کچھ دن قبل رباط میں امریکا کی تحریک پر مسلم ملکوں کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا مقصد مسلم ملکوں میں خاص طور سے مغربی ایشیا میں آمرانہ حکومتی نظام کو ختم کرنا اور جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس مقصد کا حصول کیسے ہو؟ اس کی خاطر ایک اعلان نامے کا مسودہ ترتیب دیا گیا تھا۔ اس مسودے پر غور کرنے اور اس کی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے گذشتہ ہفتہ بحرین میں پھر ایک بار مسلم ملکوں کی کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس میں کونڈو لیزا رائس نے بھی خطاب کرتے ہوئے مسلم ملکوں کے مندوبین سے اپیل کی تھی کہ وہ رباط کانفرنس میں تیار کردہ اعلان نامے کے مسودے کو اپنی منظوری دے دیں تاکہ اعلان نامے کو قبولیت حاصل ہو اور مغربی ایشیا میں جمہوری طرزِ حکومت کے قیام کے لیے ایک بڑے پیمانے پر مسلم آبادی کے ذہن کو آمادہ کیا جاسکے۔ بحرین کانفرنس میں امریکا کو جس کامیابی کی امید تھی‘ اس کو اس وقت دھچکا لگا جب مصر نے امریکی تجویز اور طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ اعلان نامے کے تحت ۵۰ ملین ڈالرز کا جو مالیاتی فائونڈیشن بنایا جائے گا‘ اس سے جو امداد دی جائے وہ صرف ان جمہوریت پسند گروپوں کو ہی دی جائے جو مسلم حکومتوں کی نظر میں باغیانہ سرگرمیوں یا عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت کا تختہ الٹنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں اور جنہیں مجوزہ فائونڈیشن سے امداد دیے جانے پر حکمراں طبقے کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ مصر جو بڑی حد تک عربوں کی آدھی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے‘ مغربی ایشیا سے تعلق رکھنے والے سیاسی مسائل پر اپنے ردِعمل کا اظہار سوچ سمجھ کر کرتا ہے‘ خا ص طور سے ایسی صورت میں کہ مغربی ایشیا کی مسلم آبادی کی رائے عراق میں امریکی مداخلت کی بنا پر صدر بش کے خلاف ہو گئی ہے۔ دوسرے اسی سال امریکا نے مصر کو جو ۴۳۰ ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا تھا‘ اس میں سے ایک بڑی رقم ان گروپوں کے ہاتھوں میں پہنچی ہے جو مصری حکومت کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہیں۔
عراق میں آمریت کو ختم کرنے اور وہاں جمہوری طرز کی حکومت قائم کرنے کے بہانے امریکا نے جن طور طریقوں سے اپنی پسند کی اور امریکی وفاداری کی حامل حکومت بنائی‘ اس سے مسلم ملکوں کو یہ احساس تو بہرحال ہو گیا تھا کہ عوام کے ذریعے انتخاب کا راستہ اختیار کر کے اقتدار میں آنے والی مسلم حکومتیں کیا واقعی جمہوری ہیں؟ اس کا فیصلہ اب امریکا کرے گا۔ مسلم ملکوں کا یہ خدشہ اب حقیقت بن کر سامنے آتا جارہا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ جمہوریت کے قیام کے نام پر دیا جانے والا فنڈ کس طرح جارجیا اور یوکرین میں باغی گروپوں کی سرگرمیوں کے لیے معاون بن رہا ہے۔ اس سلسلے میں روس اور ازبکستان نے امریکا سے مالی امداد کی غلط تقسیم روکنے کا جو مطالبہ کیا ہے‘ اس کی گونج بھی حالیہ بحرین کانفرنس میں سنائی دی گئی۔ مصر نے کھلے لفظوں میں امریکا سے کہا ہے کہ وہ اسی صورت میں مغربی ایشیا میں جمہوریت کے فروغ کے کاموں میں اپنا سرگرم تعاون دے گا‘ جب اس مقصد کے لیے قائم کیے گئے مالیاتی فائونڈیشن سے باغی اور تخریب پسند عناصر کو کسی قسم کی مالی امداد نہ دینے کا بھرپور یقین دلایا جائے گا۔ امریکا کے لیے مصر کا یہ رویہ غیرمتوقع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ اس نے حالیہ برسوں میں جو کثیر مالی امداد دی ہے وہ مصر کی منہ بھرائی کے لیے کافی تھی مگر حالیہ انتخاب میں صدر حسنی مبارک کی مثالی کامیابی نے انہیں مغربی ایشیا کے ایک ذمہ دار ملک کا رول ادا کرنے کی تحریک دی ہے۔ مصر کے وزیرِ خارجہ نے کانفرنس کے اختتام پر گروپ فوٹو اور لنچ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا اور اخبار نویسوں کے سوال کرنے پر اپنے اختلاف کی وضاحت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ عرب لیگ کے صدر عمر موسی نے جمہوریت کو فروغ دینے سے متعلق مسودے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسودہ بڑی حد تک مغربی ایشیا کے تاریخی اور سیاسی تقاضوں کے اعتراف سے عاری ہے اور اس کا لہجہ بڑی حد تک آمرانہ ہے اور ظاہر ہے کہ مسلم ممالک کی آمادگی کے بغیر کوئی بھی سیاسی تجویز اس خطے میں عمل درآمد کے لیے قابلِ قبول نہ ہو گی۔
عراق میں عوامی مزاحمت کے باوجود امریکا نے اپنی پسند کی جمہوریت کے قیام کے لیے مسلح حملہ سے اب تک جو راہ اختیار کی‘ اس کی مزاحمت برابر جاری ہے۔ بحرین کانفرنس میں مصر کے نمائندے نے امریکا کو یہ واضح اشارہ اور انتباہ دے دیا ہے کہ امریکا ڈالرز کی بوچھار کر کے اور باغیانہ اور تخریبی عناصر کی حوصلہ افزائی کر کے اور ان کو مالی رشوت دے کر مسلم ملکوں میں اپنی مرضی کی جمہوریت کے قیام کا بیج بونے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply