ہوائیں اور اِن کے اسرار و رموز

وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتِ لِّقَوْمِ یَّعْقِلُوْنَo

’’اور ہوائوں کی گردش (سمتوں کے بدلنے) میں بہت سی نشانیاں ہیں‘ اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘۔

قرآنی آیات میں موجود بہت سے سائنسی حقائق کو اکثر و بیشتر عام قسم کے پیغام سمجھ لیا جاتا ہے‘ یہ حقیقت ہماری کم علمی کی وجہ اور اس کی نشانی بھی ہے‘ لیکن بطورِ خاص اگر یہ بیان ہو کہ ’’اس میں بہت سی نشانیاں ہیں‘ اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘ تو اس کا بلاشبہ یقین کر لینا چاہیے کہ وہ آیت سائنس کے انتہائی اہم حقائق کی حامل ہے چونکہ موجود آیتِ کریمہ بھی پیغام دے رہی ہے اس کو بھی یقینا اسی زمرے میں لے جانا چاہیے۔

آیئے! اب دیکھیں کہ ہوائیں کس طرح وجود میں آتی ہیں۔ ایک سادہ تعریف جو ہر کوئی جانتا ہے‘ یہ ہے کہ مراکز میں الگ الگ ٹمپریچر ہونے کی وجہ سے حملی رو (Convectional Currents) ہوائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہ بے حد عامیانہ خیال ہے جو ہر ایک چیز کو ضرورت سے زیادہ سادہ اور آسان ظاہر کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر طرف سے آنے والی ہوائیں کرۂ ارض کے ہر مقام تک پہنچتی ہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے شہروں کی زہرآلود فضا بھی انہیں مناسب رفتار والی ہوائوں کی بدولت صاف ہوتی رہتی ہے۔ ہوائوں کا یہ ایک بے حد وسیع نظام ہے جو بادلوں کو لاکھوں کی تعداد میں انسانی مرکزوں تک لے جانے کا اہتمام کرتا ہے‘ اس سے ہوا صاف ہوتی ہے‘ اس سے ضرورت کے مطابق برف پگھلتی یا جمتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حرارت کے مراکز یا پیشِ نظر نظام کس قدر گرم یا سرد ہونے چاہییں تاکہ زندگی کی نعمتوں کو اوپر بیان کردہ آبادی کے لاکھوں مراکز میں پہنچایا جاسکے؟

ملحد لوگ ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے انہیں ہوائوں کے یہ حیرت انگیز نمونے نظر ہی نہیں آتے اور وہ انہیں ہوائوں کے وہ عام رخ سمجھتے ہیں جن میں گرمی یا ٹھنڈک ہوتی ہے‘ مگر اﷲ قرآن کے معجزاتی فرمان کے ذریعے ان کی اس چال کو شکست سے دوچار کر دیتا ہے۔

ان لوگوں کے لیے جو غور کرنے والے ہوتے ہیں‘ ہوائوں کی مختلف سمتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ہوائوں کے مضمون کو سمجھنے کے لیے آیئے ہم ان کا مطالعہ دوسری (الٹی) طرف سے کریں۔

الف: اس وقت کیا ہوتا جب زمین میں ایک قسم کا وہ سیارہ ہوتی جس کا محور اس کے گردش کے راستے کی نسبت سے عمودی ہوتا؟ اس صورت میں کوئی ہوا تو نہ ہوتی البتہ انتہائی اور ناقابلِ برداشت آندھیاں‘ مستقلاً زمین کے قطبین سے خطِ استوا تک اور وہاں سے واپس کی طرف چلتی رہتیں۔ چنانچہ ایسا تب ہوتا اگر زمین ایک کدو کی شکل کی عمودی حالت میں قائم کی گئی ہوتی‘ لیکن اﷲ نے زمین کو ۵ء۳۳ ڈگری کے جھکائو پر بنایا ہے‘ اس طرح قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ٹھنڈا ہونے کا عمل اور سورج کا اثر سال کے ہر دن میں مختلف ہوتا ہے‘ اس طرح ہوائوں کی رفتار میں کمی کا اثر بھی پیدا ہوتا ہے جیسے استوا کے علاقے اور ہر ایک زمینی قطب کے درمیان ٹمپریچر کا فرق کم ہوتا ہے۔ ہوائیں بھی زیادہ متناسب رفتار سے چلنا شروع ہوتی ہیں۔

ب: چونکہ کرۂ باد (فضا) کی موٹائی (یا اونچائی) قطبین کی نسبت استوائی خطے پر مختلف ہوتی ہے‘ اس لیے کرۂ باد کے اوپری اور نچلے حصے میں ہوائوں کی رفتار بھی ان دونوں حصوں پر مختلف ہو گئی ہے‘ اس عمل کے ذریعے گرم اور ٹھنڈے رخ کے نظاموں کے نئے اور زیادہ تعداد میں مراکز نے جنم لیا ہے اور ہوائوں میں یہ خاصیت پیدا ہو گئی کہ وہ کسی ایک سمت میں چلنے کی بجائے مختلف سمتوں میں چلتی ہیں۔

ج: کرۂ ارض کی اوپری سطح کس شکل کی ہونا چاہیے‘ یعنی پہاڑوں کی بناوٹ‘ میدان اور سطح مرتفع کس قسم کا ہوتا کہ دنیا کے آبادی کے تمام مراکز ہر سمت سے ہوائیں حاصل کر سکیں اور گرم اور ٹھنڈے رخوں کے متبادل نظام ان میں سے ہر ایک مرکز کے نواح میں پیدا ہو سکیں؟

اس کو دوسری طرح سے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ فرض کریں کہ کرۂ ارض ابھی نیا نیا ہی وجود میں آیا ہے‘ آپ ہزاروں کی تعداد میں سائنسدانوں اور اسی تعداد میں کمپیوٹروں کو جمع کرتے ہیں‘ پھر آپ ان کو کہیں کہ وہ ایسی بناوٹ اور نمونے کے پہاڑوں کے سلسلے میدان اور سطح ہائے مرتفع پیدا کریں کہ زمین کے کونے کونے تک گرم اور سرد ہوائوں کے پہنچنے کا نظام قائم ہو جائے یعنی آبادی کا ہر ایک مرکز تمام سمتوں سے ہوا حاصل کر سکے‘ ان سائنسدانوں کا گروہ اگر ایک ہزار سال تک بھی اس کوشش میں لگا رہے تو تب بھی پہاڑوں کے صرف ایک سلسلے کو صحیح طور پر ترتیب نہ دے سکے گا‘ مگر اﷲ نے زمین پر پہاڑوں کے نمونوں کی ایک طرح سے کشیدہ کاری اس انداز میں کر دی ہے کہ زمین پر سال کے ہر دن ہوا کا ایک نیا رخ پیدا ہوتا ہے اور ہوا ہر سمت سے چلتی ہے۔ چنانچہ جو نادان لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہوا کیا ہے یہ صرف گرم اور ٹھنڈی ہوائوں کا عامیانہ سا نظام ہے ان کو یہ آیت مبارکہ یہ جواب دیتی ہے کہ ’’تم غور ہی نہیں کرتے‘ تم نے تو سائنس سے کچھ سیکھا ہی نہیں‘‘۔

د: ہوائوں کی یہ مہم یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی‘ اﷲ نے کرۂ باد کو دو ایسی اہم خصوصیات عطا کی ہوئی ہیں تاکہ گرم اور سرد مراکز میں ٹمپریچر کا فرق ضرورت سے زیادہ نہ بڑھ جائے اور ہوائیں ناقابلِ برداشت نہ ہو جائیں‘ ان میں سے پہلی خصوصیت اوزون کی تہہ (Ozone Layer) (۱) ہے۔

