
گجرات فساد کے دوران جس طرح سے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا‘ اُن کی املاک تباہ کی گئیں اور گرفتاریوں کے ذریعہ جس طرح ان کے اعصاب پر خوف طاری کرنے کی کوشش کی گئی‘ وہ اظہر من الشمس ہے۔ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ تمام سیکولر ذہن رکھنے والے گجرات سانحے کو فساد نہیں بلکہ نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ہوا بھی یہی تھا۔ انسانیت کا بیچ چوراہے پر جنازہ نکالا گیا۔ ان تمام واقعات کے مدنظر شاید یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کیا گجرات میں مسلمان ہونا جرم ہے؟ کیا گجرات کے مسلمانوں کو محض اہلِ ایمان ہونے کی اتنی بڑی قیمت چکانی پڑی۔ نمائندۂ ’’انقلاب‘‘ نے اس سلسلے میں گجرات کے چند ذی علم حضرات سے بات کر کے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔
نثار احمد انصاری (سابق پروفیسر‘ بھارتیہ ودیا بھون احمد آباد) نے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جہاں تک گجرات میں مسلمان ہونا جرم ہے‘ کا سوال ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ وہاں مسلمان چند دنوں پہلے ہی آباد ہوئے ہوں بلکہ مسلمان گجرات میں عرصہائے دراز سے مقیم ہیں اور ان کی باقاعدہ تاریخ ہے۔ ریاست گجرات میں مودی کے دورِ اقتدار میں تین سال قبل جو سانحہ پیش آیا وہ نسل کشی تو تھی ہی لیکن اس کی وجوہات سیاسی تھیں نہ کہ مذہبی یا مسلمان ہونا۔
انصاری صاحب کے بقول ’’بی جے ی کی ساکھ کمزور تر ہوتی جارہی تھی ایسے میں اسے مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔ مودی کا انتخاب اسی سہارے کا نتیجہ تھا۔ مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد فوری طور پر یہ اعلان کیا کہ ’’میں ٹیسٹ نہیں ونڈے کھیلنے آیا ہوں‘‘ اور پھر اس نے منصوبہ بند طریقے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق مسلمانوں کا قتلِ عام کروایا۔ ہاں گجرات کے چند گائوں ایسے ہیں جہاں پٹیل طبقہ مسلمانوں کے ساتھ عصبیت اور دشمنی کرتا ہے ورنہ بیشتر علاقوں میں ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور رہ بھی رہے ہیں۔ اس کے باوجود جہاں تک مسلمانوں کے اپنے گائوں واپس نہ جانے کا معاملہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے جس طرح کا بھیانک منظر اور تاراجی دیکھا ہے اس کے سبب ان کے اعصاب پر جو انتہائی درجہ کا خوف طاری ہوا تھا وہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
نثار انصاری کے مطابق ’’دونوں طبقوں نے یہ اچھی طرح محسوس کر لیا ہے کہ ہمیں بیوقوف بنایا گیا اور نتیجتاً دونوں فرقوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ حکومت کے تمام محکموں میں عصبیت کافی حد تک باقی ہے۔ گجرات کا مسلمان خود کو مسلمان ظاہر کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہے۔ شہر کی مسلم ہندو تنظیمیں دونوں فرقوں کے درمیان خلیج پاٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اسی لیے ہفتے عشرے میں ان کی میٹنگیں بھی ہوتی ہیں‘‘۔
حافظ محمد ادریس (مہتمم مدرسہ افضل مسجد) کے مطابق ’’سانحہ گجرات ایک ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ اس دوران مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ آج بھی حکومت کے بیشتر محکموں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور عصبیت برتا جاتا ہے۔ پہلے کی بہ نسبت حالات کافی بہتر ہوئے ہیں۔ جہاں تک گجرات میں مسلمان ہونا جرم ہے کا سوال ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں مسلمان آج کوئی نیا نہیں آیا ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کا اب عالم یہ ہے کہ وہ آپسی بھائی چارہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم لوگ جو ہاپورہ کے علاقے میں رہتے ہیں‘ جہاں خاص طور پر مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ اس کے باوجود سیکڑوں مزدور بلاخوف کام پر آتے ہیں اور یہی حال تاجر برادری کا بھی ہے کہ وہ بھی آپس میں لین دین کرتے ہیں۔ ہاں البتہ اس وقت نمایاں تبدیلی یہ ضرور آئی ہے کہ پہلے سی آئی ڈی اہلکار کسی بھی وقت پوچھ گچھ کے لیے بلا لیتے تھے لیکن اب وہ سلسلہ بند ہے‘‘۔
محمد صابر (پرانا باپور پورہ) کے بقول ’’یہاں مسلمان ہونا جرم تو نہیں ہے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے قدم قدم پر دقتیں ضرور پیش ہیں۔ تاجر برادری میں بائیکاٹ اور بھید بھائو اب اس لیے زیادہ نہیں رہ گیا ہے کیونکہ معاشی طور پر دونوں طبقوں کا زبردست نقصان ہوا ہے۔ وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے لوگ برادرانِ وطن کو ورغلانے اور بھڑکانے کا کام انتہائی شد و مد سے کر رہے ہیں۔ پولیس اسٹیشنوں میں عصبیت کا وہی عالم ہے۔ آج بھی اگر کوئی مسلمان اپنے کسی معاملے کے تئیں پولیس اسٹیشن جاتا ہے تو اس کی خاطر خواہ شنوائی نہیں ہوتی ہے اور اگر کوئی غیرمسلم کسی مسلمان کے تئیں شکایت لے کر چلا جائے تو فوری طور پر H/M (ہندو مسلم) کا کیس درج کر کے اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ کہنا کہ گجرات میں مسلمان ہونا جرم ہے‘ مناسب نہیں ہے کیونکہ مودی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے یہاں مسلمان نہ صرف آباد ہیں بلکہ ریاست کی ترقی میں ان کا نمایاں کردار بھی ہے۔ گجرات میں مسلمان ہونا جرم ہے جیسی بات اس لیے بھی ناقابلِ قبول ہے کیونکہ جس بے رحمی کے ساتھ مسلمانوں کا قتلِ عام اور ان کی املاک تباہ کی گئیں‘ عورتوں و بچوں کو زندہ جلایا گیا‘ وہ تمام مصائب اور تکالیف تو مسلمانوں نے برداشت کیے لیکن اپنے ایمان کے تئیں وہ کبھی بھی متزلزل نہیں ہوئے‘ ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ لوگ ایمان کا دامن چھوڑ دیتے لیکن پورے سانحۂ گجرات میں اس طرح کا کوئی ادنیٰ واقعہ بھی رونما نہیں ہوا۔ البتہ جو کچھ ہوا وہ مودی انتظامیہ اور اس کے گرو گھنٹالوں کی سازش کا نتیجہ تھی‘ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ بالآخر مسلمانوں کی تباہی کے ذریعہ مودی انتظامیہ بی جے پی کی ساکھ مضبوط کرنے میں بری طرح ناکام رہی اور اسے محض ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آسکا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)
Leave a Reply