
اخوان المسلون اُردن نے اپنی مصری برادرتنظیم سے باقاعدہ قطع تعلقی کا فیصلہ کر لیا۔ اخوان المسلمون اُردن کے ترجمان مُرادادیلہ کے مطابق گزشتہ ہفتے فیصلہ ساز شوریٰ کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ دستور میں تبدیلی کر کے ’’اخوان المسلمون قاہرہ‘‘ سے قطع تعلقی کا اظہار کیا جائے گا۔
ترجمان کے مطابق اس بات کی تجویز سب سے پہلے تین سال قبل آئی تھی اورتب سے اعلیٰ قیادت کے درمیان یہ بات زیرِ بحث رہی ہے۔ اُنھوں نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ یہ فیصلہ موجودہ بحران کے باعث یا گزشتہ برس سے منحرف ہونے والے کارکنان کے باعث کیا جا رہا ہے۔
ایک اور ترجمان مواتھ خوالدیش کے مطابق حالیہ اصلاحات تنظیم کے اندرونی انتخابات کے باعث ہوئیں، جو کہ اگلے مہینے ہونے جا رہے ہیں۔اسی تناظر میں، ملکی سطح پر تنظیم کی ساخت کو بہتر بنانا اولین ترجیح ہے، جیسا کہ علاقائی رہنماؤں کے بیا نات میں اور ابلاغ کی جانب سے اس مدعے پر شدید تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اخوان المسلمون کو بڑے پیمانے پر ناکامیوں کا سامنا ہے،جو کہ ۲۰۱۱ء میں مشرقِ وسطیٰ میں آنے والے عرب اِنقلاب سے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والی سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی، لیکن ۲۰۱۳ء سے شدید حکومتی سختیوں کا شکار ہے، خاص طور پر مصر میں۔
اِخوان المسلمون اُردن کا موجودہ بحران اُس وقت شروع ہوا جب عبد الماجد تہنیبات کی سربراہی میں اصلاح کاروں کی ایک جماعت نے مصری برادر تنظیم سے لاتعلقی کا اظہار کر کے ’’انجمنِ اخوان المسلمون تہنیبات‘‘کے نام سے تنظیم کا اندراج کروایا۔ ۲۰۱۵ء میں ۴۰۰ سے زائد افراد نے اخوان المسلمون کو چھوڑا، اُن میں سے بیشتر افراد نے انجمنِ اخوان المسلمون تہنیبات، The Zamzam Initiative اور Partnership and Rescue Committee میں شمولیت اختیا ر کر لی ہے۔
اُردنی تجزیہ کار ابراہیم غرایبہ کے مطابق، اصل بنیادی گروپ سیاسی طور پراسلامک ایکشن گروپ کی نمائندگی کرتا ہے، اُس کو احساس ہوا کہ مصری تنظیم اب بوجھ بنتی جا رہی ہے اور اُردنی شاخ کی سیاسی حمایت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ بالآخر یہ قطع تعلقی کی وجہ بنی۔ الگ ہونے والے تینوں گروہوں نے حقیقت پسندانہ صورت اختیار کر رکھی ہے، جو کہ اصل اِخوان المسلمون کے رویوں کے بالکل مترادف ہے۔ الگ ہونے کی اصل وجو ہات اُردن کے سیاسی انتخابات میں شمولیت، مصری اخوان المسلمون اور غزہ کی حماس (اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ)سے تعلقات کی نوعیت ہیں۔
اخوان المسلمون کے سابق رہنما اور “The Zamzam Initiative” کے بانی رحیل غرایبہ نے “Jordan Times” سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تحریکِ اخوان المسلمون اُردن میں انتشار کی ایک اہم وجہ مصری تنظیم سے لاتعلقی کرنا تھا۔ ’’ہم نے اس تبدیلی کاتین سال قبل کہا تھا مگر مسترد کر دی گئی تھی، مگر اس ترمیم کو کرنے میں بہت دیر ہو چکی ہے‘‘ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’موجودہ اخوان المسلمون کے رہنما تنظیم کو تنزلی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
۱۹۴۶ء میں اخوان المسلمون اُردن کو ایک خیراتی ادارے اور ۱۹۵۲ء میں اسلامک سوسائٹی کے نام پر لائسنس ملا۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ صحیح معنوں میں حزبِ اختلاف کا کردا ر ادا کرتی رہی ہے اور قابلِ ذکر حمایت بھی حاصل رہی ہے، تحریک چند سالوں سے مشکلات کا شکار ہے جبکہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہے، جو کہ اندرونی سیاسی احتجاج کا بھی باعث بنا۔
موجودہ داخلی تقسیم اور عدم دلچسپی کئی ملکوں بشمول مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی جانب سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی وجہ سے عمل میں آئی۔
(ترجمہ: محمد رحید)
“Muslim Brotherhood’s Jordanian branch cuts ties with Egypt parent group”. (“egyptianstreets.com”. Feb.16, 2016)
Leave a Reply