
گجرات کے انتخاب میں سونیا گاندھی کے ذریعہ مودی کو موت کو سوداگر قرار دیئے جانے کی مخالفت میڈیا نے کی اور کانگریس نے بھی۔ کہا جاتا ہے کہ کانگریس کے بعض لیڈروں نے سونیا گاندھی کو اس کے لیے منع بھی کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس کب تک نرم ہند تو ا کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی ۔ اگر سونیا نے قاتلوں کی سر پرستی کرنے والے کو موت کا سوداگر کہہ دیا تو برا ہی کیا کیا؟ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس جب تک ’نرم ہند توا‘ کے سحر سے آزاد نہیں ہو گی ، وہ اسی طرح مودی کی ’بی‘ ٹیم بن کر رہے گی۔
کیا سونیا گاندھی نے نریندر مودی کو موت کا سوداگر کہہ کر کوئی بہت بڑی سیاسی بھول کر دی ؟ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں ہندوستانی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندوستانی سیکولر سیاست میں یقین رکھنے والے ایک طبقہ کا خیال یہ ہے کہ گجرات کے اس انتخاب میں نریندر مودی بالکل شکست کی دہلیز پر کھڑا تھا لیکن سونیا گاندھی نے اپنی انتخابی تقریر میں مودی کو’’ موت کا سوداگر‘‘ کہہ کر اس کو ایک نئی زندگی عطا کر دی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار گجرات کی انتخابی مہم میں مودی نے شروع میں فرقہ پرستی یعنی مسلم نفرت کو اپنا ایجنڈا نہیں بنایا تھا۔ مودی کی انتخابی مہم اس بار گجرات کی ترقی یعنی Development تھی ۔ مودی کو یہ گمان تھا کہ اس کے دور حکومت میں گجرات میں دودھ کی نہریں بہہ چلی تھیں اور اس سے گجرات میں جو ترقی ہوئی اس نے مودی کو ہر خاص و عام میں اس قدر مقبول کر دیا کہ اب وہ نفرت کی سیاست کے بجائے گجرات کی ترقی پر ہی جیت سکتا ہے ۔
لیکن گجرات میں جیسے جیسے انتخابی مہم تیز ہوتی گئی ویسے ویسے مودی کی ترقی کا راز فاش ہوتا گیا۔ بالآخر سچ یہ نکلا کہ مودی کے راج میں امیر اور امیر ہوا ہے جب کہ غریب مزید غریب ہو گیا ہے ۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق پچھلے ۵ برسوں میں تقریباً ۱۶ ہزار کسان مودی کے راج میں خود کشی کر چکے ہیں یا دوسرے طریقوں سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یعنی مودی کی ترقی کی چمک دمک شہروں کی فصیل نہیں پار کر سکی اور کھیتوں میںاوردیہی علاقوں میں پریشانی اور مفلسی اس قدر پھیلی کہ لوگوں نے خود کشی کو موت کی زندگی پر ترجیح دینی شروع کر دی۔ پھر شہروں کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ احمد آباد جیسے بڑے بڑے ۲ ،۴ شہروں میں کچھ چمک دمک والے نئے بازار جن کو مال کہا جا تا ہے وہ کھل گئے ؟ یا پھر نا نا ، امبانی اور رویا جیسے چند برے سرمایہ داروں نے چند ایک کمپیوٹرائزڈ کارخانے ضرور کھول لیے ۔ لیکن ان کارخانوں میں روز گار کے مواقع اتنے کم ہوئے کہ شہری بے روز گاری میں مودی دور میں کوئی بڑی کمی نہیںہوئی۔ اس کے بر خلاف گجرات کی کپڑا ملیں اور ہیرے کی تجارت میں تالے پڑ گئے الغرض مودی کی ترقی کالب لباب یہ رہا کہ مٹھی بھر رئیسوں کے تو مزے ہو گئے جب کہ عام گجراتی مفلسی کی چکی میں پس کر رہ گیا ۔ اس سیاسی اور معاشی پس منظر میںگجرات کی چناوی مہم شروع ہوئی۔ خود کانگریس کے لیڈروں نے سونیا گاندھی کو سمجھایا کہ ان کو مودی کی نفرت کی سیاست کے خلاف زبان نہیں کھولنی چاہیے ۔ کانگریس کے ایک بڑے حلقے نے سونیا گاندھی کویہ رائے دی تھی کہ وہ محض مودی کی کھوکھلی ترقی کے دعوئوں کے خلاف اپنی تقریریں کریں اور کسی طرح مودی کو اس ایجنڈے پر شکست دینے کی کوشش کریں۔ الغرض کانگریس نے اس بار مودی کے خلاف وہی حکمت عملی اپنائی تھی جو اس نے ۲۰۰۲ کے گجرات کے صوبائی انتخاب میں مودی کے خلاف اپنائی تھی اور اس کی نفرت کی سیاست کے آگے سپر ڈال دی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے گجرات میں فساد ہوئے ہیں اور مودی نے وہاں مسلم نفرت کی سیاست کا سیلاب بپا کیا ہے تب سے گجرات کی کانگریس پارٹی مودی کی بی ٹیم کی طرح سے عمل پیرا ہے مودی کی کٹر فرقہ پرست سیاست کے خلاف ایک منظم سیکولر ایجنڈے کے بجائے خود کانگریس بھی گجرات میں نرم ہند توا ایجنڈا لے کر کھڑی ہو گئی۔ بھلا فرقہ پرستی اور مسلم نفرت کے سیلاب میں کانگریس کی نرم ہندتوا سیاست کو کوئی کیوں پوچھتا؟ اگر کسی گجراتی کو ہندو ہونے کا ہی شوق ہو گا تو وہ مودی کی گرما گرم ہندو مزاج سیاست کو گلے لگائے گا یا پھر کانگریس کے نرم ہندو ایجنڈے کو قبول کر ے گا؟ ظاہر ہے کہ جب گجراتیوں کے سامنے نرم اور گرم ہند توا ایجنڈے کے درمیان ایک کو قبول کرنے کا سوال رکھا گیا تو انہوں نے جی بھر کر مودی کی گرم ہند تو ا سیاست کو اپنا ووٹ دیا اور اس طرح کانگریس کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ۲۰۰۲ کا چنائو مودی واضح اکثریت سے جیت گیا۔
لیکن سونیا گاندھی کو ۲۰۰۷ کی انتخابی مہم میں کہیں نہ کہیں یہ احساس ضرور ہو گیا کہ گجرات میں مسئلہ محض ترقی کا ہی نہیں ہے ۔ گجرات کا اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آیا گجرات سیکولر ہندوستان کا ایک باقاعدہ حصہ رہے گا یا کٹر ہندو صوبہ بن کر رہے گا۔ سونیا گاندھی کو یہ بات محسوس ہوئی کہ ترقی کے علاوہ گجرات کے انتخابی مہم میں فرقہ پرستی پرا یک نظریاتی مہم بھی چھیڑنے کی ضرورت ہے بہر کیف انتخابی میدان ہی ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سیاسی پارٹیوں کو اپنی نظریاتی بحث بھی چھیڑنے کا موقع ملتا ہے چنانچہ اس چناوی مہم کو ایک غنیمت موقع جان کر سونیا گاندھی نے نہ صرف مودی کو موت کا سوداگر کہا بلکہ مودی کی پوری مسلم نفرت کی سیاست کو چیلنج بھی کیا اور انہوں نے رائے دہندگان سے یہ اپیل کی اس الیکشن میں وہ گجراتی سیاست کا رخ بدل دیں۔ کیا گجرات کی اس تلخ سیاسی حقیقت کو انتخابی مہم میں کھل کر کہنا غلط بات تھی؟ ہندوستانی میڈیا اور تجزیہ نگاروں سے لے کر خود کانگریس کے بڑے حلقے تک سبھی نے سونیا گاندھی کے نفرت کے سودا گر والے بیان کے خلاف شور مچا دیا۔ ہر طرف یہ کہا جانے لگا کہ سونیا نے مودی کو دوسری زندگی عطا کر دی کیونکہ مودی نے اس کا جواب فوراً یہ دیا کہ ہاں اس نے سہراب الدین کو پولیس انکائونٹر میں قتل کروایا تھا اور اگر کسی میں دم ہو تو وہ اس کو گرفتار کر لے یعنی سونیا کی موت کا سوداگر والی تقریر کے بعد مودی اپنے کو ہندو محافظ اور مسلمانوں کو دہشت گرد کی شکل میں پیش کرنے لگا ۔ اس سے ہندوستانی سیکولر حلقوں میںیہ ڈر محسوس ہونے لگا کہ مودی اب مسلمانوں کا ہوا کھڑا کر کے پھر چنائو جیت سکتا ہے اگر ایسا ہے تو خدا بچائے ہندوستان کی اس ڈری سہمی سیکولرزم سے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۸۶ء میں جب وشواو ہندو پریشد کی کوشش سے ایودھیا میں بابری مسجد کا تالہ کھلا تھا تب سے آج تک ہندوستان میں سنگھ پر یوار کی فرقہ پرستی اور مسلم نفرت سیاست کے مقابلے ہمیشہ ایک کھوکھلی اور ڈری سہمی سیکولرزم کو ہی اپنایا گیا۔ شروع میں راجیو گاندھی کو یہ سمجھایا گیا کہ ان کو ہندو ووٹ بینک کا خیال کرنا چاہیے کیونکہ بہر حال اس ملک کی اکثریت ہندو ہے۔ راجیو گاندھی شاہ بانو کیس کے بعد مسلمانوں کو ان کا پرسنل لا دے کر ہندو شور شرابے سے ڈر چکے تھے۔ ہندو لابی سے گھبرا کر راجیو گاندھی نے ہندو فرقہ پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے ۱۹۸۹ء کے پارلیمانی چنائو میں نرم ہند توا لائن اپنائی۔ ظاہر تھا کہ ہندو ، ہندو نظریاتی تکرار میں گرم ہندتوا نظریہ کی ہی جیت ہوتی ۔ بس راجیو گاندھی چنائو ہارے لیکن کانگریس نے کچھ سبق نہیں لیا اور تب ہی سے کانگریس نے نرم ہند توا لائن کا لبادہ اوڑھ لیا۔ نرسمہا رائو نے سیکولرزم کو بالکل دفن کر کے اپنے دور حکومت میں نہ صرف نرم ہندو توا لائن اپنائی بلکہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے تو آر ایس ایس سے اقتدار میں رہنے کے لیے ایک خاموش سمجھوتا بھی کیا۔ نر سمہا رائو دور میں کانگریس نر سمہا رائو سمجھوتے کے نتیجے میں مرکز فورس کے سامنے ۹۲ء میں بابری مسجد گرا دی گئی۔ پھر ۹۳ء میں کانگریس راج میں ممبئی فساد کے دور میں باقاعدہ مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی اور رائو نے نہ صرف آنکھیں بند رکھیں بلکہ زبان پر بھی خاموشی کا تالا لگائے رکھا۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں مسلم نسل کشی کے بعد بھی کانگریس نے وہاں وہی نرم ہندو لائن اپنائی اور مودی کو گجرات کا ہیرو بنوا دیا۔
اب ۲۰ برس بعد سونیا گاندھی نے ہندو فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس پارٹی کی نرم ہندو توا سیاست کو ٹھکرا کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کی جرات کی تو ہندوستان کے بعض طبقوں نے سونیا کے خلاف ہی شور مچانا شروع کر دیا۔ کٹر فرقہ پرستی کا مقابلہ نرم فرقہ پرستی سے نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے کٹر سیکولرزم کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک گجرات کیا بلکہ پورے ہندوستان میں ہندو فرقہ پرستی کے خلاف سختی سے نبٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ لال کرشن ایڈوانی کو بی جے پی نے ۲۰۰۹ء میںہونے والے پارلیمانی چنائو کا پارٹی وزیر اعظم کا نمائندہ منتخب کر دیا۔ یعنی سنگھ پریوار پورے ہندوستان کو دوسرا گجرات بنانے کے لیے کمر کس چکا ہے ۔ ۲۰۰۷ء میں گجرات کا ریاستی انتخاب محض ۲ پارٹیوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی ہی لڑائی نہیں ہے۔ گجرات کی سر زمین پر ہندوستانی سیاست کا نظریہ ، موت اور نفرت کا نظریہ ہے بھلے ہی اس لڑائی میں پہلے مرحلے میں ںمودی جیت جائے لیکن آگے چل کر مودی نظریاتی جنگ ضرور ہار جائے گا۔ گجرات میں محض چنائو جیتنے کی ہی نہیں بلکہ نظریاتی جنگ بھی جیتنے کی ضرورت ہے سونیا نے مودی کو موت کا سوداگر کہہ کر گجرات میں اس نظریاتی جنگ کی شروعات کر دی ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس جنگ میں مودی کی ہار آج نہیں تو کل یقینی ہے۔
(بحوالہ : نقوش ڈاٹ کام)
Leave a Reply