس کی مطابقت کم ہے۔ کیا اخوان المسلمون اسلامی قوانین پر عمل کرے گی؟ اخوان کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی قوانین بھی نافذ کریں گے۔ کوشش یہ ہوگی کہ کوئی بھی کام مروج طریق کار سے باہر نہ ہو۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں اخوان المسلمون کیا کرے گی؟ اخوان المسلمون قیادت نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر نظر ثانی کرے گی اور اسرائیل سے مذاکرات بھی کیے جائیں گے مگر دوسری طرف اسرائیل شاید اس معاہدے میں کسی نمایاں اور بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہ ہو۔ امریکی حکام کو ملاقاتوں میں بتادیا گیا ہے کہ اخوان المسلمون کا علاقائی ایجنڈا ہے اور یہ ایجنڈا امریکا کے لیے کسی حد تک درد سر ثابت ہوسکتا ہے۔ اخوان المسلمون قیادت غزہ کے محاصرے کے خلاف ہے مگر ساتھ ہی اس نے غزہ میں اپنے سیاسی کزنز سے کہہ دیا ہے کہ اپنے کاز کی تکمیل کے لیے انہیں فی الحال انتظار کرنا پڑے گا۔
معاشی بحالی اخوان کے لیے سب سے بڑا ہدف ہوگا۔ سابق کرپٹ انتظامیہ سے گلو خلاصی کو لوگوں نے کسی بڑی اور حقیقی تبدیلی کے لیے کافی سمجھ لیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی شکایات رفع کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا نئی حکومت کے لیے ایک بڑا درد سر ہوگا۔ اخوان کے لیے کچھ کر دکھانا حقیقی امتحان ہے کیونکہ وہ سخت نظم و ضبط کی حامل تنظیم ہے جسے وسیع تر بنیاد والی سیاسی جماعت کے طور پر پروان نہیں چڑھایا گیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ ہی مدت میں اخوان جس نوعیت کی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی، اسی سے یہ طے ہوگا کہ وہ آگے چل کر کیا کرسکے گی۔ چند ماہ پہلے تک اخوان کے بیشتر رہنما یہ سوچ کر پریشان تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ غیر سیاسی بازو کو کس طور فعال کرسکیں گے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اخوان کے بیشتر رہنماؤں کو اندازہ ہے کہ انہیں سیاسی طور پر کیا کرنا ہے اور وہ کس طرح اپنے تمام فرائض عمدگی سے بجا لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہیں اپنے بدلتے ہوئے کردار اور عوام کی توقعات کا پورا احساس ہے۔
اخوان المسلمون کے لیے بنیادی مسئلہ خود کو سیاست کے لیے پوری طرح تیار کرنا ہے۔ اخوان اب تک علمی سطح پر کام کرتی رہی ہے۔ سماجی خدمات کا شعبہ بھی فعال رہا ہے مگر زیادہ زور شرعی قوانین پر رہا ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد اخوان کا کردار تبدیل ہوگا۔ اب کیا وہ غزہ میں حماس کی طرح ہو جائے گی جو اب اپنے آپ کو سیاست کے حوالے کرچکی ہے؟ وجودیت کا فلسفہ اخوان کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا؟ فرانسیسی وجودیت میں وجود کو جوہر پر فوقیت حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہی طریقہ اب اخوان بھی اختیار کرے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اخوان میکسیکو اور جاپان کی طرز پر حکومت قائم کرے گی جہاں بہت حد تک جمہوریت نہیں ہے مگر جمہوری انداز کے ادارے قائم کرکے بہتر انداز سے حکومت چلائی جارہی ہے؟ کیا اخوان کے بیشتر کارکن سیاست سے بیزار ہوکر دوبارہ علمی کاموں، تبلیغ، اصلاحِ معاشرہ اور بہبودِ عامہ کی طرف چلے جائیں گے؟ یا پھر یہ ہے کہ اخوان جرمن کرسچین ڈیموکریٹس کی طرز پر رجعت پسند سیاسی تنظیم میں تبدیل ہو جائے گی جو ووٹروں کی مرضی کے مطابق اقتدار میں آتی ہے یا نکل جاتی ہے؟
اخوان المسلمون کے سامنے کئی راستے ہیں۔ اس کی کارکردگی کا مدار بہت حد تک دوسروں کی مرضی پر بھی ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ غیر اسلام نواز عناصر اخوان کو کس حد تک کام کرنے دیں گے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ اگر انہوں نے اخوان کو ڈھنگ سے کام کرنے دیا تو چند ایک تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مصر میں آئین کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے۔ اگر مصری سیاسی ڈرامے کے کرداروں نے اصولوں کو ترجیح دی اور ایک قابل عمل آئین کی تشکیل ہونے دی تو بہت کچھ اچھے طریقے سے تبدیل ہوگا۔ کیا مصر کسی بھی نوعیت کی خانہ جنگی کے بغیر آگے بڑھتا رہے گا؟ علاقے کے بیشتر ممالک کے اس خدشے نے ابھی دم نہیں توڑا کہ مصر میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔
مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پورے خطے کی نظر ہے۔ خطے کے بیشتر ممالک میں اسلام نواز عناصر اخوان المسلمون سے بے حد متاثر ہیں اور بیشتر امور میں رہنمائی کے لیے اخوان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اخوان کی کارکردگی ہی ان کے لیے تحریک کا سامان کرے گی۔ مصر میں اخوان المسلمون کو بہت کچھ کر دکھانا ہے۔ ان کی کامیابی پورے خطے میں اسلام نواز عناصر کے حوصلے بلند کرے گی۔ غزہ میں حماس کے ارکان اپنے حالات پر توجہ دینے سے زیادہ اخوان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اخوان کا کامیابی سے آگے بڑھنا بہت سی اہم تبدیلیوں کی نوید لائے گا۔
مصر میں انقلاب نے جمہوریت کی راہ ضرور ہموار کی ہے مگر یہ ضمانت کوئی نہیں دے سکتا کہ یہ جمہوریت کامیابی سے ہم کنار بھی ہوگی۔ مصر میں اخوان جو کچھ کرے گی اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اخوان کی کارکردگی پر دوسروں کا ردعمل کیا ہوگا۔ اس ردعمل ہی سے یہ طے ہوگا کہ مصر حقیقی جمہوریت کی طرف بڑھے گا یا دوبارہ آمریت اور مطلق العنانیت کی طرف چلا جائے گا؟
(“Muslim Brotherhood Win will Resonate for beyond Egypt”… “Gaurdian”. May 27th, 2012)
Leave a Reply