۱۔ (اوزون کی تہہ۔ زمین کی سطح سے قریباً ۲۵ سے ۳۰ کلو میٹر اوپر کی طرف جس میں فضائی اوزون مرتکز ہوتی ہے‘ یہ سورج کی بالا بنفشی تابکاری کی کافی مقدار جذب کر لیتی ہے‘ یہ تابکاری پودوں اور جانداروں کے لیے مہلک یا نقصان دہ ہو سکتی ہے)۔

جو ضرورت سے زیادہ شمشی حرارت کو اپنے اندر جذب کر کے ٹمپریچر کو بے قابو نہیں ہونے دیتی‘ دوسری خصوصیت ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کمبل جیسا اثر ہے جو زمین کو ٹھنڈا یخ ہونے سے بچاتی ہے‘ خاص طور پر رات کے وقت‘ سائنسی لحاظ سے یہ تمام عجوبے مشترکہ طور پر ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں کہ ہوائیں رہائشی علاقوں تک پہنچ سکتی ہیں‘ اگر یہ توازن کو بحال کرنے والا نظام موجود نہ ہوتا تو وہ آندھیاں جو ہمیں خوف زدہ کرتی ہیں‘ ان ہوائوں کے مقابلے میں نرم رو نسیم سحر کی طرح ہوتیں‘ دراصل طوفانوں اور شدید آندھیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں یہ دکھایا جائے کہ ہوائیں اصل میں کس طرح کی ہوتی ہیں‘ اگر ایک انسان کو ایک تپتے ہوئے گرم دن چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کا شعور ہو جائے کہ اس وقت چلنے والے ہوا کے ایک نرم رو ٹھنڈے جھونکے کے پیچھے کس قدر نازک حساب کتاب کی کارفرمائی ہے تو وہ فوراً اٹھ کھڑا ہو گا اور بے اختیار سجدے میں گر جائے گا۔

ہوائوں کے مختلف اطراف سے چلنے میں کئی نکتہ رس وجوہات ہیں۔ یہ جو ٹھنڈی اور گرم ہوائوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں تو اس کا پہلا اور اہم مقصد بارش کی تیاری کرنا ہوتا ہے‘ بعض اوقات ہوائیں تیز ہو جاتی ہیں اور اپنے ساتھ ہوا سے آئن (Ions) (۲)

۲۔ (۲)Ions۔ آئن‘ برق سے چارج شدہ ایٹم یا ایٹموں کا گروہ‘ گیسی آئن‘ گیسوں میں برقی چنگاریوں سے پیدا ہوتے ہیں‘ کو گھسیٹ کر لے جاتی ہیں‘ اس طرح برقی توانائیاں جو حیات کی بنیاد ہوتی ہیں‘ بارش کے ذریعے ہوا سے زمین تک پہنچتی ہیں‘ جہاں پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ بھی بجلی سے چارج شدہ ایک حیات بخش چیز بن جاتا ہے‘ ہوا کے ذریعے پودوں کے بیجوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا اور یہاں تک کہ پھولوں کے زیرہ (Pollen) پر تخم پاشی کرنا (Insemination) یعنی نباتات میں تخلیقی عمل کے متعلق بھی قرآن میں ذکر ملتا ہے۔

ہوائوں کا ایک بہت ہی اہم پہلو ان کا آکسیجن اور تازہ ہوا کو شہروں میں لانا اور شہروں کی زہر آلود خراب ہوا کو جنگلوں کی طرف صفائی کے لیے لے جانا بھی ہے‘ وہ ہوا جو ہمیں خراب ہوا نظر آتی ہے‘ ایک حد تک درختوں کی خوراک کا ذریعہ بھی ہے‘ اس طریقے سے ساری دنیا میں آکسیجن کی ایک خاص سطح برقرار رہتی ہے یہ سب حیران کن عمل تو قادر مطلق کے عظیم کمپیوٹر میں پہلے ہی سے درج کر دیے گئے ہیں جو بغیر کسی خرابی کے چلتے رہتے ہیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’فیصل ہند‘‘۔ نئی دہلی۔ اپریل ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*