
مسلمان تعداد میں تو بہت زیادہ ہیں مگر اختیارات کے بغیر۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی کے باعث (خصوصاً سنّی، شیعہ) مشرقِ وسطیٰ کا کنٹرول تقریباً ایک صدی سے مغرب کے پاس ہے۔ حالت یہ ہے کہ مسلمان ایک ساتھ مل کر کوئی کھیل بھی نہیں کھیل سکتے۔ اولمپکس کی طرز پر ایک تنظیم Islamic Solidarity Games (اسلامی یکجہتی گیمز) تشکیل دی گئی تھی اور تنظیم کے زیر اہتمام مختلف کھیل کھیلے جانے تھے۔ اپریل میں ایران میں مگر انہیں منسوخ کر دیا گیا، کیونکہ ایران اور عرب اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ ایران کو جزیرہ نما عرب سے جدا کرنے والے سمندر کو خلیج فارس کہا جائے یا خلیج عرب۔
مسلمانوں کے اندر نااتفاقی اور پھوٹ کی وجہ سے ہی اسرائیل کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کر دے، امریکا کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ عراق پر چڑھائی کرے اور امریکا کے لیے یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ وہ خطے کے بیشتر حصے پر اپنی پسند کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے حکومت کرے۔ مثال کے طور پر وفاداری کے عوض مصر کو واشنگٹن سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ملتے ہیں جس سے صدر حسنی مبارک اپوزیشن کو خریدتے ہیں اور پھر اپوزیشن فلسطینیوں کی حمایت کرنے کے بجائے دولت حاصل کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
ایک اور چیز ہے کہ مسلمان اپنی ہی رضا و رغبت سے امریکی ڈالروں کی خاطر اپنے ہی بھائیوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ یہ الفاظ صرف میرے ہی نہیں ہیں، جدید قدامت پسند کینتھ ٹمرمین کی بات بھی سنیے، جو فائونڈیشن فار ڈیموکریسی کے سربراہ ہیں، جبکہ یہ تنظیم اپنے آپ کو ایک پرائیویٹ، غیر منافع بخش تنظیم کہلاتی ہے، جو ۱۹۹۵ء میں قائم ہوئی اور جسے جمہوریت اور ایران میں حقوق انسانی کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ معیاروں کے فروغ کے لیے ’’نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی‘‘ (NED) سے گرانٹس ملتی ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ امریکا کسی ’’مخملیں‘‘ (خون خرابے کے بغیر) یا کسی ’’رنگین انقلاب‘‘ کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے تاکہ کسی امریکی کٹھ پتلی کو حکمران بنایا جاسکے۔ الیکشن کے خلاف احتجاج کی تیاری کے لیے تہران میں ’’سبز انقلاب‘‘ کے اچانک ظاہر ہونے سے کچھ ہی پہلے ٹمرمین نے لکھا تھا: گزشتہ عشرہ کے دوران میں نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں تاکہ یوکرائن اور سربیا جیسی جگہوں پر ’’رنگین‘‘ انقلابات کو فروغ دیا جائے، سیاسی کارکنوں کو جدید مواصلاتی اور تنظیمی طریق کار کی تربیت دی جائے۔ اس سرمائے میں سے کچھ سرمایہ موسوی کے حامی ان گروپوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جن کے ایران سے باہر ایسی غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے ہیں، جنہیں NED فنڈز مہیا کرتی ہے‘‘۔ چنانچہ ٹمرمین کے مطابق NED کی وساطت سے دیا جانے والا یہ امریکی سرمایہ ہی تھا جس کی وجہ سے موسوی نے دعوے کیے کہ احمدی نژاد نے گزشتہ ایرانی الیکشن دھاندلی کے ذریعے جیتا ہے۔
صدر جارج ڈبلیو بش کے دَور میں عوام کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ امریکی سرمایہ ایرانیوں کو خریدنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے تاکہ وہ اپنے ہی ملک کے خلاف کام کریں۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ۲۰۰۷ء میں رپورٹ دی کہ بش نے ایسی سرگرمیوں پر خرچ کرنے کے لیے چار سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم کی منظوری دے دی ہے جس میں ملک کے حکمران علماء کے خلاف باغی گروپ بھی شامل ہیں۔ (واشنگٹن پوسٹ ایک ایسا اخبار ہے جو امریکی بالادستی اور ایران کے ساتھ جنگ کے متعلق جدید قدامت پسندوں کی حمایت کرتا ہے)۔
یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکومت ’’دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی حکومت‘‘ ہے۔ اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ امریکا کا ایک تنخواہ دار کارکن جو ایران میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا رہا ہے، نے واشنگٹن میں موجود اپنے ہی ساتھیوں کے پول کھولے ہیں۔ عبدالمالک ریگی جو بلوچ علیحدگی پسند گروپ کا لیڈر ہے اور ایران میں متعدد حملے کر چکا ہے، کو حال ہی میں ایرانیوں نے گرفتار کیا ہے۔ اس نے تسلیم کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بغاوت شروع کرنے کے لیے اسے غیر محدود فوجی امداد اور فنڈز کی فراہمی کے متعلق امریکیوں نے واشنگٹن میں یقین دہانی کرائی تھی۔
ممکن ہے اقبالِ جرم کے لیے اس پر تشدد کیا گیا ہو۔ یہ امریکی طریقہ ہے، اگر ’’دنیا میں روشنی کا مینار‘‘ اور ’’پہاڑی پر روشن شہر‘‘ عوام پر تشدد کر سکتا ہے تو پھر شاید ایرانی بھی ایسا کرتے ہوں گے۔ ریگی کے چھوٹے بھائی (جو ایران میں موت کی سزا کا منتظر ہے) نے کہا ہے کہ امریکا علیحدگی پسند گروپ کو براہِ راست فنڈز مہیا کرتا رہا ہے اور ایران کے اندر مخصوص مقامات پر حملوں کا حکم دیتا تھا۔
امریکا اور اس کے کٹھ پتلی نیٹو فوجی ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے افغان عورتوں، بچوں اور دیہات کے بزرگوں کو قتل کر رہے ہیں، جب امریکی فوج نے Operation Enduring Freedom کے نام سے افغانستان پر حملہ کیا تھا، جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جارحیت کے لیے ایک مناسب Orwellian نام ہے، امریکا کے تعینات کیے ہوئے افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی کو امریکی ڈالروں کے عوض خریدا گیا ہے۔
امریکا جو سرمایہ دیتا ہے کرزئی اس سے کرپشن پھیلا رہے ہیں اور خود بھی کھا رہے ہیں۔ کرزئی کی کرپشن اور افغان عوام کے خلاف ان کی غداری سے طالبان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت تشکیل دے سکیں جو افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہو، نہ کہ واشنگٹن کے مفادات پورے کرے۔ اگر کٹھ پتلی کرزئی افغانوں کو واشنگٹن کے پاس فروخت نہ کر دیتے تو امریکا کو ایک عرصہ پہلے افغانستان سے نکال دیا گیا ہوتا۔ کرزئی افغانوں کو سرمایہ دے رہے ہیں کہ وہ امریکا کی خاطر اپنے ہی افغان بھائیوں کے خلاف لڑیں اور اس طرح جنگ کو نو سال پورے ہو رہے ہیں۔
حقوق نسواں کے حامی، لبرل اور امریکی جھنڈے لہرانے والے بھولے بھالے شہری کہیں گے کہ یہاں جو کچھ لکھا گیا ہے بکواس ہے، اور یہ کہ افغانستان میں امریکی اس لیے گئے ہیں کہ عورتوں کو ان کے حقوق دلا سکیں، افغان عورتوں کو برتھ کنٹرول کی اہمیت بتائیں اور ملک میں آزادی، جمہوریت اور ترقی لائیں۔ چاہے اس کے لیے ہر گائوں، شہر اور ہر گھر کو مسمار کرنا پڑے۔ ہم ’’ناگزیر عوام‘‘ وہاں صرف اچھے کام کرنے کے لیے گئے ہیں کیونکہ ہمیں افغان عوام کا بہت خیال ہے جو ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جسے بیشتر امریکی شہری دنیا کے نقشے میں دیکھ بھی نہیں سکتے۔
اس وقت جب بھولے بھالے لوگوں کا ہجوم ’’امریکی افغانوں کو بچا رہے ہیں‘‘ کے نعرے لگا رہا ہے یاجو جی چاہے کہہ لیں، وائٹ ہائوس اور کانگریس امریکی عوام کے خلاف سازش کر رہے ہیں کہ حفظانِ صحت کے بجٹ میں ۵۰۰ ارب ڈالر کی کمی کی جائے تاکہ یہ رقم پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کو دی جا سکے۔ لاکھوں امریکیوں کو دیے جانے والے بے روزگاری الائونس کے فنڈ ختم ہونے والے ہیں۔ ۲۶ فروری کو امریکی سینیٹ بیروزگاری الائونس میں اضافہ کرنے میں ناکام رہی۔ کنٹکی سے تعلق رکھنے والے جم بننگ واحد ریپبلکن سینیٹر تھے جنہوں نے بل رکوایا، کیونکہ اس طرح ۱۰ ارب ڈالر کے معمولی اضافے کا امکان تھا اور اس سے ’’بجٹ کا خسارہ بڑھ جاتا‘‘۔
’’مالیات کے ذمہ دار‘‘ سینیٹر بننگ جارحیت کی جنگوں کے لیے بلینک چیکوں کی حمایت کرتے ہیں (نیورمبرگ معیار کے مطابق یہ جنگی جرائم کی ذیل میں آتا ہے) اور بیشتر امریکیوں کے ریٹائرمنٹ منصوبوں کو تباہ کرنے کے لیے ان کی برطرفی کے حامی ہیں۔ کون بے وقوف سمجھتا ہے کہ امریکی حکومت جو اپنے شہریوں کے حالات سے مکمل طور پر لاتعلق ہے، افغانستان کے متعلق اس قدر فکرمند ہے کہ وہ سات سمندر پار ملک کی ’’ترقی‘‘ اور ’’خواتین کے حقوق‘‘ کے لیے اپنا خون اور خزانہ نچھاور کرے گی جبکہ اس کے اپنے عوام پس رہے ہیں۔
