’’اخوان المسلمون عوام کے دِلوں پر راج کرتی ہے!‘‘

کائنات عرب بیدار ہو رہی ہے، اور عالم اسلام تو ایک طرف، دنیا بھر کی نظریں عرب بہار اور اس کے ثمرات پر مرکوز ہیں، حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر تبدیلیاں عوامی امنگوں کے مطابق رہیں تو یہ نہ صرف اس ملک کی بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے بھی نشاۃ ثانیہ ثابت ہوں گی۔

مصر میں آنے والی تبدیلی نے مغرب، خصوصاً اسرائیل اور امریکا کے پالیسی سازوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اپنے تاریخی پس منظر اور محلِ وقوع کی اہمیت کی وجہ سے مصر میں ہونے والی معمولی تبدیلی کے جھٹکے بھی دنیا بھر میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ اور خصوصاً جب معاملہ اسلام پسندوں کی کامیابی کا ہو تو رائی کا پہاڑ تو کھڑا ہو ہی جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ احتجاج، مظاہرہ، اعتراض، تنقید سب جمہوری حق ہیں، جب کہ تشدد، دنگافساد اور قتل و غارت بے دلیل لوگوں کے ہتھیار۔ اور چونکہ مصر میں حسنی مبارک کی تیس سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد، اس کی باقیات کو عوامی نمائندگی کے ہر پلیٹ فارم پر ناکامی ہو رہی ہے، اسی لیے اب وہ جلائو و گھیرائو کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ مصری سیاست میں خاصی ہلچل ہے اور اسی تناظر میں وہاں کی حکمران جماعت، اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما پروفیسر ڈاکٹر شیخ عبدالرحمن عبدالحمید البر نے پاکستان کا دورہ کیا، اس موقع پر روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے نمائندے عدنان رضا نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو نذرِ قارئین ہے، مترجم کے فرائض عبدالغفار عزیز نے انجام دیے۔


پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن عبدالحمید البر، جامعہ ازہر کے اصول دین فیکلٹی کے ڈین، اخوان المسلمون کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ممبر (اٹھارہ اراکین میں سے ایک) اور دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ اخوان المسلمون کی مقبولیت اور حمایت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’’ملک بھر میں اخوان کے لاکھوں اراکین ہیں اور اس کے حامیوں کی تعداد تیزی سے بڑھ بھی رہی ہے۔ تمام تر پروپیگنڈے اور سازشوں کے باوجود مصری عوام نے دستور کے حق میں ووٹ دے کر اخوان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ مغربی میڈیا جو چاہے دکھاتا رہے، حقیقت کچھ اور ہے۔ اخوان عوام میں بے پناہ مقبول ہے اور مارچ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی‘‘۔

مصری صدر محمد مرسی کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے، جب کہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی، اخوان کا سیاسی ونگ ہے۔ مرسی حکومت کو اقتصادی بدحالی، عالمی دبائو اور اندرونی سازشوں سمیت متعدد مسائل کا سامنا ہے، نہ صرف مصری بلکہ عالم اسلام کے محکوم و بے بس مسلمان اخوان المسلمون کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے شیخ عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ ’’ہماری ترجیح عوامی مسائل کا خاتمہ اور معاشی استحکام ہے، ہمارا انتخابی نعرہ تھا ’’تعمیر و ترقی عوام کا فیصلہ‘‘ ہم اس وعدے کو پورا کریں گے، اس لیے ہم کسی تنازعے میں الجھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ہم کیمپ ڈیوڈ معاہدے، شرم الشیخ معاہدے سمیت تمام عالمی معاہدوں کی پاسداری کریں گے، مگر ماضی کے برخلاف فریق ثانی کو بھی ان معاہدوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ تاہم نئے دستور کے تحت اب کسی بھی معاہدے کا اختیار فردِ واحد کے پاس نہیں رہا۔ صدر کسی بھی معاہدے پر دستخط سے قبل پارلیمنٹ سے منظوری کا پابند ہوگا، نیز وقت و حالات کے مطابق کسی بھی معاہدے پر نظرثانی کی جاسکتی ہے، مگر فی الوقت ہماری توجہ ملکی مسائل کے خاتمے پر مرکوز ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ماضی میں علانیہ معاہدے کے ساتھ خفیہ ضمیمے ہوا کرتے تھے، بسا اوقات تو معاہدے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی، کیونکہ اسرائیل حسنی مبارک کو اپنا اسٹریٹجک خزانہ سمجھتا تھا۔ حسنی مبارک دور اور اخوان المسلمون کی حکومت کی پالیسی میں فرق واضح کرنے کے لیے غزہ کی جنگ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ماضی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں مصر برابر کا شریک ہوتا تھا، جب کہ اس دفعہ نہ صرف مصری صدر نے فوری مذمت کی، بلکہ مصری وزیراعظم نے اگلے ہی دن غزہ کا دورہ بھی کیا اور رفاہ بارڈر کھول دیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مصر میں آئے اور مصری دبائو ہی کی وجہ سے اسرائیل اپنے عزائم میں ناکام رہا‘‘۔

