امریکا کے مختلف ادارے (سرکاری بھی اور غیرسرکاری بھی) اربوں روپے خرچ کر کے مسلم طلبہ و طالبات اور مَرد و خواتین اساتذہ کو تعلیمی دوروں اور وظیفوں پر امریکا لے جاتے ہیں تاکہ جب وہ اپنے ملکوں کو لَوٹیں تو اُن کے دل و دماغ امریکا کی ترقی و خوشحالی اور قوت و شوکت سے مرعوب و متاثر ہو چکے ہوں۔ درج ذیل رپورٹ میں اسی کی عکاسی کی گئی ہے۔ لیکن کیا ایسے دوروں سے بڑے پیمانے پر مسلم اذہان کی ’’صفائی‘‘ (Brain Washing) ممکن ہے؟ یہ بات آنے والے وقت میں زیادہ واضح ہو جائے گی۔ (ادارہ)
میمونہ گل امریکا کے لیے دن بھر کی پرواز کے دوران بالکل بھی نہیں سوئی۔ وہ بہت خوفزدہ تھی‘ جس کی اس نے بعد میں وضاحت کی۔ اُس نے پہلے جہاز پر کبھی سفر نہیں کیا تھا‘ کبھی پاکستان سے باہر نہیں گئی تھی اور کبھی تنہا نہیں رہی تھی۔ ’’ہو سکتا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کو کبھی نہ دیکھ پائوں‘‘۔ جرنلزم کی ۲۳ سالہ طالبہ اپنی پریشانی کو یاد کر رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے والدین اس سے بالکل محبت نہ کرتے ہوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسے امریکا جانے کے لیے اس جہاز پر سوار کر دیا۔ امریکا وہ جگہ ہے‘ اس نے سن رکھا تھا جہاں لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں‘ ایک ایسی جگہ جہاں ہو سکتا ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
شروع میں تو وہ امریکا جانا چاہتی تھی‘ وہ امریکا کے متعلق متجسس تھی۔ وہ امریکیوں سے خود ملنا چاہتی تھی تاکہ یہ دیکھ سکے کہ جو کچھ اس نے سن رکھا ہے آیا وہ درست ہے۔ لیکن اب وہ حیرت زدہ تھی کہ اس نے اس سفر پر جانے کا جو فیصلہ کیا‘ وہ درست تھا؟ جب وہ ڈیلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کسٹمز سے فارغ ہوئی تو وہ تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ ایک سخت جان ادھیڑ عمر خاتون‘ جس کے بال چھوٹے چھوٹے تھے‘ اُس کے پاس آئی۔ اس خاتون کا نام شارٹ اسٹیلن تھا۔ شارلٹ میمونہ کو اُس کی قیام گاہ تک پہنچانے آئی تھی۔ میمونہ گل کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ جب وہ ایک سفید وین میں سوار ہوئے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اسٹیلن نے اس سے سفر کے بارے میں پوچھا اور مختصر سی گفتگو کی۔ گل اسکارف اوڑھے اس کے پاس بیٹھی تھی اور اسٹیلن کی دھیمی مگر مترنم آواز سن رہی تھی۔ اس لہجہ نے اسے ماں کی آواز یاد دلا دی۔ لیکن یہ عورت ماں کی طرح اچھی نہیں ہو سکتی‘ اس نے سوچا۔ یہ مجھے دھوکا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
عام مسلمانوں کے جذبہ خیر سگالی کو جیتنا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ایک چھوٹا مگر اہمیت کا حامل پہلو ہے۔ اس میدان میں محکمہ خارجہ خطرہ مول لے رہا ہے‘ یعنی عرب اور جنوب ایشیائی ممالک سے چند درجن ذہین طالب علموں کو امریکا دکھایا جاتا ہے۔ موسم گرما میں انہیں پانچ ہفتوں کے لیے امریکی جامعات میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہیں امریکی تاریخ‘ سیاست اور معاشرہ کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ انہیں باورچی خانہ کے ایک معمولی سوپ سے لے کر ۴ جولائی کی پریڈ‘ ایلس آئی لینڈ اور گرائونڈ زیرو تک دکھایا جاتا ہے۔
پیٹر بینڈا‘ محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار ہیں اور اس پروگرام کو چلانے میں معاونت کرتے ہیں۔ وہ اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کے متعلق پروگرام میں شریک طالب علموں کی سوچ نہیں بدل سکتے۔ لیکن وہ انہیں امریکا اور اس کے باشندوں کے بارے میں ایک غیرجانبدارانہ تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ طالب علم اپنے وطن جاکر منطق اور استدلال کی بات کریں۔
اس پروگرام کے منتظمین نے امریکی معاشرہ کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کے لیے بڑی احتیاط سے لیکچرز ترتیب دیے ہیں۔ ہر ہفتے ایک مختلف موضوع ہوتا ہے: امریکا کی ابتدائی تاریخ‘ شہری حقوق کی جدوجہد‘ چیسٹر ٹائون جیسے علاقہ کا طرزِ حیات۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ موضوعات ان طالب علموں کو ہم عصر امریکی دنیا کو سمجھنے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کریں گے۔ لیکن غیرمتوقع تجربات طالب علموں پر زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔
جب افتخار‘ افتی‘ ابن باسط کا ہوائی اڈے پر سامان میں پاسپورٹ کھو گیا تو صفائی کرنے والے عملے کے ایک اہلکار کو وہ پاسپورٹ ملا اور اس نے باسط کو پہنچا دیا تو باسط حیران رہ گیا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی اس کی سوچوں کے برعکس ہوں۔ بعد ازاں نیویارک شہر کے ایک عشائیہ میں باسط کے گم ہونے والے بیگ کی واپسی نے اس کی اس سوچ کو مستحکم کر دیا کہ امریکی لوگ دیانت دار بلکہ بااخلاق ہوتے ہیں۔ چیسٹر ٹائون کی گلیوں میں اسے ایسے اجنبی ملے جو اس سے نفرت کرنے کے بجائے ہیلو اور خوش آمدید کہہ رہے تھے اور پہلی بار ایسے امریکیوں سے ملاقات کا موقع ملا جو عراق میں جنگ کے خلاف تھے۔ تب باسط کو پتا چلا کہ امریکی خارجہ پالیسی اور امریکیوں میں فرق ہے۔ پالیسیاں بری ہیں لیکن لوگ برے نہیں ہیں۔ باسط نے بتایا کہ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ملک میں لوگ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے بلکہ وہ یہ سوچیں گے کہ باسط کے ذہن کی تطہیر کر دی گئی ہے۔
میمونہ گل نے بتایا کہ اس کے دسویں جماعت کے استاد نے اسے امریکا سے نفرت کا سبق دیا۔ اس کے استاد نے امریکا کا دورہ کیا تھا اور اسے خبردار کیا تھا کہ امریکا وہ جگہ ہے جو ایسے مغرور لوگوں سے بھرا ہوا ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے وہاں کبھی مت جانا۔
پھر ایک ایسی رات آئی جب وہ اپنے امتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی اور اسے بتایا کہ طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر نامی کسی عمارت سے ٹکرا گئے ہیں۔ بعد میں گل نے حملے کی تصویریں دیکھیں۔ لیکن جب اس کی ماں نے اسے خبر بتائی تو اس نے سوچا: اچھا ہوا‘ امریکا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کا مستحق تھا۔
اب وہ گرائونڈ زیرو کے کنارے خاردار تار کے ساتھ کھڑی تھی۔ وہ چند گھنٹے پہلے نیویارک شہر آئی تھی۔ وہ گرائونڈ زیرو کے ساتھ ایک بڑی سیاہ عمارت کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے ساتھ امریکی طالب علم منٹی ابراہم سے پوچھا کہ کیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر اس عمارت سے زیادہ بلند و بالا تھی۔ ہاں منٹی نے کہا اور مزید بتایا کہ کس طرح لوگوں نے جلتی ہوئی عمارت سے چھلانگیں لگائیں۔ اس مقام پر ہونے والے واقعات کی سنگینی کا اندازہ اسے صبح جاکر ہوا۔ یہ تصور کرتے ہی اس نے رونا شروع کر دیا۔
امریکا میں ہر ایک کے لیے حیرت کا سامان تھا۔ ایک پاکستانی طالبہ کو اس وقت حیرت ہوئی جب ایک امریکی طالب علم نے اسے اس وقت اپنا لیپ ٹاپ کمپیوٹر مستعار دے دیا‘ جب اسے ضرورت تھی۔ علی کو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ طلبہ کیفے ٹیریا میں کام کرتے ہیں جو اس کے ملک میں تقریبا ناممکن تھا۔ امریکا میں ہر شخص جو کچھ کام کرتا تھا اسے اس پر فخر تھا۔ جنوبی ایشیا کے طلبہ کو اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا‘ جب میری لینڈ سے تعلق رکھنے والا رکن کانگریس وین گلکرائسٹ ان سے ملنے‘ بغیر کسی باڈی گارڈ کے‘ اپنے ٹرک میں بیٹھ کر آیا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس کا ان کے ملک میں تصور بھی محال تھا۔
بھارت کا ۲۲ سالہ محسن مغل کہتا تھا کہ امریکا ابھی تک ایک منقسم معاشرہ ہے۔ اس بات کی وضاحت وہ یوں کرتا کہ چیسٹر ٹائون کے زیادہ تر سیاہ فام باشندے ایک ہی محلے میں کیوں رہتے ہیں اور مقامی شہری جلسے میں صرف سفید فام مقررین ہی کیوں تقریر کرتے ہیں؟ جھاڑو دیتے صرف سیاہ فام ہی کیوں نظر آتے ہیں؟
ایک سہ پہر انہوں نے ریڈ لائن سے راک ویلے تک میٹرو سے سفر کیا اور پھر ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ جلد ہی وہ پوٹو میک کے مضافات میں رواں دواں تھے۔ یہاں گھر بڑے اور باغیچے صاف ستھرے تھے۔ وہ ایک ایسے گھر کے سامنے اترے جو سرخ اونٹوں کا بنا ہوا تھا اور سامراجی دور کی یادگار تھا۔ یہ گھر واشنگٹن کالج میں جنوبی ایشیائی امور کے پروفیسر کا تھا۔ جنہوں نے ان طالب علموں کو باربی کیو پر مدعو کیا تھا۔ جب دوسرے لوگ صحن میں باتوں میں مشغول تھے‘ علی پورے گھر میں گھوم رہا تھا۔ وہ ہر کمرے کی فلم بنا رہا تھا۔ وہ پروفیسر کے تالاب کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ پروفیسر کے تیار کردہ برگر کھا رہا تھا۔
امریکا کے بارے میں اس کی ناقدانہ سوچ ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی تھی۔ اس نے سوچا کہ یہ وہ ملک ہے جس کی اپنی کوئی سوچ یا حقیقی تاریخ نہیں ہے۔ یہ ملک مستحکم اقدار سے عاری ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ مسلسل ہر چیز کے بارے میں ڈینگیں مارتے رہتے ہیں۔ لیکن یہاں آکر وقت نے اسے تبدیل کر دیا۔ اس نے سوچا کہ وہ زیادہ امریکی ہو چکا تھا اب وہ اپنی ذاتی زندگی کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اگر وہ یہاں آجائے تو وہ اتنی دولت کما سکتا ہے جتنا وہ اپنے وطن میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
(بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ)
Leave a Reply