
سفارت کاری میں متن سے زیادہ سیاق و سباق کی اہمیت ہوتی ہے۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ اس اصول سے مختلف نہیں ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کا دورۂ تھمپھو (بھوٹان) اس جانب اشارہ ہے کہ نئی اسکیم میں پڑوسی ممالک سے تعلقات ان کی ترجیح ہوں گے۔ بھوٹانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں بھوٹان کے ساتھ تعلقات کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی ترقی کے لیے اچھے پڑوسی کی بہت اہمیت ہے، ایک اچھے پڑوسی کی عدم موجودگی میں خوشحالی کی جانب سفر کرتی قوم بھی امن سے نہیں رہ سکتی۔
بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت اور بھوٹان کا مشترکہ خوشحال پڑوسی چین ہے۔ لیکن بھارت کی طرح چین کو بھی اسلامی دہشت گردی کا سامنا ہے جس کا سراغ پاکستان سے لگایا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی نے واضح طور پر اس بات کو دہرایا کہ بھوٹان کی خوشحالی کا اہم سبب بھارت جیسا اچھا پڑوسی ہے۔
یہ جملہ کسی کے آگے خود اپنی تعریف کرنے کے مترادف ہے۔ اس رویّے کواگر غیر اخلاقی سمجھا جائے تواس نقطہ کو سمجھنا دشوار ہوگا جو مودی نے اٹھا یاہے ۔ یہاں ان کا مطلب ہے کہ اگر بھوٹان چین سے قریب ہوتا ہے تواس کے نتیجے میں بھوٹان کی ’’مجموعی قومی خوشیوں‘‘ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بھارت کے ساتھ قائم اس کے خصوصی تعلقات بھی کمزور پڑسکتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کی یہ یقین دہانی کہ طاقتور بھارت اپنے پڑوسیوں کے لیے زیادہ مددگار ہوسکتا ہے، کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نئی دہلی اپنے چھوٹے پڑوسیوں کو ان کے مفادات کے لیے چین یا پاکستان کے قریب جانا دشوار بنا دے گا۔
اپنے دو روزہ دورۂ بھوٹان میں نریندر مودی نے چین کا تذکرہ نہیں کیا۔ لیکن شواہد یہ بتاتے ہیں کہ بھارت بھوٹان سے مزید قربت چاہتا ہے تاکہ اپنے پڑوسی کو چین کی جانب جانے سے روک سکے۔
پہلے دورے کے لیے بھوٹان کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہوگا کہ پہلے سے موجود تعلقات کو سنبھالنا خطے میں نئے تعلقات کی بنیاد رکھنے کی نسبت زیادہ آسان ہے ۔ ماضی میں بھارت کو بھوٹان کے ساتھ مسائل کا سامنارہا ہے، لیکن ان مسائل کو طاقتور عمل دخل کے ذریعہ جلد حل کیا جاتا رہا ہے۔ جب بھی کوئی تنازعہ کھڑا ہوا یا معاہدہ ٹوٹا، وہ بغیر کسی گلے کے بھارت کی مرضی کے مطابق حل کرلیا گیا۔
جب بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں موجود جنگجوئوں کی تنظیم الفا (ULFA) بھارت پر مسلح حملوں کے لیے بھوٹان کو استعمال کر رہی تھی، تو اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے براجیش مشراکو سخت دھمکی دینے کے لیے بھیجا تھا۔ بھوٹان کے بادشاہ نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے مسلح آپریشن کے ذریعہ جنگجوئوں کو باہر نکال دیاتھا۔
بجلی کے نرخوں اور منصوبوں کی تاخیر پر معمول کے تنازعات رہے ہیں اور وہ طے شدہ اجلاسوں میں بغیر خبروں کا حصہ بنے طے کیے جاتے رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے دوران تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے۔ لیکن سال ۲۰۱۳ء میں بھوٹان کے پارلیمانی انتخابات کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس وقت نئی دہلی نے کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والی گیس اور مٹی کے تیل پر رعایت (Subsidy) ختم کردی تھی۔ بھارت کے اس عمل کا نشانہ اُس وقت کے وزیر اعظم جگمی تھنلے تھے جن کی جیت کے امکانات کافی روشن تھے۔ جگمی تھنلے کا قصور یہ تھا کہ وہ بھوٹان کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں نہایت سرگرم تھے۔انہوں نے بھوٹان میں سفارتی مشن کھولنے کے لیے بہت سے ممالک کی حوصلہ افزائی کی اور مبینہ طور پر چین، امریکا، روس، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بھوٹان کی خارجہ پالیسی میں اس تبدیلی کو بھارت کی سلامتی کے لیے غیر موزوں تصور کیا گیا اور نئی دہلی نے جگمی تھنلے کی پارٹی کو نقصان پہنچانے کے لیے ایندھن پر دی جانے والی رعایت ختم کرکے اُن کی انتخابی شکست یقینی بنائی۔
بھارتی حکمت عملی کامیاب رہی اور جیتنے والی جگمی تھنلے کی مخالف پارٹی اور بادشاہ نے سابقہ حکومت کی پالیسیوں پر نظر ثانی کی اور نئی دہلی کو خوش رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ بھارت اور بھوٹان کے تعلقات تو دوبارہ معمول پر آگئے، لیکن بد دیانتی اور بد اعتمادی کے جو بیج بوئے گئے تھے، ان کے اثرات مکمل طور پر زائل نہیں ہوسکے ۔ یہاں تک کہ گوتم بمباولے، جن کو چین اور جاپان کے ساتھ بھارت کے پیچیدہ تعلقات کو انتہائی مہارت کے ساتھ برقرار رکھنے کے باعث قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کی تقرری کے باوجود بھوٹان اور بھارت کے تعلقات میں تاحال پریشانی کا عنصر موجود ہے۔
نریندر مودی کا دورۂ بھوٹان اس امر کی یقین دہانی ہے کہ بھارت کو بھوٹان کے خصوصی شراکت دار کا درجہ حاصل رہے گا۔ اپنے دورے کے دوران ایک سے زائد مرتبہ مودی نے اس سیاسی نکتے کو زور دے کر بیان کیا ہے۔
مضمون نگار آزاد سیاسی اور خارجی امور کے تبصرہ نگار ہیں۔
“Reading between the lines of PM Narendra Modi’s Bhutan visit”. (“dnaindia.com”. June 18, 2014)
Leave a Reply