
۲۶ جولائی کو میں اور میرے رفقا، جو سب پارلیمان کے منتخب ارکان ہیں، نے دیکھا کہ پارلیمان کی عمارت کو فوج کے ٹینکوں نے گھیر رکھا ہے اور صدر قیس سعید کے حکم پر پارلیمان تک ہماری رسائی روک دی گئی تھی۔ ایک رات پہلے صدر نے قوم سے اپنے ٹی وی خطاب میں بہت سے اقدامات کا اعلان کیا تھا، جن میں سب سے حیران کن اعلان پارلیمان کو معطل کرنا تھا۔ انہوں نے ارکانِ پارلیمان کو حاصل پارلیمانی استثنیٰ ختم کر دیا، وزیراعظم کو برطرف کر دیا اور تمام عدالتی اور حکومتی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس طرح انہوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران بڑی محنت سے طے کیے گئے جمہوری اصلاحات کے سفر کو سبوتاژ کردیا۔ میرے خیال میں ان کے یہ تمام اقدامات غیر آئینی اور تیونس میں جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ میں نے پارلیمان کے سامنے دھرنا دیا، مگر پھر میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا کیونکہ مجھے اس بات کا خدشہ تھا کہ محاذ آرائی کے نتیجے میں ملک میں خونریزی ہو گی۔ اب اس عمل کو ایک ہفتہ گزر گیا ہے مگر ہم ابھی تک ایک بند گلی میں کھڑے ہیں۔ پارلیمان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد کے حیثیت سے میں یہ مضمون اس امید پر لکھ رہا ہوں کہ شاید اس بحران کا کوئی حل نکل آئے۔
تیونس کے عوام کا اپنی سیاسی قیادت کی کارکردگی پر عدم اطمینان بالکل جائز ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران ملک میں کووڈ کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ملکی نظامِ صحت اس کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ ہمیں مسلسل معاشی مشکلات اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ لگ بھگ ایک عشرہ قبل ایک پڑھے لکھے پھل فروش محمد بو عزیزی نے احتجاج کرتے ہوئے خود کو نذرِ آتش کر لیا تھا، جس کے بعد ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے جو بعد میں ’’عرب بہار تحریک‘‘ کی شکل اختیار کر گئے۔ یہاں تیونس میں اس کی موت پانچ عشروں سے جاری آمریت کے خاتمے کا سبب بن گئی جو بدعنوان، مخالفین پر ظلم وجبر اور معاشی پسماندگی کا باعث تھی۔ آج کی بے چینی آزادی کے لیے نہیں بلکہ معاشی ترقی پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ ہم نے عزم کیا تھا کہ ہم بوعزیزی اور تیونس کے ہزاروں شہریوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ہماری خواہش تھی کہ ایک نیا دستور بنایا جائے جس میں قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی تقسیم کا تعین ہو تاکہ نئے ادارے تعمیر ہوں‘ جو انفرادی اور اجتماعی آزادی کا تحفظ کریں اور سب سے بڑھ کر ہم نے بیلٹ باکس کی حرمت کی قسم کھائی تھی۔
۲۰۱۴ء میں تیونس کے دستور کو عرب دنیا کا سب سے ترقی پسند آئین قرار دیا گیا تھا مگر آج اسے صدر قیس سعید نے منسوخ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ان اقدامات کا مقصد ملک میں سماجی امن و آشتی بحال کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے تمام فیصلوں سے آمریت کے قیام کی بو آ رہی ہے۔ انہوں نے آئین کی شق ۸۰ کا حوالہ دیا ہے کہ اگر ملک کو فوری نوعیت کا خطرہ لاحق ہو تو یہ مضمون انہیں غیر معمولی اقدامات کرنے کا اختیار دیتی ہے مگر یہ شق یہ بھی کہتی ہے کہ صدر ایسا کرنے سے پہلے وزیراعظم سے مشاورت کے پابند ہیں اور اس دوران صدر کی نگرانی کے لیے پارلیمان کا اجلاس بھی جاری رہنا لازم ہے۔ پارلیمان کو معطل کر کے انہوں نے ان حالات کو ناممکن بنا دیا ہے جن کے تحت اس مضمون کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آئین میں تیونس کے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی مرضی سے چیک اینڈ بیلنس کے لیے اختیارات کی جو تقسیم کی گئی ہے‘ صدر نے اس پورے نظام کو ہی دائو پر لگا دیا ہے۔ بعض سیاسی مخالفین ان غیر آئینی اقدامات کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے سیکولر لبرل اور مذہب پسندوںکے مابین نظریاتی اختلافات کو جواز بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ یہ نظریاتی تقسیم ان دونوں پر فٹ نہیں آتی۔ ہم اپنی پارٹی ’’النہضہ‘‘ کو ایک مسلم جمہوری پارٹی سمجھتے ہیں مگر یہاں کسی خاص سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ تیونس کے پورے سیاسی نظام کو ہی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ آئین اور جمہوری انقلاب کے خلاف یہ بغاوت دراصل ہماری جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔ عالمی برادری کو ایسے کسی بھی غیر آئینی اقدام کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ یہ تیونس کی واحد جمہوریت ہے جس نے عرب بہار کے بطن سے جنم لیا تھا اور بہت سے عرب ممالک کے لیے آج بھی جمہوریت کی امید ہے۔
تیونس میں بھی کئی سنگین مسائل موجود ہیں۔ ہمیں نئے جمہوری نظام کے قیام جیسی بھاری بھرکم ذمہ داری کا سامنا تھا جبکہ ہمیں سنگین سٹرکچرل سماجی اور معاشی بحران بھی درپیش تھے۔ ہم نے ایک انتخابی قانون کے تحت جدوجہد کی ہے، جس کے بطن سے ایک منقسم پارلیمان وجود میں آئی اور یہ ایک مخلوط حکومت کے قیام کی متقاضی ہے۔ جمہوریت کے قیام، سماجی اور معاشی اصلاحات کے نفاذ اور کووڈ کے خلاف ہماری جنگ کے حوالے سے ہماری پیشرفت یقینا سست رفتار تھی مگر یہ بحران کسی طرح بھی آئین منسوخ کرنے کا جواز نہیں بن سکتا اور نہ پورے جمہوری نظام کو خطرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشی مسائل کا حل فردِ واحد کی حکمرانی نہیں ہے۔ آمریت ہمیشہ کرپشن، اقربا پروری، فرد کے حقوق کی پامالی اور عد م مساوات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ صدر قیس سعید اپنے تمام فیصلے واپس لے لیں گے۔ وہ اس وقت بھی کئی تعمیری اقدامات کر سکتے ہیں اور تیونس کے مغربی اور علاقائی حلیفوں کو ان کے ان اقدامات کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔ پارلیمان کو اپنے فرائض سر انجام دینے کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ ووٹ کے ذریعے تیونس میں نئی حکومت کو منتخب کر سکے جو کووڈ اور بے روزگاری کے مسئلے پر توجہ دینے کے لیے ٹھوس معاشی اصلاحات متعارف کر ا نے کی استعداد اور صلاحیت رکھتی ہو۔
مجھے امید واثق ہے کہ صدر قیس سعید اس ہنگامی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے بہترین حل کے طور پر قومی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے۔ جمہوریت کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بجائے ہم اب تک جو کچھ حاصل کر چکے ہیں‘ اسے ہی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ماضی میں اس تلخ حقیقت کا اچھی طرح مشاہدہ کر چکے ہیں کہ کس طرح ایک شخص نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ہمارے ملک کو آمریت کی اندھی گلی میں پھینک دیا تھا جہاں مایوسی اور تاریکی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ہم اس بات سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ تیونس نے ماضی میں بھی اپنے تمام مسائل کا حل قومی مکالمے کی مدد سے نکال لیا تھا اور ہم ایک بار پھر اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے یقینی طور پر اس خطرناک دلدل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
“My country has been a dictatorship before. We can’t go back”.(“New York Times”. July 30, 2021)
Leave a Reply