واشنگٹن کے ایما پر حکومت پاکستان اپنے ہی عوام کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔ بہت سوں کو ہلاک کر رہی ہے اور دوسروں کو اپنے گھر اور زمینیں چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ پاکستانی حکومت کی اپنے ہی شہریوں کے خلاف جنگ نے فوجی اخراجات میں بہت اضافہ کر دیا ہے اور پاکستان کے بجٹ پر سخت بوجھ پڑ گیا ہے۔ امریکا کے ڈپٹی وزیر خزانہ نیل وولن نے پاکستانی حکومت کو حکم دیا ہے کہ اپنے عوام کے خلاف جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ آصف علی زرداری نے حکم کی تعمیل کی ہے۔ زرداری نے پاکستان میں عملی طور پر تمام اشیا اور بیشتر شہری سہولتوں پر وسیع البنیاد ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا اطلاق کیا ہے چنانچہ پاکستانیوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی خلاف جنگ کے لیے سرمایہ مہیا کریں۔
عراق میں گھسٹ گھسٹ کر چلنے والی جنگ کو سات سال گزر چکے ہیں، جبکہ وعدہ چھ ہفتوں کا کیا گیا تھا۔ شورش اور فسادات ابھی جاری ہیں اور عراقی ہر روز مر رہے ہیں۔ ہاتھ پائوں سے معذور ہو رہے ہیں۔ امریکیوں کے ابھی تک عراق میں موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حملہ آور امریکیوں سے نفرت کی نسبت عراقی اپنے ہی ملک کے لوگوں میں سے ایک دوسرے سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ ’’عراقی جنگ‘‘ میں زیادہ خون خرابہ عراقی سنیوں اور عراقی شیعوں کے درمیان ہوا ہے جبکہ وہ ایک دوسرے کا صفایا کر رہے ہیں۔ عراقی شیعوں کی اکثریت نے عراق پر امریکی حملے کو اقلیتی سنیوں پر غلبہ حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔ چنانچہ شیعوں کی حملہ آور امریکی فورسز سے کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ اقلیتی سنی (آبادی کا ۲۰ فیصد) زیادہ تر شیعہ اکثریت سے ہی لڑتے رہے ہیں، مگر کبھی کبھار وقت ملنے پر چند ہزار سنی سپرپاور امریکا کو بھی سخت نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔
آخر کار عرب دنیا میں سرمائے کی طاقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکیوں نے ۸۰ ہزار سنیوں کو امریکی فوج کی تنخواہ دار فہرست میں شامل کر لیا اور امریکیوں کو ہلاک کرنے سے روکنے کے لیے انہیں پیسے دیے۔ امریکا نے اس طریقے سے عراق میں جنگ جیتی ہے۔ عراقیوں نے امریکی ڈالروں کے بدلے میں اپنی آزادی فروخت کر دی ہے۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر شیعہ بھی امریکی حملہ آوروں کے خلاف سنیوں کا ساتھ دیتے تو چند ہزار سنی سپر پاور امریکا کو بغداد یا عراق کے بیشتر حصے پر قبضہ کرنے سے روک سکتے تھے اور اس طرح امریکا کو شکست دی جا سکتی تھی اور اسے ملک سے نکالا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ شیعہ سنیوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے، جنہوں نے صدام حسین کے تحت ان پر حکمرانی کی تھی۔ اسی وجہ سے عراق آج ایسی تباہی اور بربادی کی حالت میں ہے جہاں دس لاکھ افراد ہلاک اور ۴۰ لاکھ سے زائد بے گھر اور بے سہارا ہو چکے ہیں جبکہ ہنر مند اور مختلف پیشوں میں مہارت رکھنے والا طبقہ ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ عراق پر اب ایک امریکی کٹھ پتلی مالکی کی حکومت ہے اور اس کی حیثیت امریکا کے زیر تحفظ ملک کی ہے۔
جب تک مسلمان ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے سے ڈرتے اور لڑتے رہیں گے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں اور حملہ آوروں سے نفرت کریں، وہ مغلوب اور شکست خوردہ بنے رہیں گے۔
(پاک کریگ رابرٹس، وال اسٹریٹ جنرل کے ایڈیٹر اور یو ایس ٹریژی میں اسسٹنٹ سیکریٹری ہیں)
(بشکریہ: ’’کائونٹر پنچ‘‘۔ ۱۱ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply