عالمی اُفق پر تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال اب فقط پڑوسی ملک تک محدود نہیں، اپنے اپنے مفادات کے لیے جغرافیائی حدود کے علی الرغم نئے نئے طریقوں سے دوستوں کا تعین یا یوں کہیے، صف بندی کی جارہی ہے۔ تیزی سے بدلتی سیاست، غیراعلانیہ جنگیں اور دہشت گردی کے نام پر معاشی قدغن لگانا عالمی طاقتوں کا شاندار ہتھیار بن چکا ہے۔
مملکتِ خداداد میں گزشتہ ایک عشرے سے جاری دہشت گردی نے ہم پاکستانیوں کے اعصاب کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ساٹھ ہزار سے زائد معصوم پاکستانی شہری لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ کوئی شہر ایسا نہیں کہ جہاں دہشت گردی کی کارروائی نہ ہوئی ہو۔ معاشی تنزلی جو ہوئی، وہ الگ داستان ہے۔ لیکن عالمی طاقتیں بھارت کو سامنے رکھ کر ان تمام اقدامات و کارروائیوں کی سرپرستی کرتی چلی آرہی ہیں کہ جس کے نتیجے میں نقصان پاکستان کا ہی ہو۔ یہ الگ بات ہے اور یقینا اس پر گفتگو ہونی چاہیے کہ پاکستان، جو ہر زاویے سے دہشت گردی کا شکار ملک ہے،کے اربابِ اقتدار و عسکری اداروں کو کیا عملی اقدامات کرنے چاہیے تھے کہ جن کے نتیجے میں یہ تباہی روکی جاسکتی تھی۔ ہماری سول سوسائٹی، سیاسی قیادت اور مذہبی جماعتوں کا کیا کردار ہونا چاہیے تھا کہ جس کے باعث عام شہری ذہنی سکون پاتا۔ میڈیا کو کس طرح کی ذہن سازی کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، جس کے ذریعہ معاشرے میں اُمید اور مثبت سرگرمیوں کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی۔ افسوس فقط افسوس!
اس صورتحال میں خطے کے حالات نے اپنے اثرات مزید سرعت سے دکھانے شروع کر دیے ہیں۔ ۱۷۔۱۶؍اگست کو ہونے والے مودی کے دورۂ متحدہ عرب امارات نے نہ جانے کیوں صرف پاکستان کو نشانے پر رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ ۱۹۸۱ء کے بعد کسی بھارتی وزیراعظم کا یہ پہلا دورۂ امارات تھا۔ مودی صاحب ولی عہد شیخ محمد بن زائد النہیان جو کہ امارات کی فوج کے عملاً سربراہ بھی ہیں، کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے۔ یقینا ہر آزاد ملک کو اپنے مفادات کے تحفظ کا حق حاصل ہے، لیکن مفادات کے نام پر کسی کو نشانہ بنانا مقصود ہو تو بہت سے سوالات ضرور ذہن میں اٹھتے ہیں۔ مودی صاحب کے دورۂ امارات کو جس انداز میں منظم کیا گیا، اس کی وجہ سے ہر وہ شخص جو تھوڑا سا بھی امارات کے مجوزہ قوانین اور ماحول سے واقف ہے، ششدر رہ گیا ہے۔ امارات میں آزادیٔ اظہار کی کتنی اہمیت ہے، انسانی حقوق کا کیا حال ہے، میڈیا کتنا آزاد ہے اور عوامی رائے عامہ کی کیا صورتحال ہے، اس بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شائع شدہ رپورٹیں واضح ثبوت ہیں۔
ایسے پس منظر میں امارات میں تمام ریاستی قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے باوجود عوامی اجتماعات کبھی منعقد نہیں کیے جاسکتے۔ لیکن ۳۴ سال کے بعد خصوصی شاہی دعوت پر آنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، (انتہائی شدت پسند اور ہندو بنیاد پرست کہ جس کے صرف پاکستان کے بارے میں نہیں، بلکہ مسلمانوں کے بارے میں بھی خیالات، جذبات و اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں) کا بلامبالغہ سرخ قالین سے بھی بڑھ کر استقبال کیا گیا۔ مودی صاحب کے دورۂ امارات کا اعلان ہوتے ہی دونوں بڑے مقامی اخبارات ’’خلیج ٹائمز‘‘ اور ’’گلف نیوز‘‘ میں ہفتہ بھر بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوتے رہے۔ سوشل میڈیا مہم اور ٹی وی کے ذریعے بھی اس دورے کو بہت بڑے پیمانے پر مشتہر کیا گیا۔ عوامی جلسہ جس کا انعقاد دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں کیا گیا، کے لیے آن لائن رجسٹریشن اور دیگر تشہیری اقدامات کیے گئے۔ وہ امارات جو ’’شدت پسندوں‘‘ کے خلاف سخت اقدامات کے لیے معروف ہے اور جو مذہبی شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، وہ سرکاری سطح پر اتنے بڑے پیمانے پر معلوم بھارتی تاریخ کے ’’سب سے زیادہ مذہبی شدت پسند‘‘ حاکم مودی کو بھرپور عوامی پذیرائی کے تمام مواقع فراہم کرے گا، یقین نہیں آتا۔ خواب معلوم ہوتا تھا!
متحدہ عرب امارات کا بھارتی جھکائو آیا پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے یا امارات کے معاون وزیر خارجہ کے یمن کے معاملے پر پاکستان کے بارے میں خیالات کا تسلسل ہے، پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو انتہائی سنجیدگی سے دورۂ نریندر مودی کا جائزہ لینا چاہیے اور ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان کے مخلص دوست شیخ زائد بن النہیان کا خاندان پاکستان کے ازلی دشمن کے ساتھ مل کر پاکستان کو واضح پیغامات دیے جارہا ہے۔ ہم اس تفصیل میں زیادہ نہیں جانا چاہتے کہ ’’گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے‘‘ کے مصداق پاکستان سے چور، ڈاکو، قاتل، بھگوڑوں کی محفوظ ترین پناہ گاہ متحدہ عرب امارات ہے۔ ۲ء۱؍ملین پاکستانیوں کی اکثریت متحدہ عرب امارات میں یا تو ڈرائیوری کرتی ہے یا پھر زمین کھودتی اور مزدوری کرتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان کے ساتھ نہ صرف ۱۴۔۲۰۱۳ء میں ۵ء۳۰بلین امریکی ڈالروں کی تجارت ہوئی، بلکہ بھارت کے شہری متحدہ عرب امارات کے بڑے کاروباری افراد ہیں۔ یہاں شعبۂ صحت، انسانی وسائل، مالیات، خدمات، شاپنگ مال اور جیولری کا ۹۰۔۸۰ فیصد کاروبار ہندوستانی شہریوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ آیا ہمارے ملک کے سرکاری عہدیداران اپنے قونصلیٹ کے ذریعے صرف لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں یا کوئی تعمیری اقدامات بھی سرانجام دیتے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ سرکاری سطح سے لے کر اقتصادی و سماجی سطح تک، پاکستان اور پاکستانیوں کے وقار کے لیے رتی برابر بھی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک غلام ذہنیت پروان چڑھانے میں ہمارے خارجی و سفارتی اداروں کی سستی و نااہلی کا بہت بڑا دخل ہے۔ یہی وجہ ٹھہری کہ جب ہماری حکومت اپنی نااہلی اور سفارشی اقدامات کے باعث بیرونِ ملک اپنے شہریوں کے لیے کچھ نہ کرسکی تو اماراتی سوچ بھی ترنگی یاترا میں عافیت جاننے لگی۔ نہ جانے اس سنگین صورتحال کا جائزہ ہمارے حکمران، سیاسی قیادت، خارجی امور کے ماہرین اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ کاروباری انجمنیں کب لیں گی۔ بہرحال یہ کام تو حکومتوں کے ہی کرنے کا ہے۔
مودی کے حالیہ دورۂ امارات نے پاکستان کے منصوبہ سازوں کو سوچنے کے لیے بہت کچھ دیا ہے۔ نہیں معلوم اس بات کا جائزہ لیا جائے گا یا نہیں کہ متحدہ عرب امارات نے ۷۵؍ارب امریکی ڈالر کا فنڈ قائم کیا ہے۔ دونوں ممالک دفاعی آلات کے سلسلے میں بھی تعاون کریں گے۔ بھارت میں ریلوے، بندرگاہوں، سڑکوں اور انفرااسٹرکچر کے دیگر منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ جبکہ اہلِ پاکستان کے لیے سالانہ کھجوروں کا عطیہ ہمارے اربابِِ اختیار کے لیے کافی ہے، کیونکہ اربابِ اقتدار سے لے کر ایان علی تک، پاکستان سے لوٹی گئی دولت کا ذخیرہ یہیں محفوظ کرتا ہے، اور جب تک یہ تحفظ ملتا رہے گا، اہلِ پاکستان تارکینِ وطن کے طور پر امارات میں مزدوری اور ڈرائیوری جاری رکھیں گے۔ دیگر شعبہ جات میں اجارہ داری بھارت کی رہے گی۔
آخری بات!
دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارتی عوام کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت اپنے ہمسایوں کا خیال رکھتے ہوئے افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے آیا ہے۔
جہاں پاکستان اپنے ملک میں امن کے لیے بہرصورت پُرامن افغانستان کا خواہاں ہے، وہیں بھارت افغانستان کے زخموں پر ’’مرہم‘‘ رکھنے کے لیے گرم دمِ جستجو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تقریباً تمام دہشت گردی کی کارروائیوں کا ’’کُھرّا‘‘ بھارت کے خفیہ اداروں تک جاتا ہے، جس کا اظہار پاکستان کے سیای و خارجہ امور کے ذمہ داران بھی وقتاً فوقتاً کرتے آئے ہیں۔
ایسے ماحول میں جب طائف (سعودی عرب) میں بھارتی فوجی طیاروں کی آمد ہوئی ہے، متحدہ عرب امارات اور بھارت نئے معاہدات کر رہے ہیں۔ جب بھارت افغانستان کے زخموں پر ’’مرہم‘‘ رکھنا چاہتا ہے، جب آئے روز لائن آف کنٹرول پر بمباری اور پاکستان میں بم دھماکے ہو رہے ہیں، وہاں خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال میں پاکستان کے داخلہ، خارجہ اور دفاعی اُمور کے سیاسی، انتظامی اور عسکری ذمہ داران کو مملکتِ خداداد کی حفاظت اور ترقی کے لیے پالیسی کو کامل یکسوئی کے ساتھ ملکی مفادات کے مطابق ترتیب دینا اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
جہاں ایک طرف پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے حوالے سے سنجیدہ عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے، وہیں پُرامن افغانستان کے لیے جاری پالیسی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی و سماجی سطح پر بھی منصوبہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
چین کے ساتھ اقتصادی راہداری ایک عظیم منصوبہ ہے، جو ان شاء اللہ پاکستان کے لیے نئی نوید لے کر آئے گا اور پاکستانیوں کے لیے معاشی تبدیلی کا باعث ہو گا۔ لہٰذا حکومتِ پاکستان کو اس منصوبے کے لیے جہاں تکنیکی و انتظامی اقدامات کرنے چاہئیں وہیں پاکستان کے طول و عرض میں نظر آنے والی بے امنی کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت سزا و جزا کا نظام قائم کرنا چاہیے، جو قطعی طور پر انصاف پر مبنی ہو۔
خطے میں پیدا شدہ نئے ماحول اور ہرملک کے اپنے اپنے مفادات پر حکومتی یا عسکری سطح پر ہی نظر و گفتگو نہ ہو، بلکہ سماجی اور سیاسی قیادت بھی اس ضمن میں آگاہی پیدا کرے۔ قوم میں اُمید جگائی جائے۔ میڈیا کا اس سلسلے میں اہم کردار ہے کیونکہ شدید خطرہ ہے کہ دشمن لسانی تقسیم سے شروع کرتے ہوئے مسلکی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کرے گا۔ کراچی اور بلوچستان، بالخصوص گوادر پورٹ کو غیرموثر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر بدامنی کی کارروائیوں کو ملک کے طول و عرض میں پھیلایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس چُومکھی جنگ میں قوم اور قومی اداروں کو زندگی کا ثبوت دینا ہو گا، عسکری و حکومتی اداروں کو قوم سے سچ پر مبنی تعلق قائم کرنا ہوگا۔ سیاسی قیادت کو قومی اتفاقِ رائے پر مبنی مہمات و اقدامات کرنے ہوں گے۔
حالات بدل رہے ہیں۔ بھارت نے جغرافیہ بدلنے کا عندیہ یہ کہہ کر دیا ہے کہ بھارت اپنے ’’پڑوسی‘‘ افغانستان کے زخم پر مرہم رکھتا رہے گا۔ متحدہ عرب امارات نے ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے لیے ہندوستان کے سب سے زیادہ شدت پسند ہندو بنیاد پرست وزیراعظم نریندر مودی کو نہ صرف بہت بڑا جلسہ کرنے کی اجازت دی، بلکہ مسجد سے مندر کا سفر بھی شروع کر دیا ہے۔ ابوظبی کی تاریخ میں پہلی بار مندر تعمیر کیا جائے گا۔
Leave a Reply