مرسی حکومت کی ترجیحات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کو اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ معیشت کا معاشرے پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ ماضی میں ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ہے، نجکاری کے نام پر ملکی اثاثوں کو کوڑیوں کے مول حکمران طبقے کو فروخت کیا گیا۔ حال یہ تھا کہ کچھ لوگ روزانہ کروڑوں کما رہے تھے تو کچھ کو دو وقت کی روٹی تک نصیب نہیں تھی۔ اب عالم یہ ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ حسنی مبارک دور کے خاتمے پر ملکی خزانے میں ۳۶ ملین ڈالر تھے، مگر عبوری حکومت نے کچھ ہی عرصے میں ۲۱؍ارب ڈالر خرچ کر کے ملکی خزانہ ۱۵؍ارب ڈالر تک پہنچا دیا، یوں جب اخوان کی حکومت آئی تو خزانہ خالی ملا، مگر ہم نے چھ ماہ کی مختصر مدت میں بدترین حالات میں خزانے کا تحفظ کیا، بلکہ اب ملکی خزانہ بھر بھی رہا ہے۔ ملکی معیشت بحالی کی راہ پر ہے‘‘۔

اندرونی خلفشار اور بیرونی دبائو کے باعث مصری معیشت کیسے سنبھلے گی؟ اس حوالے سے شیخ البر نے کہا کہ ’’اخوان نے معیشت کی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ نہر سوئز کے دونوں کناروں پر، جہاں سے دنیا کی ایک تہائی تجارت ہوتی ہے توجہ دی جارہی ہے، وہاں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر اقتصادی بہتری لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ مغربی صحرا اور صحرائے سینا میں چھ لاکھ ایکڑ زمین قابلِ کاشت بنائی جائے گی، جس سے لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے، بلکہ ملکی غذائی ضرورت بھی پوری ہوگی۔ نوبل انعام یافتہ مصری ماہرِ اقتصادیات، احمدازویل کی سربراہی میں دنیا بھر میں موجود ۱۵۰؍مصری ماہرین پرمشتمل ازویل یونیورسٹی قائم کر دی گئی ہے اور انہیں فوری طور پر اقتصادی اصلاحات متعارف کروانے کا ٹاسک دیا گیا ہے کرپشن کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ایک اسکیم کے تحت ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو کرپشن کی رقم واپس کرنے کی صورت میں عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس مہم کا آغاز ہو گیا ہے اور ہمارا اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ۲۰؍ارب مصری پائونڈ قومی خزانے میں جمع ہو جائیں گے۔ اخوان حکومت نے نئے دستور میں مزدور کی اجرت کو مالکان کی آمدن سے مشروط کر دیا ہے، ادارہ اگر منافع میں جارہا ہے، تو مزدور کی اجرت میں ساتھ ہی اضافہ ہوگا۔ یہ نہیں کہ مالک تو پیداوار کے آسمانوں کو جاچھوئے اور کارکن محدود تنخواہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ اسی طرح یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مزدور کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا تعین ریاست کیا کرے گی، تاکہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہ ہوتا چلا جائے۔

حسنی مبارک کی باقیات مصری معاشرے میں زہر کی طرح سرائیت کی ہوئی ہیں، جو کسی صورت ترقی و تبدیلی برداشت کرنے کو تیار نہیں، حسنی مبارک کے خلاف ٹرائل کی راہ میں بھی یہی باقیات رکاوٹ ہیں۔ اس حوالے سے شیخ البر نے بتایا کہ ’’حسنی مبارک کے خلاف عدالتی ٹرائل جاری ہے، ذیلی عدالت نے انہیں اور ان کے دور کے وزیر داخلہ کو عمرقید، جبکہ دیگر افراد کو باعزت بَری کر دیا تھا، مگر اب اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ان کا دوبارہ ٹرائل ہو رہا ہے، حسنی مبارک کو اپنے گناہوں کی سزا ضرور ملے گی۔ تاہم ریاستی اداروں میں موجود ان کی باقیات مسلسل سازشوں میں مگن ہیں، مگر ان کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہوں گے۔ ملک میں افراتفری کی فضا قائم کر کے اخوان حکومت کو ناکام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، حسنی مبارک کے ساتھی، کرپٹ افراد، اپوزیشن، لبرل، غیر ملکی ایجنٹ اور جرائم پیشہ افراد مل کر پرتشدد احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کا گٹھ جوڑ ہو چکا ہے، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے جرائم پیشہ افراد ہیں، جنہیں انقلاب دشمن عناصر وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں، جو انقلاب کے فوری ثمرات کے خواہاں ہیں اور حسنی مبارک کے خلاف فیصلے سے بھی انہیں مایوسی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بھی قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں، مگر ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔

پُرتشدد مظاہروں میں اخوان کے دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا، اس حوالے سے شیخ عبدالرحمن نے کہا کہ ’’اسلام دشمن عناصر چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے اخوان کو بھی مشتعل کریں، تو ان کے لیے اخوان کا پیغام واضح ہے کہ ہم نے ساٹھ برس تک بغیر دفاتر کے عوام میں کام کیا ہے، ہم مصریوں کے دلوں میں رہتے ہیں، اس طرح کی کارروائیوں سے وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، اخوان کو اس کی ذرّہ برابر بھی پروا نہیں۔ ابھی حال ہی کی مثال لیجیے، ۲۶جنوری ۲۰۱۳ء کو عدالتی فیصلے کے خلاف پُرتشدد احتجاج کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے، اس فیصلے کا اخوان حکومت سے کیا تعلق، یہ تو گزشتہ سال پورٹ سعید میں فٹ بال میچ کے دوران ہونے والے قتل عام سے متعلق عدالتی کارروائی ہے، مگر ہمیں معلوم ہے کہ حسنی مبارک کی باقیات اس فیصلے کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، ملک میں افراتفری کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے پرتشدد کو ہوا دی جارہی ہے، مگر میں یہ واضح کر دوں کہ مخالفین کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہوں گے۔ اپریل میں ہونے والے عام انتخابات میں اخوان المسلمون ایک مرتبہ پھر ایک قوت بن کر ابھرے گی، ان شاء اللہ۔ اخوان نے کسی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ اخوان نے کمال صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے تشدد کا جواب پرامن لیکن عظیم الشان مظاہروں سے دیا۔ مظاہروں کا ایک روز تو ایسا بھی تھا کہ خود مغربی ذرائع کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افراد نے دستور اور صدر مملکت کی تائید و حمایت میں مظاہرہ کیا۔ الحمدللہ گزشتہ ہر بحران کی طرح اس مرتبہ بھی دشمن کی سازشیں مصر کی منتخب قیادت کے لیے سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔ دیگر کئی امور کے علاوہ ایک خیر یہ برآمد ہوا کہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سلفی تحریک ’’النور‘‘ اور اخوان المسلمون سے علیحدہ ہو کر الگ پارٹی ’’الوسط‘‘ بنانے والوں سمیت، تمام محب وطن عناصر نئے دستور کے پشتی بان بن گئے‘‘۔

اخوان المسلمون کے خلاف اندرون و بیرون ملک سازشیں عروج پر ہیں، ان کے بارے میں شیخ عبدالرحمن نے کہا کہ ’’حالیہ بحران کا آغاز ۲۲ نومبر ۲۰۱۲ء سے ہوا، جب صدر محمد مرسی نے دستوری اعلان کے ذریعے استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ یہ اختیارات دستور کی منظوری تک کی مختصر، محدود اور معیّن مدت کے لیے تھے۔ اس اعلان کو فرعونیت، نئی آمریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیے گئے، لیکن اسرائیلی میڈیا کی ایک خبر نے اس سازش پر سے پردہ اٹھا دیا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ہفتے قبل حسنی مبارک کے سابق وزیر خارجہ عمروموسیٰ نے مقبوضہ فلسطین کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس میں وہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیپی لیننی سے ملے۔ لیننی نے انہیں اسرائیلی قیادت کا پیغام پہنچایا کہ ’’صدر مرسی کو اندرونی سیاسی خلفشار میں الجھایا جائے‘‘۔

عمرو موسیٰ اس ایک سو رکنی دستوری کونسل کے رکن تھے جو دستوری مسودہ تیار کر رہی تھی۔ انہوں نے مصر واپس آتے ہی دستور کی بعض شقوں پر اعتراض جَڑ دیا۔ اتفاق سے یہ وہی شقیں تھیں، جو خود موصوف ہی نے تجویز کی تھیں۔ پھر کونسل کے سربراہ بیرسٹر غریانی سے ’’تُو تُو مَیں مَیں‘‘ کرتے ہوئے دستوری کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ اسی اثناء میں غزہ پر حملہ شروع ہوگیا۔ لیکن صدر مرسی نے کسی اندرونی سیاسی تنازعے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، پوری قوت سے اہل غزہ کا ساتھ دیا اور بالآخر آٹھ روز کی جنگ کے بعد اسرائیل کو خود، فلسطینی شرطیں مانتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔ ان ہی دنوں قاہرہ کے ایک بڑے بنگلے میں ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں حسنی مبارک کی باقیات میں سے اس کے وفادار جج تہانی الجبالی، جوڈیشل کلب کے صدر احمد الزند، حسنی مبارک کے وزیر خارجہ عمروموسیٰ اور محمد البرادعی جیسے افراد شریک ہوئے۔ انہوں نے منصوبہ تیار کیا کہ دستوری عدالت کے ذریعہ دستور ساز کونسل کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا یعنی سینیٹ کو بھی توڑ دیا جائے۔ باقی رہ جائے گا صدارتی عہدہ، تو اسے بھی عدالت میں چیلنج کر دیا جائے۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی صدر محمد مرسی تک پہنچ گئی۔ دستوری مسودہ تقریباً تیار تھا، جو ۱۰؍دسمبر سے پہلے صدر کو پیش کیا جانا تھا اور پھر ۱۵؍روز کے اندر اس پر ریفرنڈم ہونا تھا۔ صدر مرسی نے احتیاطاً پیش رفت کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا۔ اندازہ لگائیں، جہاں سازشوں کا یہ عالم ہو، وہاں کام کرنا کتنا دشوار ہوگا، مگر ہمارے حوصلے بلند ہیں، ہم ان شاء اللہ مصری تاریخ بدل دیں گے‘‘۔

مصری حکومت پر تنقید جاری ہے، اسلامی قوانین کا نفاذ ان کا سب سے بڑا جرم ہے، اس لیے ذرائع ابلاغ کا شور و غوغا بھی عروج پر ہے۔ تاہم، صدر محمد مرسی کی کارکردگی بے مثال ہے، ان کی کارکردگی سے متعلق شیخ البر نے کہا کہ ’’محمد مرسی نے بہت کم مدت میں ناقابلِ یقین کام کیے ہیں، جو صرف اور صرف اللہ کی مدد و تائید ہی سے ممکن ہیں۔ ہم نے مصر پر چھائے ساٹھ سالہ فوجی تسلط کا خاتمہ کردیا ہے اور فوج کو ایک ادارے کی حیثیت تک محدود کردیا ہے۔ لوگ سمجھ رہے تھے یہ اتنا مشکل کام ہے کہ اس میں کم ازکم دس سال لگ جائیں گے، مگر مرسی حکومت نے صرف چھ ماہ میں یہ کر دکھایا، اسی طرح اتنی قلیل مدت میں ہم نے ایک متفقہ اور مصری تاریخ کا جامع جمہوری دستور دیا ہے۔ جب صدر مرسی نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک میں توانائی کا بحران بدترین صورت اختیار کر گیا تھا، الحمدللہ ہم نے اس بحران پر خاصی حد تک قابو پالیا ہے۔ انتشار اور غیر یقینی کی کیفیت کی وجہ سے ملک میں غذائی بحران پیدا ہوگیا تھا، مرسی حکومت نے فوری طور پر روٹی پر سبسڈی دے کر عوام تک سستی روٹی کی رسائی ممکن بنائی۔ اخوان المسلمون حکومت کی آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے مصر کا علاقائی اور عالمی کردار بحال ہو رہا ہے‘‘۔

عالمی سازشوں اور حماس حکومت کے خاتمے جیسے خدشات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’’مصر کو غزہ نہ سمجھا جائے، اخوان المسلمون عوامی طاقت سے اقتدار میں آئی ہے اور وہ کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی‘‘۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ سنڈے میگزین۔ ۱۰؍فروری ۲۰۱۳ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.