
نریندر مودی کے اچانک ہونے والے دبئی دورہ پر حیرانی ظاہر کی جا رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے عزم کیا تھا کہ وہ جب بھی ملک سے باہر جائیں گے کم از کم تین ممالک میں ایک ساتھ جائیں گے تاکہ وقت اور پیسے کی بچت ہو۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ وہ اس وقت (۱۶ اور ۱۷؍اگست کو) صرف متحدہ عرب امارات کیوں گئے؟حقیقت میں یہ ملک نہیں‘اتحاد ہے جو سات عرب ریاستوں (ملکوں) سے مل کر بنا ہے۔ وہ دبئی اور ابوظبی پہنچے تو در اصل یہ ایک ساتھ سات ملکوں کا دورہ تھا۔ عرب امارات کے ان سات ملکوں میں لاکھوں بھارتی کام کرتے ہیں۔ ان ملکوں کی اقتصادیات میں بھارتیوں کا اہم مقام ہے۔ ان لوگوں کے ایک اجتماع سے نریندر مودی نے خطاب کیا‘ جیسے انہوں نے امریکا اور دیگر ممالک میں کیا تھا۔ ان لاکھوں لوگوں میں تو جوش تھا ہی‘ جن کروڑوں بھارتیوں نے انہیں ٹی وی چینل پر دیکھا اورسنا‘ ان پر بھی بہت اثر ہوا۔ تقریرکے شوقین نریندر مودی یہ موقع کیسے چھوڑسکتے تھے؟
یوں بھی گزشتہ تین دہائیوں سے کوئی بھارتی وزیراعظم دبئی یا ابوظبی نہیں گیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارات کی بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت ۶۰ بلین ڈالرسے زیادہ ہے اور ہمارے تقریباً ۲۶ لاکھ لوگ وہاں رہتے ہیں۔ مودی نے وہاں جا کر تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف بھی کوئی سمجھوتہ کرنے پر بات چیت کی کیونکہ بھارت کے خلاف بہت سے عناصر وہاں جا کر چھپ جاتے ہیں۔
دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ دلی آ رہے ہیں۔ ایران سے بھارت کے تعلقات گہرے ہونے والے ہیں، جبکہ ابوظبی اور تہران کے درمیان کافی کشیدگی ہے۔ اسی طرح اپنے دورۂ اسرائیل سے پہلے اہم عرب ملکوں کو تسلی دینا ضروری ہے۔ اس نقطہ نظر سے مودی کا دورہ دبئی بالکل صحیح وقت پر ہوا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اتنی مختصر اطلاع پر ہونے والے دوروں میں کئی مشکلات ہوتی ہیں، لیکن ہمارے وزارت خارجہ کے لائق افسران اس رکاوٹ کو پارکر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نریندر مودی کا دورہ متحدہ عرب امارات کافی تاریخی ثابت ہوا ہے۔ تین دہائیوں بعد کسی بھارتی وزیراعظم کا ابوظبی اور دبئی جانا بذات خود ایک بڑی بات بن گئی۔ حالانکہ جو تاریخیں مودی نے یہاں کے دورے کے لیے چُنیں‘ ان میں کوئی بڑا غیر ملکی مہمان یہاں نہیں آنا چاہتا۔ ماہ اگست میں یہاں کا درجہ حرارت ۴۵ سے ۵۰ درجے تک رہتا ہے۔کئی لوگوں نے مجھے بتایاکہ کچھ بھارتی جو یو اے ای میں رہتے ہیں، انہوں نے پُرزور گزارش کی تھی کہ وزیراعظم یہ تاریخیں تبدیل کر دیں۔ متحدہ عرب امارات کی سرکارکو بھی اس گزارش کے سامنے جھکنا پڑا۔ یہاں گرمی اتنی زیادہ ہے کہ مودی کا جو جلسہ دن میں تین بجے ہونا تھا وہ رات آٹھ بجے ہوا۔ جلسے کی انتظامیہ نے بتایاکہ جلسے میں آنے والوں کی تعداد ۷۰ ہزار لوگوں کی رجسٹریشن کے بعد روک دی گئی تھی۔ ویسے دبئی شہر گھومنے پر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ مودی یہاں ہیں یا یہاں آنے والے ہیں۔کوئی پوسٹر‘ جھنڈے، تختیاں وغیرہ کہیںنہیں دکھے۔
وہ ابوظبی میں شہزادہ شیخ محمد بن زایدالنہیان اور دیگر وزرا سے ملے۔ ان سے تجارت‘ دہشت گردی‘ بھارتی مزدوروں‘ سیاحت اور سرمایہ کاری وغیرہ پر بات چیت ہوئی۔ جس بات کا یہاں جم کر پرچار ہوا، وہ ہے بھارتی مزدوروں سے ان کا ملنا۔ جس افسر نے مودی کے لیے یہ تجویز بنائی‘ اس نے عقلمندی کا کام کیا۔ اس بات نے ۲۶ لاکھ بھارتیوں کا دل چھوا۔مودی نے ثابت کیا کہ وہ تعلقات عامہ کے اعلیٰ ماہر ہیں۔ اس بات نے بھی لوگوں کے دل پرکافی اثر ڈالا کہ ابوظبی سرکار نے مندر بنانے کے لیے زمین دینے کا اعلان کیا۔ جو مقامی وزیر، مودی کے ساتھ گھوم رہے تھے‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے وزیر اعظم میںگرم جوشی بہت ہے۔
میرے عزیز دوست شیخ النہیان مبار ک کے ساتھ مودی نے جو ’’سیلفی‘‘ لی‘ وہ سارے بھارتی اور دبئی کے چینلوں پر چمک رہی تھی۔ مودی کے شیخ زاید مسجد جانے پر کئی لوگ طنزکر رہے تھے، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب کام ماہرانہ اندازِ سیاست کے تحت کرنے پڑتے ہیں۔ ایڈوانی جی کراچی میں جناح کے مزار پر کیوں گئے؟اور پھر یہ مسجد، تاج محل کی طرح خوبصورت ہے، عربوں کو اس پر فخر ہے، اسے کوئی بھی دیکھنا چاہے گا، مودی نے دیکھ لی تو کیا غلط کیا؟مودی کے منہ سے یہاں من موہن سرکارکی تھوڑی سی شکایت نکل پڑی۔ اس سے تھوڑی بد مزگی ضرور پیدا ہوئی، لیکن مودی جیسے راہنما سے آپ ایسی غلطی کی بھی امید نہ رکھیں تو یہ آپ کی غلطی ہو گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۹؍اگست ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply