مسلم خواتین سائنس کے میدان میں

ہر مسلمان کے نزدیک خواہ وہ مرد ہو یا عورت، یہ بات یکساں اہمیت اور قدر و قیمت کی حامل ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی دنیا کے مطالعہ کے ذریعہ حصولِ علم کی کاوش کرے اور خدا کی حقیقت سے آشنائی حاصل کرے۔ حضرت محمدؐ نے اپنے پیرووں کو تاکید کی ہے کہ وہ علم حاصل کریں جہاں کہیں بھی وہ اسے پائیں۔ علم کی اسی قدر و قیمت کے پیشِ نظر مسلم خواتین سائنس کے میدان میں روز افزوں پیش رفت کر رہی ہیں اور سائنسی اسناد کے حصول میں مسلم عورتوں کے گریجویشن کا تناسب مغربی عورتوں کے تناسب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ mainstream مغربی میڈیا شاذ و نادر ہی مسلم خواتین کی مثبت تصویر کشی کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو میڈیا کا منافع ہی میڈیا ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ غیرمسلموں کے اذہان میں موجود دور دراز کے خواب و خیال اور مخصوص قسم کے اختیار کردہ تصورات کو کس قدر غذا فراہم کرتی ہے۔ مغربی حضرات اپنے پرانے تصور پر قائم ہیں کہ مسلم خواتین کی مظلومیت اسلام کی وجہ سے ہے جو کہ حقیقت کے برعکس ہے۔ اسلام کا پیغام جو مرد و زَن کے مابین انصاف اور خواتین کے حقوق پر تاکید کرتا ہے، ہمیشہ ایسی ثقافتی قدروں کی آمیزش سے دوچار ہوا جن کی کوئی بنیاد قرآن و سنت میں نہیں ہے۔ اسلام میں خواتین کو ہمیشہ علم کی جستجو پر ابھارا گیا ہے۔ اس میدان میں اﷲ تعالیٰ نے مرد و زَن کے مابین کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ ایک مرتبہ حضورؐ فرمایا کہ علم کا حصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔

مسلم خواتین بعض سائنسی میدانوں میں قائدانہ روش کا مظاہرہ کر رہی ہیں، انعامات حاصل کر رہی ہیں، طغرہ ہائے امتیاز حاصل کر رہی ہیں اور ایسے کارنامے انجام دے رہی ہیں جو مردوں کے کارناموں کو ماند کر دے۔ اس کے باوجود مغربی نگاہیں انھیں اس طرح دیکھتی ہیں گویا کہ ان کا کوئی وجود نہ ہو۔ مسلم کارناموں کی تعریف سے گریز کا رجحان کبھی کسی موازنے کو چھپانے میں ناکام بھی ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا خواتین سائنس گریجویٹ کی تعداد کے معاملے میں اس وقت چھ مسلم ممالک سے پیچھے ہے۔ وہ مسلم ممالک جو خواتین سائنسی گریجویٹ کا امریکا سے بڑا تناسب رکھتے ہیں بحرین، برونائی دارالسلام، کرغستان، لبنان، قطر اور ترکی ہیں۔ مراکش میں امریکا کے مقابلے میں خواتین انجینئرنگ گریجویٹ کی تعداد زیادہ ہے۔ روایتی طور سے مسلم خواتین کی سائنسی تعلیم میں اتنی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی جتنی کہ مغربی خواتین کی کی گئی۔ ممکن ہے یہ ایک وجہ ہو جس کی بنا پر سائنس کے میدانوں میں مسلم خواتین سائنس گریجویٹ کا اتنا اونچا تناسب پایا جاتا ہے جو کُل سائنس گریجویٹ کی آبادی میں فیصد کے اعتبار سے مسلم خواتین کی برتری کو ثابت کرتا ہے۔ بہرحال مسلم ممالک میں خواتین کی تعلیم میں جو رکاوٹیں حائل ہیں، مردوں کی تعلیم میں بھی وہی رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ رکاوٹیں غربت، ناخواندگی، سیاسی عدم استحکام اور بیرونی قوتوں کی پالیسی کی شکل میں موجود ہیں۔ بعض اسلام سے خائف رہنما ہر وقت آمادہ ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کی ابتر تعلیمی صورتحال کو اس مذہب سے مربوط کیا جائے جس پر وہ عمل پیرا ہیں لیکن حقیقی ارتباط ٹھوس شکل میں کہیں اور پایا جاتا ہے۔ دراصل قومی دولت اور تعلیم کے مابین بڑا گہرا ربط ہے۔ قومی دولت کا تعلیمی اندراج سے براہِ راست تعلق ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ متوسط اور اونچی آمدنی والے ممالک کی اکثریت سیکنڈری اسکول کے لیے اندراج نوے فیصد سے زیادہ رکھتی ہے۔ غریب ممالک کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں جو تعلیم کو ترجیح بنانے کے لیے درکار ہیں۔ بلاشبہ اگلا سوال یہی ہے کہ یہ ممالک غریب کیسے ہوتے ہیں؟ بہرحال یہ بات دین دشمنوں کی مایوسی کا سبب ہو گی کہ اب غربت اور اسلام میں کوئی ربط دیکھنا ممکن نہیں جس طرح کہ اسلام اور ناخواندگی میں تعلق ثابت کرنا ممکن نہ ہو سکا، چونکہ بہت زیادہ دینی احکام ایسے ہیں جو مرد و عورت دونوں کو تعلیم کے حصول پر ابھارتے ہیں۔ بعص لوگ اس حقیقت کے ادراک میں ناکام رہے کہ جب غربت کا مرض حملہ آور ہوتا ہے تو وہ کسی ثقافتی یا مذہبی حدود کی پروا نہیں کرتا۔ اگرچہ آج غیرمسلم دنیا کے ایک بڑے حصے میں تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں موجود ہیں لیکن مسلم دنیا نے حالیہ برسوں میں دشمنوں کی جانب سے کئی حملے انگیز کیے ہیں جن کے سبب وہاں تعلیم کا مجموعی معیار بھی متاثر رہا ہے اور تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی سلامتی بھی خطرے میں رہی ہے۔ جنگ زدہ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں نے تمام سطح کے اسکولوں پر شیلنگ کر کے اور بم برسا کے اُنھیں تباہ کر دیا ہے۔ حفظانِ صحت عامہ خطرے میں ہے اور جو انفرااسٹرکچر تباہ کر دیے گئے ہیں اُن کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسلام عورتوں کے تعلیمی حق کو خطرے سے دوچار نہیں کرتا ہے بلکہ اسلام دشمن حکومتوں نے ہمیشہ عورتوں کی تعلیم میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اُن کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ فرانس اور ترکی دونوں اس طرح کے ظلم کے مرتکب رہے ہیں اور یہ سب کچھ انھوں نے سیکولرزم کے پُرفریب لبادے میں کیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ مسلم خواتین کو مذہبی پسند کے حوالے سے مستقل پریشانیوں کا سامنا ہے، اُن کو مغربی میڈیا کی ان گھسی پٹی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہیے جن کے ذریعہ وہ ان کے عقیدہ و ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے مذہب سے تعلق رکھنے والے مردوں کو خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مسلم خواتین کی علم کے میدان میں موجودگی ایک ایسی روایت رہی ہے جس کی یاددہانی آج کی دنیا کو مسلمانوں کو کرانا چاہیے۔ آج وہ اسلامی ثقافت جس میں عورتوں کو سائنس کے میدانوں میں شرکت کرنے کا، کمال دکھانے کا اور رہنمائی کرنے کا موقع مل رہا ہے، وہ پوری طرح جلوہ گر ہے، اپنے حقیقی، زندہ اور عبادت گزار لوگوں کے دَم سے۔ اگرچہ یہ خواتین استثنائی حیثیت کی حامل ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ عموم کی استثنیٰ ہیں۔ بعض بہت ہی نمایاں خواتین مسلم سائنس دان کی مثال ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ ہماری مراد سعودی عرب کی پروفیسر سمیرہ ابراہیم، دہلی (بھارت) کی سمینہ شاہ اور پاکستان کی ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی سے ہے۔ حصولِ علم کے ذریعہ ایک آدمی خدا سے انتہائی بامعنی اور مفید تعلق قائم کر سکتا ہے جو خدا عبادتوں کے علاوہ بھی ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ جو صاحبِ ایمان لوگ ہوتے ہیں، وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں خدا سے محبت رکھتے ہیں۔ شاید وہ گہری محبت ہے جو ان صاحبِ ایمان مردوں عورتوں کو ہر قسم کے اعصاب شکن جوکھم مول لینے کا حوصلہ عطا کرتی ہے اور پھر یہ لوگ اپنے سائنسی علم کے ذریعہ اُس ہستی سے قریب تر ہو جاتے ہیں جس کی شکرگزاری میں یہ مصروف رہتے ہیں۔ ’اقراء‘ پہلا حکم تھا جو اﷲ کے رسولؐ پر نازل
ہوا اور آج ہر مسلمانوں کے لیے اس کے اطلاق کی بے شمار جہتیں ہیں۔ چنانچہ پڑھیے، پڑھے لکھے بنیے، جستجو کیجیے، سیکھیے، دریافت و تحقیق کیجیے اور اﷲ تعالیٰ کی جانب سے حاصل ہونے والے انعامات اور صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیجیے جن کی بنا پر اس نے آپ کو جانوروں سے ممتاز کیا ہے۔ اﷲ قادرِ مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنے ذہن کو استعمال کیجیے جیسا کہ خواتین مسلم سائنس دان ماضی میں کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔

(اداریہ ماہنامہ انگریزی مجلہ ’’محجوبہ‘‘ ایران۔ شمارہ: اکتوبر ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*